’روٹی بندہ کھا جاندی اے‘ پنجابی کا یہ مشہور فقرہ آپ کو سچ نظر آئے گا۔ اگر آپ بے چارے چھوٹے کسانوں کی حالت زار کا اندازہ لگائیں گے۔ گزشتہ ادوار میں بھی شاید ایسا ہی ہوتا ہو ۔مگر موجودہ دور میں آئے روز کوئی نہ کوئی کسان روزی روٹی کی نظر ہورہا ہے۔چاہے ہماری طرف ہو یا بارڈر کے دوسری طرف ہو۔تقسیم کے بعد سے دونوں ملکوں کے چھوٹے کسان مایوسیوں کی نظر ہوتے چلے آرہے ہیں۔
ہر گزرتا دن ان محنتی اور جفاکش کسانوں کے لئے نئی پریشانیاں لاتا ہے۔زندگی ہل چلاتے گزر جاتی ہے ۔مگر قرض کا بوجھ ہے کہ کم نہیں ہوتا۔کتنے دکھ و تکلیف کی بات ہے کہ، وہ کسان جو لوگوں کے لئے خوراک و اجناس کاشت کرتے ہیں ۔وہ خود اپنے خاندان کی اچھی کفالت نہیں کر سکتے۔ان کی اچھی پرورش نہیں کرسکتے۔نہ ہی معیاری تعلیم دلا سکتے ہیں۔نہ ہی بہتر طبی سہولتیں مہیا کر سکتے ہیں۔روٹی جس کے بغیر انسانی زندگی نہ ممکن ہے۔اس کی کاشت کرنے والا آج سماج میں سب سے زیادہ بدحال ہے۔اس کے برعکس کپڑا اور مکان بنانے والا سماج میں بڑی کاروباری شخصیت تصور ہوتاہے۔شاید زمانے کی رفتار نے کسان کی اہمیت و قدر کو بھی کھو دیا ہے۔
پاکستان کا زیادہ تر رقبہ زرعی و دیہی علاقوں پر مشتمل ہے۔جس کی وجہ سے زیادہ تر لوگ شعبہ زراعت سے وابسطہ ہیں۔لیکن بدلتی صورتحال اور ضروریات کی بدولت لوگ اس شعبے کو ترک کر کے دیگر شعبوں سے منسلک ہو رہے ہو۔ اس بدلتی صورتحال کی وجہ سے پاکستان زرعی لحاظ سے اپنے ہم پلہ زرعی ملکوں سے زراعت کے شعبے میں کافی پیچھے رہ گیا ہے۔شاید یہ فرق آئندہ کئی برسوں میں بڑھتا چلا جائے۔
پاکستان میں زیر کاشت زرعی رقبہ زیادہ تر چھوٹے کسانوں کا ہے۔ایسے کسانوں کی اکثریت ہے، جن کے پاس چند کنالوں سے لے کر بیس ایکڑ تک زرعی رقبہ موجود ہے۔یہی کسان ہماری زراعت میں زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔یہی وہ کسان ہیں جو برسوں سے پریشان حال و بدحال بھی ہیں۔زمانے کی اس تیزی نے ان کسانوں کو جنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ان کی کاشت کردہ اجناس سے حاصل شدہ معاوضہ ان کی روز مرہ کی ضرورتوں کی نسبت بہت کم ہوتا چلا جا رہا ہے۔آئے روز ان کی ضرورتیں ان کے روزگار کو دھکیلتے ہوئے برق رفتار ی سے آگے بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔قرضوں کے بوجھ بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔
بعض کسانوں کے حالات ایسے ہیں کہ برسوں سے ان پر قرضوں کا بوجھ چلا آرہا ہے۔ان کے باپ دادا بھی اسی قرض کے بوجھ کو کم کرتے کرتے ،اپنی زندگی تمام کر گئے۔کچھ کو اپنی گزشتہ نسلوں سے قرض زدہ وراثتی زمینیں ملی ہیں ۔جن کے بدلے وہ اپنے بزرگوں کو بد دعائیں تو نہ دیتے ہوں، لیکن کوستے ضرور ہوں گے۔بعض مفکرین کے نزدیک شعبہ زراعت سے وابسطہ یہ متوسط طبقہ شروع ہی سے پریشان حال چلا آرہا ہے۔ہر حکومت کی ترجیحات میں شہراور شہری مسائل ہی شامل رہے ہیں۔بعض کے نزدیک نہ صرف حکومت بلکہ نام نہاد تنظیموں اور حتی کہ میڈیا کی ترجیحات میں بھی شہری مسائل اور ان کا حل ہی رہاہے۔
