The news is by your side.

کرکٹ ٹیم کی ناقص کارکردگی اور قومی مزاج

انواراحمد


قوموں کا عروج بھی اور زوال مجموعی طور پر ہوتا ہے کسی ایک مخصوص شعبے میں نہیں اور اس کا اثر اجتماعی طور پر بھی افراد کے مزاج اور مورال پر اتنا ہی پڑتا ہے۔آج ہم قومی کرکٹ ٹیم کی ناقص کارکردگی پر رورہے ہیں اور کھلاڑیوں کو لعن وطعن کررہے ہیں لیکن کیا ہم نے یہ سوچا کہ یہ لڑکے بھی تو اسی معاشرے کا ایک حصہ ہیں جو حال پوری قوم اور اداروں کا ہے وہی کرکٹ اور دوسرے کھیلوں کا ہے ۔ آپ ان گیارہ لڑکوں کو الگ تو نہیں کرسکتے ان کا مزاج بھی وہی شکست خوردہ ، منتشر اور کنفیوزڈ ہے جیسا باقی پوری’قوم‘ کا۔۔۔

جب مولانا انضمام الحق اور مولوی مشتاق جیسے لوگ ان کےاتالیق ہوں گے جو کھیل کو بھی دنیا اور آخرت کا حصہ بنانے پر تلے ہوئے ہیں اور فیلڈ میں کارکردگی پر توجہ کے بجائے ’اللہ کے فضل و کرم‘ پر زیادہ زور دے رہےہوں تو یہی نتائج ہوں گے ۔ آج کے ہمارے کھلاڑی اپنی کارکردگی اور پروفیشنل ازم سے زیادہ تائید ایزدی اور کسی غیبی مدد کسی معجزے کی توقع رکھتے ہیں . انگلستان کے مشہور کرکٹر اور تجزیہ نگار جیف بائیکاٹ نے سالوں پہلے یہی کہا تھا ۔

“Pakistani team always looking for some divine help”

عبادات اور سجدے یقینا اہم ہیں اور میں بھی دعاؤں پر اتنا ہی یقین رکھتا ہوں ۔ اپنی کامیابی پر اللہ کا شکر بجا لانا بھی انتہائی ضروری ہے لیکن اس کے لیے اس طرح کا اظہار میرے نزدیک ’غلو‘ کی ایک قسم ہے۔ کھیل سے پہلے اور بعد میں آپ چاہیں تو ساری رات رکوع و سجود میں پڑے رہیں اور خوب دعائیں کریں لیکن جب کارکردگی کا معاملہ ہو تو پھر کوئی ایکسکیوز قابل قبول نہیں ۔یہ نہ بھولیں کہ قوم آپ کی طرف دیکھ رہی ہوتی ہے اور وہ ان کھلاڑیوں کو اپنے سر اور آنکھوں پر بٹھاتی ہے ۔ ان کو مایوس کرنا کسی طور مناسب نہیں ۔سب سے اہم یہ کہ آپ پروفیشنل کھلاڑی ہیں اور بھاری معاوضے وصول کرتے ہیں تو قوم حق بجانب ہے کہ آپ سے بہترین مقابلے کی توقع رکھے اور آپ کا فرض ہے کہ اپنا بہترین کھیل پیش کریں ۔۔ بصورت دیگر آپ بددیانتی اور بے ایمانی کے مرتکب ہوں۔

میری نظر میں ہاشم آملہ ایک بہترین مسلمان ہے اور اتنا ہی اچھا کھلاڑی بھی ہے، وہ ہر دوسری تیسری اننگ میں سنچری داغ دیتا ہے لیکن اس قسم کیخودنمائی کا اظہار کبھی نہیں کیا جبکہ وہ پیڈ کرنے کے بعد بھی جیبی قرآن کی تلاوت کررہا ہوتا ہے، اس کے علاوہ انگلستان کے معین علی ، جنوبی افریقہ کے عمران طاہر کے علاوہ دیگر ٹیموں میں بھی مسلمان لڑکے کھیل رہے ہیں کیا کبھی انہوں نے گراؤنڈ میں کوئی مثالی کارکردگی دینے کے بعد کبھی کوئی ایسا مظاہرہ کیا۔

ماضی میں ہمارے عظیم کھلاڑی حنیف محمد ، فضل محمود، ظہیر عباس، میانداد اور عمران خاں کے علاوہ اسکواش اور ہاکی کے نامور کھلاڑیوں نے ملک و قوم کے لئے کیسی کیسی شاندار فتوحات حاصل کیں کیا کبھی کسی نے فیلڈ میں اس طرح کا کوئی طریقہ اپنا ۔ کیا وہ ان سے کم مسلمان تھے ؟؟؟۔

بنگلہ دیشی اور افغانی کھلاڑی بھی مسلمان ہیں لیکن کیا کبھی ان کی جانب سے ایسے مظاہرے دیکھنے میں آئے ۔ مجھے یقین ہے کہ فیلڈ میں بہترین کارکردگی دکھانے کے بعد وہ ضرور اللہ کے حضور سر بسجود بھی ہوتے ہونگے اور شکرانے کی نفل بھی پڑھتے ہوں گے، لیکن خود نمائی سے دور رہتے ہیں۔

