ایک طرح سے تو موجودہ حکومت بھی پرانی روایتی حکومتوں جیسی ہی نکلی۔انہی کی طرح الیکشن سے قبل بڑے دعوے،عقل مندانہ ترکیبیں اور حقائق پر مبنی دلیلیں، معیشت میں بہتری کے منتر،عوام کو ریلیف جیسے خواب، اور قسمتیں بدلنے کے کرتب دکھائے جاتے رہے۔عوام نے ان کی باتوں پر بھروسا کرتے ہوئے انہیں موقع فراہم کیا۔ الیکشن سے قبل ،عوام کے نزدیک اس حکومت میں کچھ نئی جھلک دکھائی دے رہی تھی۔یہ جماعت جس میں چاہے پرانے ہی سوار شامل ہیں،عوام کے لئے حقیقی تبدیلی کے دعویدار لگ رہے تھے۔تاہم حکومت میں آتے ہی جادوئی ترکیبیں جیسے رک سی گئی ہوں۔جیسے کسی نے حکومت کو نظر لگا دی ہو۔ایسا کیسے ممکن ہے کہ ،ایک جماعت کا ہر رہنما ہی اپنی ترکیبیں بھولنے لگے۔لگتا ہے کہ، روایتی جماعتوں نے اس جماعت کو بھی روایتی بنانے کے لئے کوئی جادوئی علم کروایا ہے۔وگرنہ الیکشن سے قبل تو اس حکومت کی تبدیلیاں بظاہر تھیں۔مانتے ہیں کہ ،حکومت کا نشہ ایسا ہے کہ باقی نشوں پر حاوی آجائے۔لیکن نئے پاکستان والے تو اس میں مبتلا ہی نہیں ہوسکتے۔ مگر پھر بھی روایتی انداز کیوں؟
خیر عوام تو آج بھی امیدیں لگائے بیٹھی ہے کہ، اس دن کا سورج کب طلوع ہوگا۔جب سب نیا نیا سا لگے گا۔جہاں امیر و غریب، گورے و کالے، اور پنجابی و بلوچی میں کوئی فرق نہیں ہوگا۔جہاں تعلیمی نصاب ایک ہوگا۔جہاں غربت کی بدولت کوئی علاج سے محروم نہیں رہے گا۔جہاں نوکریاں ہوں گی، روزگار ہوگا۔جہاں ریاست عوام کی رکھوالی ہوگی۔جہاں عوام کو مہنگائی کی بجائے ریلیف ملے گا۔آہ !نہ جانے یہ تبدیلی کب نمودار ہوگی۔
ابھی تک کے وقت میں حکومت اپنے کسی بھی دعوے پر پورا نہیں اتری۔حکومت نے کرپشن پر قابو پانے کا جو شور مچا رکھا ہے اس میں کامیابی اس دن ہوگی۔جب کرپشن سے لوٹا ہوا روپیہ قومی خزانے میں جمع ہوگا۔تب حکومت کو عوام پر مہنگائی جیسے بم گرانے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔بات معیشت کی ہو تو حالات آپ کے سامنے ہیں۔ڈالر روپے کے برعکس اونچی اڑان اڑ رہا ہے۔بجلی وگیس کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔روزمرہ کی اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں آئے روز اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔انسانی علاج کے لئے استعمال ہونے والی دوا کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔بڑی انڈسٹریوں میں ’ڈاؤن سائیزنگ ‘شروع ہوچکی ہے۔زراعت بھی زبوں حالی کا شکار ہے۔ایسے میں تاجر مافیا دیگر چیزوں میں مصنوعی قلت پیدا کر کے منگائی کا طوفان برپا کر رہا ہے۔ آئے روز کوئی نہ کوئی بے روزگار ہو رہا ہے۔بے روزگاری کی شرح بڑھتی چلی جا رہی ہے۔اس سب میں حکومت کا کردار کیا ہے؟ شاید حکومت ابھی ریاستی معاملات کو سیکھ رہی ہے۔حالات ایسے ہی رہے تو آنے والے وقت میں جو ’ڈاؤن سائیزنگ‘ کا سلسلہ شروع ہوا ہے، لاکھوں گھروں کو بے روزگار کر کے ہی دم لے گا۔بے روزگاری غربت و مہنگائی کو جنم دے گی ۔ غربت و مہنگائی لوگوں کی بے بسی کا باعث بن کر معاشرے کو تباہی کے دیہانے پر لا کھڑا کرے گی۔افراتفری میں اضافہ ہوگا۔
حکومت مسلسل معیشت کو قابو پانے میں ناکام ہو رہی ہے۔نہ ہی مراد سعید کی اربوں کی رقم والی تقریر کسی کام آ رہی ہے نہ ہی جناب اسد عمر صاحب کی حکمت و دانائی۔حکومت 23جنوری کو تیسرا منی بجٹ پیش کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہے۔گزشتہ سال ستمبر میں جو بجٹ پیش کیا گیا ، اس میں 183ارب کے اضافی ٹیکس لگائے گئے تھے ۔اندازے کے مطابق جنوری میں پیش کئے جانے والے منی بجٹ میں 200ارب کے مزید ٹیکس لگائے جائیں گے۔ کہنے کو تو منی بجٹ میں آسانیاں ہوں گی۔یہاں سوال یہ ہے کہ، چند ماہ بعد ہی بجٹ میں نظر ثانی کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟
معروف اکانومسٹ جناب اسد عمر صاحب کی انجینیئرنگ کی بدولت جو مہنگائی کا طوفان برپا ہے، اس کی زد میں شامل ہر کلاس و طبقہ ہے۔بقول وزیر خزانہ ٹیکس صرف امیروں پر اثر انداز ہوں گے۔جناب کاروباری رجحان میں جو کمی واقع ہوگی، اس کے اثرات کی بدولت غریب بے روزگار ہوگا۔
یہ بھی تو سمجھ سے بالاتر ہے کہ نت نئے ٹیکسز آئی ایم ایف کی شرائط ہیں ،یا پھر فیڈرل بورڈ آف ریوینیو کی ناکامی کا سبب ہیں۔اگر یہی ٹیکسز رفتا رفتا پوری منصوبہ بندی کے تحت لگائے جاتے تو مہنگائی پر بھی کنٹرول رہتا اور بے روزگاری سے بھی بچت ہوتی۔جناب اپنی منصوبہ بندیوں پر نظر ثانی کریں ،فوری ٹیکسوں کا بوجھ مجبور و بے روزگار عوام پر نہ ڈالیں۔اپنی الیکشن سے قبل والی منطقوں کو آزمائیں اور عوام کو ہلکہ پھلکا ریلیف بھی فراہم کریں۔غریب عوام کی نہ ہی معیشت لفظ سے کوئی شناسائی ہے نہ ہی قرض سے۔انہیں صرف اپنے خاندان اور اپنی اولاد کا پیٹ پالنا ہے،جس میں ٹیکس کی بدولت انہیں دقت پیش آرہی ہے۔صاحب!ہر کام جنون سے ہی نہیں ہوتا ۔کچھ کام سکون سے بھی ہوتے ہیں۔ہمارے وزیر خزانہ آج تک یہ نہیں طے کر پائے کہ آئی ایم ایف سے قرضہ لینا بھی ہے یا نہیں۔ آج کوئی بیان کل کوئی۔اپنی ہی باتوں سے پھر جاتے ہیں۔باتیں غریبوں کو ریلیف دینے کی کرتے ہیں اور مشاورت مالدار طبقے سے ۔آخر یہ ہو کیا رہا ہے۔