کم علم ہونے کی بدولت یہ متوسط طبقہ اپنے حق کے لئے آواز اٹھانے میں بھی ناکام رہا ہے۔دوسری طرف سیاسی پارٹیوں کی ترجیحات میں بھی شہر اور شہری آبادی شامل رہی ہے۔سیاسی پارٹیوں اور حکومت کو تو صرف اپنی شہرت اور ووٹ حاصل کرنے سے غرض ہوتی ہے۔انہیں اس بات سے ہر گز کوئی غرض نہیں کہ پاکستان کا سب سے بڑا شعبہ زراعت ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کمزور ہو یا پھر پھلے ، پھولے۔اقتدار کا لالچ ہمیشہ سے زرعی علاقوں کو نظر انداز کرتا چلا آیا ہے۔
واقعی اس میں کسانوں کی اپنی کم علمی اور بڑی غلطیاں بھی شامل ہیں۔کسی بھی حکومت نے اس متوسط طبقے کی خود مختاری کے لئے صدق دل سے کبھی کچھ کیا ہی نہیں۔قرضوں کی نت نئی اسکیمیں متعارف کروائی جاتی ہیں۔جس کے جال میں پھنس کر چھوٹا کسان اپنی زندگی زہنی اذیتیوں کی نظر کر دیتا ہے۔کروڑوں اربوں کی سبسڈیاں نہ جانے کہاں چلی جاتی ہیں۔کبھی کسی چھوٹے کسان کو براہ راست کسی سبسڈی کا فائدہ نہیں پہنچا ۔بلکہ اس کے برعکس بڑے ذخیرہ اندوز اور بڑے جاگیردار ہی اس سے مستفید ہوتے چلے آرہے ہیں۔اس جاگیردارانہ نظام میں ڈھنڈیاں مارنے کا سلسلہ بھی کافی پراناہے۔ڈھنڈیاں مارنے میں محکمہ زراعت ہمیشہ سر فہرست رہا ہے۔
اس کرپٹ نظام میں چھوٹے کسان کا ہمیشہ بھرکس ہی نکلتا رہا۔جو آج بھی اسی رفتار سے جاری و ساری ہے۔کھادوں دواؤں کے بڑھتے ریٹ، چھوٹے کسانوں کو اسی زہر کو پی کر زندگی کے خاتمے کی طرف اکساتے ہیں۔ڈیزل کے بڑھتے ریٹ، کسانوں کو خود پر چھڑک کرآگ کی نظر ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔زرعی آلات کی قیمتیں اور ان کے معیار، کسانوں کو ٹریکٹر کے نیچے دب کر کٹھن حالات سے چھٹکارے کی نشاندہی کرتے ہیں۔آخر میں فصلوں کے نامناسب ریٹ ،کسان کو ایسی فصل کے ساتھ ہی دفن ہونے کی طرف راغب کرتے ہیں ۔جس سے کسان کے خون پسینے کا ازالہ نہ ہو ۔جس سے وہ اپنی اولاد کی پرورش نہ کر سکیں۔کسان تو آئے روز ویسے ہی مرتا ہے۔لیکن ’مڈل مین‘ مراد کاروباری اشرافیہ کے روپ میں ڈیلرز وغیرہ نے تو کسانوں کو جیسے راکھ کرنے، انہیں صفحہ ہستی سے مٹانے، کا ٹھیکہ لے رکھا ہو۔یہ وہ متحرک گروہ ہے، جو براہ راست کسانوں کی فصلوں کے ریٹس کو کنٹرول کرتا ہے۔ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ کسان انہیں اپنی فصل اونے پونے بیچ جائے ۔ذخیرہ اندوزی ان کا مشغلہ ہوتا ہے۔
ہمیشہ ہی سے حکومت اور اس کا چہیتا محکمہ زراعت اس سارے معاملے میں غفلت کی نیند ہی سویا رہا ۔من مانیاں اس محکمے کا جیسے فرض ہو۔زمانہ ادھر سے ادھر ہو گیا ہے۔دنیا میں جدت آگئی ہے۔زراعت کے شعبے میں بڑی ترقیاں ہو ئیں۔لیکن مجال ہے کہ، ہمارا محکمہ زراعت کبھی اپنی شاہانہ سستی کم کرنے لئے ٹس سے مس بھی ہوا ہو۔
