The news is by your side.

ہم کس ڈگر پر چل نکلے ہیں؟

تحریر: ملک شفقت اللہ

ہم کس ڈگر پر چل نکلے ہیں؟ مادّہ پرستی ہمیں اندھا کیے دے رہی ہے۔ ذرا خلافِ مزاج کچھ ہوا اور ہم نے انتہائی قدم اٹھا لیا۔ کیا بات چیت، مذاکرہ، بحث ہمیں کسی نتیجے پر نہیں پہنچا سکتی، منطق اور دلیل کے ذریعے مؤقف نہیں منوایا جاسکتا؟ دولت، اختیار اور طاقت کا نشہ بدحواس کیے دے رہا ہے۔افسوس کہ اس ملک جو بااختیار اور طاقت ور ہے وہ خود کو اپنے ہی جیسے کروڑوں انسانوں کی تقدیر کا مالک اور خدا سمجھ بیٹھا ہے۔ انسان شاید حیوان بن گیا ہے۔ وہ درندہ صفت اور جنون میں مبتلا نظر آتا ہے۔

طاقت اور اختیار کے نشے میں یہی درندہ صفت اور جنونی انسان معاشرے کو تباہی کی طرف لیے جارہا ہے۔ قدم قدم پر انسانیت کی تذلیل کی جارہی ہے، اس کا وقار پائمال کرنا، لوگوں کی جانیں لینا اور ایسے ہی جنونی عمل سے لذت حاصل کرنا اس کی عادت بن گیا ہے۔

شاید یہ باتیں آپ کے لیے نئی نہیں ہیں اور آپ بھی اب یہ جاننے میں زیادہ دل چسپی رکھتے ہیں کہ معاشرہ کہاں کھڑا ہے؟ اس عدم برداشت اور انارکی کے ذمہ دار کون ہیں اور حل کیا ہے؟

آزادی کے ابتدائی برسوں میں پاکستان میں شرحِ خواندگی دس فی صد سے بھی کم تھی۔ آج یہ لگ بھگ پچپن فی صد ہے، لیکن دل چسپ اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ مہذب معاشرت کے بجائے جہالت اور قسم قسم کی خرابیوں کا شکار ہو گئے ہیں۔ آج پاکستان کے ان علاقوں میں بھی وہ لوگ آزاد ہیں جو کبھی وڈیروں کی گالیاں سننے، ان کا ظلم سہنے اور ان کے قصیدے پڑھنے کے سوا کچھ نہیں کرسکتے تھے، مگر یہ کیسی آزادی ہے کہ ہم ایک طرف تو غلامی کو مسترد کررہے ہیں اور اس کے خلاف نعرے بلند کرنے لگے ہیں، مگر دوسری جانب اپنے ہی جیسے لوگوں کو روندنے، ان کی حق تلفی کرنے کو برا نہیں سمجھتے اور موقع ملتے ہی وار کر جاتے ہیں۔ میری نظر میں اس کا واحد حل اسلامی نظریۂ حیات اپناتے ہوئے تمام شعبہ ہائے زندگی میں اس کا نفاذ اور آئین کی بالادستی ہے۔

ہمارے ملک کا آئین اسلامی ہے اور یہاں ایک باقاعدہ نظام موجود ہے جو سیاست سے لے کر معاشرت تک ہر شعبے، ہر طبقے پر گرفت اور اثر رکھتا ہے، لیکن اداروں میں مفاد پرست اور انفرادی سوچ کے حامل لوگ قدم جما کر معاشرے کو کھوکھلا کررہے ہیں۔ مجھے افسوس ہے کہ ہمارا نظامِ عدل بھی ایسے ہی لوگوں اور کالی بھیڑوں کی وجہ سے سسک رہا ہے۔

انصاف اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک ہے۔ بے شک وہی اس کائنات میں بہترین اور سب سے مکمل انصاف کرنے والا ہے۔ اس کے عالی شان دربار میں جزا اور سزا میں رتی بھر کمی بیشی ممکن نہیں۔ اسی کے تحت زمین پر انسانوں نے عدل و انصاف کے پیمانے بناتے ہوئے عدالتی نظام قائم کیا جو آج بدترین دور سے گزر رہا ہے۔

