پاکستان کی صنعتی ترقی ،معاشی اورسماجی زندگی کا انحصار پیٹرولیم مصنوعات پر ہے ۔ اگر خدانخواستہ ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کا بحران پیدا ہواتو ملکی سلامتی واستحکام کو بڑاخطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ ملک میں ٹیکس نظام سے حاصل ہونے والی کل آمدنی کاچوتھا حصہ صرف پیٹرولیم مصنوعات سے حاصل ہوتا ہے ۔ ایف بی آر کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ مالیاتی سال میں صرف پیٹرولیم مصنوعات کی فروخت سے 498.9بلین روپے ٹیکسوں کی مد میں حاصل کئے گئے تھے ۔اس وقت ملکی معیشت کا ساٹھ فیصد انحصار امپورٹ پر ہے ۔ پاکستان اپنی روزمرہ ضروریات کی ساٹھ فیصد پیٹرولیم مصنوعات بیرون ملک سے منگواتاہے ۔ اگرچہ اس شعبے کی ذمہ داری وزارت پیٹرولیم پر ہے مگر اس کا انفراسٹرکچر خود مختار ادارے ”اوگرا“ کی کارکردگی کا مرہون منت ہے جو پیٹرولیم مصنوعات کی امپورٹ اور مارکیٹنگ میں براہ راہ راست کردار اداکرتاہے ۔اس وقت ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کا بحران پیدا ہونے کا خدشہ پیدا ہوچکا ہے کیونکہ ملک بھر کی پیٹرولیم مصنوعات مہیا کرنے والی کمپنیا ں بد ترین مالیاتی خسارے کا شکار ہیں ۔
اس کی بنیادی وجہ یہ ہےکہ اوگرا نے پیٹرولم مصنوعات مہیا کرنے والی کمپنیوں پر ایسی ڈالرپالیسی کا اطلاق کردیا ہے جس کی ای سی سی کے قواعد و قوانین اجازت نہیں دیتے ۔اوگرا نے پچھلے چند ماہ میں معمول کے طریقہ کار کو بدل کر اب آئل مارکیٹنگ کمپنیز کو پابند کردیا ہے کہ وہ اپنے ذمہ ادائیگیاں ڈالر کی بڑھتی ہوئی نئی قیمت کے مطابق کیاکریں گی ۔ ڈالر کی قیمت بڑھنے سے پہلے کمپنیوں نے تیل اوگرا کی پہلےسے طے شدہ قیمت کے مطابق فروخت کردیا تھا ۔ چنانچہ جب انہیں حکومت کو ادائیگیاں ڈالر کی بڑھی ہوئی قیمت کے مطابق ادا کرنی پڑیں تو انہیں اربوں روپے کا مالیاتی خسارہ ہوگا۔ جس کی وجہ سے یہ کمپنیاں مسلسل چیخ و پکار کررہی ہیں کہ اگر ان کے لئے موجودہ غیر قانونی طریقہ بند نہ کیا گیا اور انہیں ریلیف نہ دیا گیا تو وہ کوئی بڑا قدم اٹھاسکتی ہیں ۔ اگر معاملے کی سنگینی کو محسوس نہ کیاتودلبرداشتہ آئل کمپنیاں پٹرول پمپس کوسپلائی اور بیرونِ ممالک سے تیل امپورٹ بندکردیں گی ۔ جس سے ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کا شدید بحران جنم لے سکتا ہے۔ ایسی صورت میں ملکی صنعتیں بند ہونا شروع ہوجائے گی , اور معاشی و سماجی زندگی کا پہیہ جام ہوجائے گا۔ ہمارے پاس پہلے ہی محفوظ تیل کے ذخائر خطرناک حد تک کم ہیں ۔ اگرصورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دشمن جارحیت کردے تو ہماری افواج کےلیے ذرائع نقل و حمل مفقود ہوجائیں گے،جو کہ خدا نخواستہ شکست کا سبب بن سکتی ہے۔ لہذا پیٹرولیم مصنوعات ملک کے لیے ایک دفاعی لائن کی حثیت رکھتی ہیں۔ سودی قرضوں میں ڈوبی ہوئی ملکی معیشت پہلے سے ہی اسٹرٹیجک طور پر ہمارے لیے خطرے کی گھنٹی بجاچکی ہے۔ اور پیٹرولیم مصنوعات کا مہلک بحران بھی دروازے پردستک دےچکاہے ۔
حکومت کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ پیٹرولیم مصنوعات مہیا کرنے والی ملکی و غیر ملکی سرمایہ کار کمپنیاں اگر مالیاتی خسارے سے دوچار ہوئیں تو ملک میں غیرملکی سرمایہ کاری کے نئے مواقع پیدا کرنے پر بھی خطرناک اثرات مرتب ہوں گے۔ حکومتی پالیسیوں سے گھبرا کر غیرملکی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے سے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کریں گے۔ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کےلیے حکومت کو چاہیے کہ وہ سرمایہ کار دوست پالیسی اپنائے ۔ اوراس کی ابتداء پیٹرولیم مصنوعات مہیا کرنے والی کمپنیوں کی بے چینی دور کرنے سے ہونی چاہیے۔ اور اس کے دو ہی ممکنہ طریقہ ہائے کار ہیں ۔ پہلا یہ کہ وزارتِ پیٹرولیم ایسے اقدامات کرے کہ پیٹرولیم مصنوعات مہیا کرنے والی کمپنیوں کو مالیاتی خسارہ پورا کرنے کےلیے خاطرخواہ ریلیف مل سکے ۔
دوسرا یہ کہ اوگرا اپنی نئی پالیسی پر نظرثانی کرے۔ مجھے حیرت ہے کہ وزارتِ پیٹرولیم اور اوگرا صورتحال کی سنگینی کو نظرانداز کرتے ہوئے معاملے کا نوٹس لینے میں جان بوجھ کر تامل کررہے ہیں ۔ کیا ایسا کرکے ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کا بحران پیدا ہونے کا انتظار کیا جارہا ہے؟؟؟ اور یہ کہ ایسا کس کے ایماء پر ہورہاہے؟اگرملک میں پیٹرولیم مصنوعات کے ممکنہ پیدا ہونے والے بحران سے نمٹنے کےلیے قبل از وقت اقدامات نہ کیے گئے تو تباہ حال معیشت کو سنبھالا دینا حکومت کےلیے ناممکن ہوجائے گا۔