کم آگاہی اور جدید مشینیری کی کمی، کی وجہ سے ہمارے کسان آج بھی وہی چاول کی فصل ، وہی گندم کی فصل اور دیگر اجناس اگا رہے ہیں، جو برسوں پہلے ان کے آباؤ اجداد لگایا کرتے تھے۔اور وہی پیداواری اوسط نکل رہی ہے، جو آج سے کوئی دس برس قبل ہوا کرتی تھی۔وہی پرانی چند ٹریکٹرز کمپنیاں آج بھی راج کر رہی ہیں جو برسوں پہلے تھیں۔کسان وہی پرانی طرز کی مشینری خریدنے پر مجبور ہیں جو دنیا نے برسوں پہلے استعمال کرنا بھی چھوڑ دی تھیں۔وہی لاعلم کسان جنہیں صرف یہی علم ہے، کہ لال رنگ کی دوا ڈالنی ہے اور سفید رنگ کی کھاد۔انہیں کچھ علم نہیں کے کوئی زمین کا چیک اپ بھی ہوتا ہے ،جس سے زمین کی زرخیزی کے بارے علم ہوتا ہے۔ اسی بنیاد پر رپورٹ کے مطابق انہیں کیمکلز یعنی دوائیں ڈالنا ہوں گی۔لیکن ہمارا لاڈلہ محکمہ زراعت اور ہماری مفاد پرست حکومتوں کے نزدیک شاید اس بارے آگاہی و کام کی کبھی ضرورت ہی پیش نہ آئی ہو۔ کیونکہ بڑے جاگیردار اور اشرافیہ توآج بھی جدید طریقہ کاشت کاری سے مستفید ہو رہے ہیں۔معاملہ تو صرف ان کسانوں کا ہے ۔جن کے ووٹ خریدے جا سکتے ہیں، گلی نالیوں اور چھوٹے موٹے لالچ کے برعکس۔
آخر کون دیکھے گا کہ محکمہ زراعت کی کارکردگی کیا ہے؟ اس محکمے کا کردار کیا ہے؟ کون یہ طے کرے گا کہ اکثریت میں موجود چھوٹے بدحال و پریشان کسانوں کے لئے کچھ کرنا ہے؟کب وہ وقت آئے گا جب محکموں پر لاڈلوں کی چھاپ ختم ہو گی؟کب یہ محکمہ غفلت کی نیند سے بیدار ہوگا؟چھوٹے کسانوں کے زخموں پر کون مرہم رکھے گا؟آخر کب تک یونہی سبسڈی کے نام پر کرپشن کے مینار کھڑے ہوتے رہیں گے؟آخر کب تک ہماری معشیت اور زراعت مفادات کی نظر ہوتی رہے گی؟۔
موجودہ حکومت پر عوام کو اعتماد ہے۔حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ اس سنگین مسئلے پر کام سے لگایا جا سکتا ہے جسے گزشتہ حکومتیں مسئلہ ہی تصور نہیں کرتی تھیں۔مراد آبی مسئلہ جس کے ضمن میں حکومت ڈیم فنڈ اکٹھا کر رہی ہے۔حکومت نے جلد از جلد نئے ڈیمز تعمیر کرنے کا عندیہ دے رکھا ہے۔جو زراعت کی مضبوطی کے لئے مفید ترین ثابت ہوگا۔ مہنگائی کے اس دور میں گندم کی بوائی سے پہلے کھادوں ،دواؤں اور ڈیزل کے بڑھتے ریٹ چھوٹے کسانوں پر ایٹم بم گرانے کے مترادف ہیں۔حکومت کو کسانوں کی مجبوریاں سمجھتے ہوئے انہیں سہولتیں مہیا کرنی چاہئیں۔کسانوں کو آپ سے بڑی امیدیں وابسطہ ہیں۔امید کرتے ہیں کہ، موجودہ حکومت گزشتہ حکومتوں کی طرح عوام کو مایوس نہیں کرے گی۔وگرنہ ،رفتہ رفتہ شعبہ زراعت سے لوگوں کا دل اٹھتا چلا جائے گا۔جس کے نتیجہ میں زراعت کی تنزلی اور ہماری معیشت کی کمزوری بڑھتی چلی جائے گی۔۔۔ذرا سوچئے!
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر گوشہ گندم کو جلا دو