محمد علی جناح بھی وکیل تھے۔ ان کی روح بھی تڑپی ہو گی جب پنجاب میں وکلا نے اسپتال کو گویا دشمن کی پناہ گاہ اور چوکی سمجھ کر حملہ کیا۔ مسیحاؤں نے کئی بار اپنے مطالبات منوانے کے لیے دھرنے دیے اور مریضوں کو موت کے منہ میں جانے دیا۔ زخمی یا مریض اور شفا خانوں پر تو جنگ کے دوران بھی حملہ نہیں کیا جاتا کہ اصول تو یہی ہے، مگر یہاں اس کے برعکس ہوا یہ کہ اپنے خلاف بولنے پر انا کا مسئلہ بناتے ہوئے چند لوگوں یا ایک گروہ کی حرکت کا بدلہ ان لوگوں سے لیا گیا جو اسپتالوں میں زندگی اور موت کے درمیان جھول رہے تھے۔

یہ بربریت، حیوانیت نہیں تو کیا ہے؟ انصاف دلوانے والے اپنے لیے انصاف مانگنے کا باقاعدہ طریقہ اپنانے کے بجائے لڑنے بھڑنے نکل گئے اور قانون کی دھجیاں بکھیر دیں۔ اگر آپ کی عزتِ نفس مجروح ہوئی تھی تو عدالت جا کر انصاف کی اپیل کرسکتے تھے۔ طبیب زندگی سے مایوس، تکلیف و آزار میں مبتلا افراد کے لیے مسیحا کا درجہ رکھتے ہیں، لیکن انہی میں سے کم عقل اور شریر مسیحا اپنے مفاد اور جھوٹی شان کے لیے سب کچھ ملیا میٹ کر دیتے ہیں۔ جاں بہ لب انسان سے یہ کہہ کر منہ پھیر لیتے ہیں کہ آج ہم ہڑتال پر ہیں۔

ادارے کسی بھی ملک کا ستون ہوتے ہیں۔ان اداروں کی سالمیت ہی ملک کی سلامتی اور ترقی کی ضامن ہے۔ شخصیت پرستی کی ان میں کوئی جگہ نہیں، یعنی ادارے انفرادی نہیں بلکہ اجتماعیت کے حامل ہوتے ہیں، مگر ہمارے یہاں جمہوریت کے سائے تلے ایک سازش کے تحت ان اداروں کی سالمیت کو نقصان پہنچایا گیا اور سفارش و اقربا پروری کے ذریعے ایسی یونینیں بنائی گئیں جو مفادات کی تکمیل میں معاون ہیں۔

سستی اور اعلیٰ تعلیم عام آدمی کی دست رس سے باہر ہونے کی وجہ سے اشراف تمام اداروں پر قابض ہیں جو ان یونینوں کو استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح طلبا یونینوں کو بھی بے راہ رو کیا گیا۔ یہ سب ایک ایسی جنگ کا راستہ ہم وار کررہا ہے جس سے پہلے ملک اور اداروں کو اندرونی طور پر کھوکھلا کیا جارہا ہے اور پھر جنگ مسلط کر دی جائے گی۔

وکلا گردی ایک اصطلاح بن چکی ہے اور آج بے قابو ہے۔ اب بھی وقت ہے ہم اپنے آئین اور اسلامی دفعات پر کاربند ہو کر اس پر قابو پاسکتے ہیں ورنہ یہ انارکی تھمنے والی نہیں۔ اگر قوم کا سنجیدہ اور باشعور طبقہ سڑکوں پر نکل کر حقیقی تبدیلی لاسکتا ہے تو اسے ضرور یہ کرنا ہو گا تاکہ ایک اسلامی جمہوریہ پاکستان کا خواب پورا ہو سکے۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں