رشتے اعتماد کی کچی ڈور کیساتھ مضبوطی سے بندھے ہوتے ہیں، جنہیں مشکلات اور نا ممکنات کی تندو تیز آندھیاں بھی ایک دوسرے سے جدا نہیں کرسکتیں ۔ لیکن بد اعتمادی کی ہلکی سی خراش بھی اس ڈور کو شکست و ریخت سے دوچار کردیتی ہے۔ رشتوں میں سب سے مضبوط رشتہ میاں اور بیوی کا ہوتا ہے۔ جو ہمالیہ کے پہاڑوں سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے لیکن یہ بھی بجا ہے کہ مکڑی کے جالے سے زیادہ نازک بھی یہی رشتہ ہے۔اسی رشتے کو مضبوط ، بے لوث ثابت کرنے کیلئے مدیحی عدن نے ناول ’’درد وفا‘‘ تحریر کیا۔ یہ ناول اعتماد کے ہمالیہ اور بداعتمادی کے جالوں کا مکمل احاطہ کرتا ہے۔
مدیحی عدن پیشے کے اعتبار سے سافٹ وئیر انجنئر ہیں ، لیکن ادب کے ساتھ بھی ان کا گہرا تعلق ہے۔ گذشتہ کئی سالوں سے مختلف ویب سائٹس کے لئے بلاگز لکھ رہی ہیں۔ اور اب انہوں نے ناول نگاری میں بھی قدم رکھ لیا ہے۔ ان کا ناول ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے جو مردوں کے معاشرے میں اپنے آپ کو نمایاں کرنے کے جستجو میں رہتی ہے۔ بچپن میں باپ اور بھائی کا نکما پن اس کا پچپنا اور لڑکپن کی اٹکھیلیاں چھین لیتا ہے۔ اس کے باوجود وہ بڑے خواب دیکھتی ہے، بادلوں کے ساتھ اڑنے کے خواب، سیپیوں سے موتی نکالنے کے خواب، زمین پر رہ کر آسمان کے تارے اچک لینے کے خواب۔۔۔لیکن مشرقی روایات کے تحت اس کی شادی ہوجاتی ہے۔ پہلی نگاہ میں اسے ایک ایسے لڑکے سے محبت ہوجاتی ہے، جو اس کے بھائی اور باپ کی طرح نکما نہیں ہوتا بلکہ محنتی ، اپنے کام سے کام رکھنے والا اور اسی کی طرح خوابوں کی تعبیر کیلئے سرکرداں ہوتا ہے۔
ناول کی ہیروئن لڑکی ایدہ شادی کے بعد ایک گھریلو خاتون بن کر رہ جاتی ہے۔ جس کے صبح شام خاوند کی خدمت اور اس کی راحت کا سامان پیدا کرنے میں گزر جاتے ہیں۔ اس دوران لڑکی کا شوہر وہاج بھی اپنے خوابوں کی تکمیل کیلئے جدوجہد کرتا ہے،ایدہ اور وہاج کی زندگی مشکلات کے باجود رواں دواں ہے، لیکن پھر ایک دن وہاج ایدہ سے مشاورت کے بغیر نوکری سے استعفیٰ دے دیتا ہے، یہی وہ موقع تھا جب ایدہ کے دل میں بد اعتمادی کی مکڑی نے جالے بننا شروع کردئیے اور پھر اس رشتے میں دراڑ پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہے۔
مدیحی عدن نے اپنے ناول کے اندر ہر اس پہلو کا احاطہ کیا ہے، جو ایک لڑکی کی زندگی کا احاطہ کرتے ہیں، ناول نگارہ نے جہاں یونیورسٹی کینٹین میں پروان چڑھتی دوستیوں اور محبت کی داستانوں کو بیان کیا ہے۔ وہیں انہوں نےزندگی کی تلخیوں کو بھی انتہائی موثر انداز میں تحریر کیا ہے۔ ناول کے پہلے حصے میں ہیروئین ایدہ ایک ضدی، انا پرست اور اپنے ہی بارے میں سوچتی ہوئی دکھائی دیتی ہے، بعض اوقات اس سے نفرت ہونے لگتی ہے، لیکن ناول کے دوسرے حصے میں ایدہ کا کردار پڑھ کر اس سے محبت ہونے لگتی ہے۔
مدیحی نے ایدہ کی شکل میں پاکستانی لڑکیوں کے احساسات کی ترجمانی کی ہے، جو ہر معاشرتی جبر خود پرسہہ لیتی ہیں۔ چپکے چپکے آنسو بہا لیتی ہیں مگر زمانے کے سامنے مضبوط اعصاب کیساتھ کھڑی رہتی ہیں۔ ان کے ظاہر کو دیکھ کر لوگ رائے قائم کرلیتے ہیں جبکہ ان کا باطن افراد کی رائے کے بالکل برعکس ہوتا ہے۔
درد وفا ایک ناول ہی نہیں بلکہ ہمارے معاشرے کی ایک حقیقت بھی ہے۔ وہ کہتے ہیں ناں کہ عورت کو راز رکھنا نہیں آتا ، جھوٹ کہتے ہیں، اگر عورت رازوں کی امین نہ ہو تو مردوں کا سوسائٹی میں جینا حرام ہوجائے۔ وفا پرست مشرقی لڑکی کی یہ داستان ، موجودہ دور کے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی کہانی بھی ہے۔ جو کیریئر بنانے کے چکر میں ایسے گھومتے ہیں کہ انہیں اپنے زندگی جینے کا خیال تک نہیں رہتا ہے۔ زندگی میں کیریئر بنانا لازمی ہے لیکن یاد رکھیں جینے کیلئے کیریئر ضروری نہیں ،اکثر اوقات ہواؤں میں اڑنے والے انسانوں سے زیادہ شاندار زندگی مٹی سے کھیلنے والے مزدور جیتے ہیں۔
مدیحی عدن کا ناول ’’درد وفا‘‘ فکشن ہاوس لاہور نے شائع کیا ہے۔ جبکہ پاکستان بھر میں یہ ناول موجود ہے۔اس ناول کی خوبی یہ ہے کہ الف لیلوی داستانوں کی بجائے مختصر پیرائے اور شاندار پلاٹ کیساتھ لکھا گیا ہے۔ مصروفیات کے باوجود بھی اس کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