تحریر: ملک شفقت اللہ
دسمبر اپنے دن پورے کررہا ہے اور دنیا نئے سال کو خوش آمدید کہنے جارہی ہے۔ کہتے ہیں دنیا بھر میں سیاسی اور عسکری محاذ پر بڑی تبدیلیاں رونما ہونے والی ہیں اور اسی کے ساتھ ایشیائی ممالک کے لیے بھی ایک نئے موڑ پر کھڑے ہوں گے۔ ماہرین کے مطابق ہمارے اس خطے کے لیے خیر کی کوئی خبر نہیں ہے۔
پاکستان سمیت تیسری دنیا میں انتخابات اور حکم رانی کو اس بار دو بڑی عالمی قوتوں کی جنگ سمجھا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ پچھلے دس سال کے دوران جن طاقتوں نے اپنے مقاصد اور عزائم کی تکمیل کی ہے اس میں پاکستان کا اہم کردار نظر آتا ہے۔ پاکستان کے تناظر میں دیکھا جائے کچھ عرصہ قبل چین، پاکستان، روس اور ان کے اتحادیوں کا گٹھ جوڑ اور دوسری جانب وہ عالمی طاقتیں ہیں جن کے فیصلوں اور اقدامات کا خمیازہ دنیا بھر کی تجارت اور معیشت بھگت رہی ہے۔ امریکا اور چین کی اس سرد جنگ کا فائدہ روس نے اٹھایا اور عالمی امور کے ماہرین کے نزدیک اس ملک نے عسکری سطح پر کام یابیاں حاصل کی ہیں۔ اس نے جہاں پاکستان کے ساتھ اقتصادی منصوبے شروع کیے، وہیں امریکا کو بھی باور کروا دیا کہ ایشیا میں اسے مشکل سے دوچار کرنے کے لیے مضبوط اتحاد بنا لیا ہے۔
بھارت میں بی جے پی کی حکومت کا لانا بھی اسی سازش کا ایک حصہ تھا کیوں کہ مسئلہ کشمیر اور بھارت میں لبرل ازم اور سیکولرزم کی آڑ میں اقلیت مخالف پالیسی صرف بی جے پی ہی لاسکتی تھی۔ بی جے پی نے ساڑھے پانچ سال میں بھارت کو جہاں لا کھڑا کیا ہے اس سے پہلے کبھی یہ بری صورتِ حال دیکھنے کو نہیں ملی۔ حال ہی میں امریکا نے بھارت کے وزیر داخلہ امیت شاہ پر اسلام مکت بھارت بنانے کی پالیسی کے ضمن میں پابندیاں لگانے کی سمری پیش کی ہے۔
امریکا اس بنی بنائی گیم کو اپنے حق میں بدلنے کے لیے پاکستان کو دوبارہ جھانسا دے چکا ہے کہ کشمیر پر پاکستان کے مؤقف کی تائید کرے گا (لیکن اگر پاکستان اسے افغانستان سے نکلنے میں مدد دے اور یہ گٹھ جوڑ توڑے)۔ پاکستان اس جھانسے سے بچ نکلا، مگر یہی وجہ ہے کہ پاکستان پر ایف اے ٹی ایف کی تلوار لٹکا دی گئی اور اس میں بھارتی مؤقف کو تقویت دی جاتی ہے کہ ایک جماعت پر پابندیاں لگا کر اسے بالکل ختم کیا جائے۔ ادھر ایشیائی ترقیاتی بینک اور آئی ایم ایف تسلیم کرچکے ہیں کہ پاکستان نے تمام شرائط پر عمل درآمد کیا ہے، جب کہ بھارت اپنے الزامات ثابت نہیں کر سکا ہے۔
اسی ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے باخبر ذرایع خطرناک صورتِ حال کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ کشمیر کے معاملے پر پاکستان کے مؤقف کے خلاف کوئی بات نہ کرنا اور امیت شاہ پر پابندیاں لگانے کی سمری بھی پاکستان کے لیے خوش آئند ہے، لیکن مغربی اقوام کا وتیرہ رہا ہے کہ وہ دھوکے اور سراب کا شکار بناتا ہے۔
ہمارے دشمن ممالک کو گوارا نہ ہو گا کہ پاکستان ایف اے ٹی ایف کے چنگل سے نکلے اور نہ ہی مغربی طاقتیں یہ چاہتی ہیں۔ اب اس حوالے سے سازشیں رچی جاچکی ہیں اور اس سے پہلے ایران کے حالات خراب کیے جا چکے ہیں۔ ماضی میں بھی جب دشمن ہم پر جنگ مسلط کر کے کام یاب نہیں ہوسکا تھا تو اس نے ایسی ہی چال چلی تھی اور پاکستان کے تیس سال تاریک ہوگئے۔ دوسری طرف سوشل میڈیا پر مہمات کے ذریعے ملک کی سالمیت اور بقا کے ضامن اداروں کے خلاف فضا بنائی گئی اور لوگوں کو تقسیم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
ایشیائی ممالک کے لیے آئندہ سال کے اولین مہینے بہت اہم ہیں۔ روس خطے میں اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنا چاہتا ہے جب کہ چین اور امریکا بھی آمنے سامنے ہیں۔ برطانیہ اسرائیل سے خفا ہے اور اس کا جھکاؤ بھی پاکستان کی طرف دکھائی دیتا ہے۔ ترکی کو کردوں کے ساتھ مصروف کر دیا گیا ہے۔ بھارت کی تمام ریاستیں عدم استحکام کا شکار ہوچکی ہیں جب کہ بنگلا دیش، آسام، منی پور، ناگا لینڈ، ارونا چل پردیش، ہماچل پردیش بھی احتجاج اور حکومت مخالف دنگے فساد کی زد میں ہے۔
بھارت اپنے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے سرحدی جنگ کا سہارا لے سکتا ہے۔ بھارت کے لیے امریکا کا دیا گیا ہدف پورا کرنا اہم ہے۔ اگر ایسا نہ کیا تو وہ جانتا ہے کہ علیحدگی پسند تحریکیں کسی بھی وقت زور پکڑ سکتی ہیں۔ روس سپر پاور بننے کو بے چین ہے جب کہ چین اقتصادی طور پر فاتح بننے کے لیے اپنے منصوبوں کی تکمیل چاہتا ہے۔
حالات و واقعات کا سنجیدگی اور باریکی سے جائزہ لیں تو اگلا سال ہر لحاظ سے ہنگامہ خیز اور اہم دکھائی دیتا ہے۔ اہلِ دانش سمجھ سکتے ہیں کہ دنیا کسی خوں ریزی اور بڑی افتاد کا سامنا کرنے جارہی ہے. کہا جارہا ہے کہ کچھ ممالک کے سربراہوں یا اہم شخصیات کو حادثہ پیش آسکتا ہے جو عالمی سطح پر ایک بھونچال مچا دے گا۔ اس ضمن میں بھارت، افغانستان، بنگلا دیش، ایران، اردن اور پاکستان کے بارے میں قیاس آرائی کی جارہی ہے جس کے بعد پاکستان کی موجودہ قیادت کو چاہیے کہ ایک طرف تو خطے میں اپنی اہمیت منوانے کی کوشش جاری رکھے اور دوسری جانب ان خطروں کا مقابلہ کرنے کی تیاری بھی کرے جن سے خبردار کیا جارہا ہے۔