کرشن چندر اردو ادب کے ممتاز افسانہ اور نثر نگار ہیں ، جن کی زندگی کا بیشتر حصہ کشمیر میں گزرا، آزاد کشمیر کا ضلع حویلی کہوٹہ ان کے رومانس کی بنیاد ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب مٹی کے صنم کے تین ابواب اس علاقے کے نام کئے ہیں۔ حویلی قدرتی حسن کا انمول خزانہ ہے، جہاں قدم قدم پر قدرت کے شہکار نظرآتے ہیں۔
حویلی کا ضلع پیر پنجال، بھیڈوری اور حاجی پیر کے پہاڑوں کے دامن میں واقع ہے۔ کرشن چندر خود کو حاجی پیر کا بیٹا کہتے ہیں۔ ان کے افسانوں ، ناولوں اور کہانیوں کے کئی کردار اسی علاقے کے مرہون منت ہیں۔ حاجی پیر باغ شہر سے 48 جبکہ ضلعی ہیڈکواٹر فاروڈ کہوٹہ سے 35کلومیٹر دور ایک صحت افزاdeneme bonusu veren siteler اور خوبصورت مقام ہے، جو سری نگر کو مقبوضہ کشمیر کے شہر پونچھ سے ملانے کا واحد راستہ بھی ہے۔ اسی لئے اس پہاڑ کو درہ حاجی پیر کے نام سے جانا جاتا ہے۔
حاجی پیر کے شمال مشرق میں کیرن پہاڑ اور مقبوضہ کشمیر کا اوڑی شہر ہے۔ جبکہ جنوب مغرب میں لسڈنہ کا خوبصورت علاقہ ہے۔ اس پہاڑ کے دامن میں علی آباد کی مشہور وادی ہے۔ جو شہنشاہ اکبر کے وزیر علی مروان کے نام پر قائم ہے۔
حاجی پیر سے کرشن چندر کا رومانس پانچ سال کی عمر سے ہوا، جب اوڑی شہر سے پونچھ جاتے ہوئے وہ وہاں رکے تھے، ٹنڈ منڈ درخت کے گرد ٹوٹے کپڑوں کے جھنڈے اور لوگوں کے مسائل کی پوٹریاں خشک درخت کو حمائل کئے ہوئے تھیں۔بچپن کی یہ یادیں اردو ادب کے اس عظیم دانشور کے ذہن میں اس قدر نقش تھیں کہ انہوں نے برف کے پھول، شکست ، علی آباد کی سرائے اور کشمیرکی کہانیاں سبھی کتابوں میں اس کا تذکرہ کردیا۔میرا تعلق بھی آزاد کشمیر کی اس مردم خیز دھرتی حویلی سے ہے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ کرشن چندر کی طرح میری بھی رومانویت کا مرکز اسی علاقے کے سرسبز وشاداب پہاڑ، گہری وادیاں، گھنے جنگلات، میٹھے پانی کے چشمے اور کنول کے پھولوں سے مزین چراگاہیں ہیں۔ میں بھی ان وادیوں میں کسی جوگی، فقیر اور دیوانے کی طرح کھو سا جاتا ہوں۔ ان وادیوں میں محبت کا وہ امرت ہے جسے پیتے ہی انسان خود کو ہواوں میں اڑتا محسوس کرتا ہے۔ اس کے ہاتھ بادلوں کے ساتھ اٹھکیلیاں کرتے جبکہ اس کی آنکھیں سبز ے سے لبریز پہاڑوں سے کلام کرتی ہیں، ناک میں کنول ، گلاب اور موتیے کے پھولوں کی مہک اور کانوں میں کوئل، دان گیر، چکور ، بن ککڑ اور مختلف انواع کے پرندوں کی سریلی آوازیں رس گھولتی ہیں۔ کسی ندی کے کنارے وادیوں میں چرواہے کی بانسری کی آواز اور وادی میں گہرا سکوت انسان کو تخیلاتی جنت کا نظارہ کروا دیتا ہے۔
کرشن چندر جس دور میں حاجی پیر اور علی آباد آئے تھے، ان دنوں میں یہاں چاروں طرف گھنے جنگلات ہوتے تھے، جن میں ہمالیائی چیتا، برفانی ریچھ، ہرن، بارہ سنگا اور شیر جیسے جانوروں کی بہتات ہوتی تھی، مہاراجے اور انگریز کارندے یہاں شکار کی غرض سے آتے تھے، لیکن اب یہاں صرف چند پرندے اور جانور رہ گئے ہیں.
آزادی کے بعد یہاں جنگلات کی بے دریغ کٹائی کی گئی، محکمہ جنگلات کی ملی بھگت سے وادی کا حسن برباد کردیا۔ اب کرشن چندر کے حاجی پیر کا ٹنڈ منڈ درخت بھی ختم ہوگیا ہے، وہاں ایک پختہ مزار بن چکا ہے۔1920میں تعمیر ہونے والی اوڑی پونچھ روڈ پر خچروں کی جگہ اب گاڑیاں چلتی ہیں۔اس حیاتیاتی مسکن کی تباہی کے باوجود یہ وادی اپنا حسن برقرار رکھے ہوئے ہے۔ علی آباد کے مقام پر شہنشاہ اکبر کی سرائے موجود ہے، جبکہ والئی پونچھ کی محبوب بیوی کے نام پر قائم رانی باغ اور اس کی جھیل شکست و ریخت کے باوجود قائم ہے۔ یہ وادی آج بھی سیاحوں کو دعوت نظارہ دیتی ہے۔
وادی کا حسن اپنی جگہ لیکن اس خوبصورت حیاتیاتی مسکن کی تباہی اور بے دریغ شکار کے بعد وادی کے پرندے معدومی کے خطرے سے دوچار ہیں۔ میں نے اپنے بچپن میں اس جنگل میں بن ککڑ، دان گیر، چکور سمیت متعدد خوبصورت پرندے دیکھے لیکن آج سارا دن جنگل میں گزارنے کے بعد ہی کوئی ایک پرندہ آپ کو نظر آئے گا۔ رواں موسم میں آپ بھی کرشن چندر کے حاجی پیر اور علی آباد کو ضرور ملیں، براستہ باغ آپ قدرت کے حسین نظاروں سے لطف اٹھاتے ہوئے اس وادی کو آئیں گے ، سڑک زیادہ کشادہ نہیں لیکن ڈرائیونگ کیلئے محفوظ ہے۔ آپ چار ایام کے تفریحی دورے کے دوران وادی کی دیگر جگہوں کو بھی دیکھ سکتے ہیں۔ جن میں وادی کنول یا نیلفری کا حسن سب سے لاجواب ہے۔
حاجی پیر کا پہاڑ اترتے ہی اس ملک کو سرسبز و شاداب بنانے کا عزم کریں ، کیوں کہ کسی ٹنڈ منڈ چیڑھ کے درخت پر بیٹھا اداس دان گیر اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ یہ جنگ دراصل اس دان گیر، بن ککڑ ، تیتر اور چکور کی بقا نہیں بلکہ ایک پوری انسانیت کی بقا ہے، جو انہی خوبصورت جنگلات کے مرہون منت ہے۔