ہمارے رویوں میں اتنی خودنمائی سعید انور ، انضمام ، اور مشتاق احمد کے’تبلیغی‘ ہونے کے بعد آئی ۔ کون نہیں جانتا کہ اپنے کرکٹنگ کیریر کے دوران ان سے کیسی کیسی کہانیاں منسوب رہی ہیں اور کس کس نے بکیز سے مل کر کتنا مال بنایا لیکن کیرئر کے اختتام پر سارے کے سارے متقی و پرہیز گار ہوکر چلے کاٹ رہے ہیں ۔ جلد ہی سننے کو ملے گا کہ کپتان سرفراز بھی انہی کے صف میں آکھڑے ہوئے ہیں ۔

دوسرے کھیلوں کی طرع کرکٹ اب کھیل سے زیادہ سائنس اور کیلکولیشن کا کھیل ہے لیکن ہمارے ’جونسے‘ کھلاڑی ہیں۔ ان کی تعلیم اور ذہنی معیار انتہائی پست ہے کہ ان میں سے بہت سے تو جن سیون اسٹار ہوٹلز میں ٹھہرتے ہوں گے، وہاں کے ٹوائلٹ کا استعمال بھی نہیں کرنا جانتے ہوں گے چہ جائیکہ غیر ملکی میڈیا کے سامنے پریس کانفرنس کرنا، امپائرز اور لوکل کراؤڈ کو ہینڈل کرنا۔۔۔ کیا کھلاڑیوں کی ان امور کے حوالے سے اصلاح پر کبھی توجہ دی گئی ہے۔

اب سے چند سال پہلے کرکٹ اتنی بڑی نہیں تھی ۔ ہمارے ماضی کے پلیرز اپنے اعلی معیار اور کھیل کی وجہ سے غیر ممالک میں چھاجاتے تھے۔یہی حال ہاکی اور اسکواش کا تھا ۔ اتنے بڑے نام اور کیسے کیسے لوگ جنہوں نے دنیا میں اپنا لوہا منوایا اور امر ہو گئے اور اب کیا حال ہے ۔۔۔۔ ابھی کل کی بات ہے کہ بنگلہ دیش اور افغانستان جیسے ملکوں نے ہم سے کھیلنے سے انکار کردیا ۔ مقام افسوس کا ہے اور سوچنے کا بھی کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور اقوام عالم میں ہمارا کیا مقام ہے۔

خود میاں مٹھو بنے رہو اور راگ الاپتے رہو ’تم جیتو یا ہارو ہمیں تم سے پیار ہے‘ اور اس قسم کے دوسرے لا یعنی نعروں میں مگن رہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ دنیا بہت آگے نکل چکی ہے

کوئی بھی کھیل ہو یا کوئی اور ایونٹ، وہ کسی قوم کی ذہنیت اور اس کی یکجہتی کی علامت ہوتا ہے ۔۔۔۔ کیوں ان کھلاڑیوں کو الزام دیا جائے آخر یہ بھی تو اسی کا حصہ ہیں کوئی الگ مخلوق تو نہیں جو پوری ’قوم ‘ کی ذہنی فکری اور علمی و عملی حالت ہے وہی ان کی ہے ۔وہی بے ترتیبی ، غیر یقینی، بد انتظامی، کسی غیبی طاقت کی توقع اور بدحواسی ۔ قومیں جب ترقی یا تنزلی میں جاتی ہیں تو کسی ایک شعبے میں نہیں بلکہ یہ عمل ہمہ گیر ہوتا ہے اور یہی ہورہا ہے. ہمارا کون سا شعبہ یا ادارہ قابل تحسین یا کم از کم اوسط درجے ہی کی کارکردگی دکھا رہا ہے پھر کیوں آپ کرکٹ کے کھلاڑیوں سے توقع کریں کہ وہ اعلی درجے کی کارکردگی دکھائیں گے ۔

ذرا ہمارے کھلاڑیوں کی علمی کیفیت تو ملاحظہ کریں بیچاروں سے بولا تک نہیں جاتا ۔ان کی ذہنی کیفیت کیا ہوگی ذرا سوچیں ۔ اور اس میں ان کا قصوربھی کیا ہے ؟، گاؤں اور گلی محلے کی سطح سے اٹھ کر وہ سیلیبریٹیز بن جاتے ہیں، اب ان کی تربیت کس کی ذمہ داری ہے؟۔ دعا دیں کہ رمیز راجہ ہے جو (اگر کبھی ہمارا کوئی مین آف میچ بن جائے ) تو اردو میں بات کرکے ان کو سبکی سے بچا لیتا ہے۔ یہ لڑکے اس کم علمی کی وجہ سے کیا سمجھتے ہوں گے کسی فرنگی کوچ کی باتوں اور سائیکاٹرسٹ کے لیکچرز کو اور آج کی کرکٹ کی باریکیوں کو ۔۔بس کبھی کوئی تکے میں اچھی پرفارمنس ہوجائے تو ہوجائے ۔ گارنٹی کوئی نہیں ۔۔۔ لہذا بہتر یہی ہے کہ اسکواش اورہاکی کے بعد اب کرکٹ پر بھی فاتحہ پڑھ لی جائے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں