The news is by your side.

پاکستان کا اصل دشمن کون؟

اس وقت وزیراعظم عمران خان کچھ ایسے عناصرکےدباومیں ہیں، جو تبدیلی سرکار کی پے در پے ناکامیوں کا سبب بن رہے ہیں، باوجود اس کے کہ وزیراعظم عمران خان کے خلوصِ نیت پر کوئی شک نہیں ۔ اور وہ عناصر درج ذیل ہیں :

پہلا عنصر حکومت کو معیشت سنبھالنے میں درپیش مشکلات کےپس منظر میں انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کاکردارہے۔ بظاہر آئی ایم ایف سے قرض نہ لینے کا فیصلہ اور دوست ممالک سے اقتصادی تعاون کا حصول مثبت اقدامات تھے۔ مگر اس کے باوجود بجلی اورگیس کابحران ، ڈالر کی قدر میں غیر معمولی اضافہ، ملکی بینکوں سےلیےگئے ریکارڈ قرضے ، ادائیگیوں میں عدم توازن ،منی بجٹ اور نئے ٹیکس لگنے کا امکان حیران کن ہے ۔ بعض اقتصادی ماہرین ڈالر کی قدر میں اضافے کو آئی ایم ایف کی شرائط سے منسوب کررہے ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ حکومت جلد آئی ایم ایف کے پاس جانے والی ہے ۔ بعض ماہرین نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ ڈالر کی قدر میں اضافے کےباوجودحکومت کا آئی ایم ایف کا اقتصادی پیکج نہ لینا تعجب خیز ہے۔

ابھی پتانہیں کب تک یہ کہانی سننے کوملےگی کہ معاشی بدحالی کی ذمہ دار سابقہ حکومتیں ہیں , بہرحال اب ہمیں اس سے غرض نہیں ہونی چاہیےکہ ذمہ دار کون تھا ؟؟؟۔

دوسرا عنصر پاکستان کا فرسودہ سیاسی نظام اور اس سے فائدہ اٹھانے والے سیاسی عناصر ہیں جوکہ انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کے پسندیدہ ترین کردار بھی ہیں ۔ یہ تمام سیاسی عناصر اس فرسودہ نظام کے تحفظ کے لیے عمران خان کی حکومت کے خلاف متحد ہوچکے ہیں ۔ تبدیلی سرکار بقاء کی جنگ میں الجھ کررہ گئ ہے ۔ دراصل موجودہ نظام میں رہ کرتبدیلی ممکن ہی نہیں ۔ لہٰذا نظام کوبدلناایک حتمی ضرورت بن چکاہے ۔ آپ چہرے بدل کردیکھ لیں، خواہ ہزار الیکشن کرالیں ۔ موجودہ فرسودہ نظام کاخاتمہ ضروری ہے ۔

اپوزیشن کااتحاداگرچہ غیرمتوقع نہیں کیونکہ یہ ایک ’کرپشن بچاؤالائنس ‘ہے

پرتعیش جیلیں اور پروڈکشن آرڈر کیالاڈلااحتساب نہیں ؟؟؟۔

سپریم کورٹ کےمعززجج صاحبان کےحالیہ ریمارکس یہ واضح کرنے کےلیے کافی ہیں کہ خامیاں کہاں ہیں ؟ اور انہیں ٹھیک کرنا کس کی ذمہ داری ہے جو کہ ماضی میں پوری نہیں کی گئیں ۔ عدلیہ کا کام صرف قانون کے مطابق فیصلہ دینا ہوتا ہے جبکہ قانون سازی پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے ۔ جب پارلیمنٹ کڑااحتساب یقینی بنانے کےلیےقانون سازی نہیں کرےگی , توبدعنوان عناصرنظامِ عدل اورمجموعہ قانون کی کمزوریوں سےبرابر فائدہ اٹھاتےرہیں گے۔

دوتہائی اکثریت نہ ہونے کے سبب کئی معاملات میں تبدیلی سرکار کو اپوزیشن کے سامنے گھنٹے ٹیکنے پڑرہے ہیں۔ شہبازشریف کا پبلک اکاونٹس کمیٹی کا چیئرمین بننا بڑی حکومتی ناکامی ہے۔

یہ کیسی پارلیمنٹ ہےجہاں نامزد ملزمان کھڑے ہوکرقوم کولیکچردیں، ایسے تو پارلیمنٹ کےتقدس پر یقیناً انگلیاں اٹھیں گی۔سیاسی منظرنامہ جہاں پارلیمانی نظام کی ناکامی کا ثبوت ہے، وہیں صدارتی نظام حکومت بھی زیربحث آنےلگا ہے۔

سب سے آخری عنصر ہے خود عمران خان کی اپنی ٹیم میں موجود موقع پرست اور فصلی بٹیرے جو صرف وزارتوں میں حصہ داری کے خواہشمند ہیں ،جنہیں اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں کہ عمران خان ناکام ہوتا ہے یا کامیاب ؟؟؟ انہیں نہ تو تبدیلی لانے میں دلچسپی ہے نہ ملک و قوم کی خدمت سے کوئی غرض ہے ۔ یہ لوگ پارٹیاں بدلنے کے عادی ہیں ،اور پارٹی بدلتے ہی نظریات بھی بدل لیتے ہیں ۔ عمران خان میدان میں توآگئے لیکن فی الوقت ان کا وہی طرزِ عمل ہےجو میدان جنگ میں آنےسےپہلےتھا۔

یاد رکھیں کہ جذبات کی رو میں بہہ کر ناقدین پر محض جوابی تنقید کرکےدرپیش معاملات سے پہلو تہی نہیں کی جاسکتی ۔ تنقید کو مثبت اور تعمیری انداز میں لینا اور اپنی خامیاں تسلیم کرکے انہیں سدھارنے کی کوشش کرنا بہترین عمل ہوتا ہے۔ چاہے کوئی کتنا ہی قابل حکمران کیوں نہ ہو خوشامدیوں میں رہ کر اس کی صلاحیتوں کو زنگ لگ جاتا ہےجبکہ ناقد سب سے بڑا خیر خواہ بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ کیونکہ اس کی تنقید خامیوں اور کوتاہیوں کو سدھارنے کا سبب بنتی ہے اور خود کو مزید سنوارنے کا موقع ملتا ہے۔ مانا کہ عمران خان کرشماتی شخصیت کے حامل ہیں ۔ مگر شخصیتوں کے حصار سے باہر نکل کر کارگردگی پر نظر رکھنا سیکھیں ۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ تبدیلی سرکار بدعنوان نہیں مگر صرف یہ ہی کافی نہیں درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے بھی پیش رفت ہونی چاہیے ۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں