The news is by your side.

کیا ہندوستانی مسلمان آزاد ریاست کے لیے جدوجہد شروع کرسکتے ہیں؟

تحریر: ملک شفقت اللہ

بھارتی شہریت کا تعین کرنے لیے آئینِ ہند کی دفعات پانچ تا گیارہ موجود ہیں۔
شہریت کا قانون 1955 کے ایکٹ سے متعلق ہے جس میں 1986 کے بعد 1992 میں ترامیم کی گئیں جب کہ 2003، 2005 کے بعد 2015 میں اور اب رواں برس مودی دور میں ترمیم کی گئی ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے دورِ حکومت کا جائزہ لیں تو اس حکومت نے ہر وہ کام انجام دیا ہے جس سے مذہبی منافرت اور نسل پرستی کو فروغ ملے اور مسلمانوں کے بنیادی، آئینی اور انسانی حقوق پر کاری ضرب لگے۔ یہ سلسلہ بڑھتے ہوئے اب مسلمانوں کو بھارت سے بے دخل کرنے تک آ پہنچا ہے۔

بھارت میں این آ ر سی، سی اے بی اور سی اے اے بل منظور کر لیے گئے ہیں جس کے بعد ملک کی بارہ سے زائد ریاستوں میں احتجاج زوروں پر ہے۔ جلاؤ گھیراؤ کے واقعات میں ہلاکتیں اور شہریوں کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ شہریت ترمیمی بل کے خلاف جمعیت علمائے ہند نے سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کے مطابق یہ بل آئین کے بنیادی ڈھانچے کو چھیڑنے کے مترادف ہے اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

ان سے پہلے مسلم لیگ کی جانب سے بھی اس بل کی مخالفت کی جا چکی ہے۔ جمعیت کا ماننا ہے کہ چاہے این آر سی ہو یا سی اے بی، اس کی بنیاد مذہب نہیں ہونا چاہیے۔ آل انڈیا یونین مسلم لیگ نے قومی شہریت کے ترمیمی بل کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کروائی ہے۔ راجیا سبھا میں شہریت بل کی منظوری کے بعد ہونے والے احتجاج کے تناظر میں آسام کے چند اضلاع میں غیر معینہ مدت کا کرفیو نافذ کیا گیا۔ اس بل کے تحت پاکستان، افغانستان اور بنگلا دیش سے فرار ہونے والے ہندو، عیسائی، سکھ، بدھ مت اور زرتشت مہاجرین کو ہندوستانی شہریت دینے کا قانون پاس کیا گیا ہے جو اکتیس دسمبر 2014 کو یا اس سے قبل ہندوستان میں داخل ہوئے تھے۔ ممبئی کے ایک سینئر آئی پی ایس افسر عبد الرحمٰن نے شہریت بل کو ملک اور عوام کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے احتجاجا استعفیٰ دیا جب کہ فن کار برادری بھی سراپا احتجاج ہے۔

بھارتی ریاستوں اتر پردیش، دہلی،نئی دہلی، علی گڑھ، میوات، حیدرآباد، لکھنؤ، بنگلور، ممبئی، کرناٹک اور آسام کے علاوہ مغربی بنگال، پنجاب اور کیرالا میں بھی شہریت ترمیمی بل کے خلاف احتجاج جاری ہے۔ حکومت اپنے منتخب کرنے والوں کی پکار سننے کے بجائے ان پر ریاستی دہشت گردی مسلط کیے ہوئے ہے۔ اس وقت تک ہر طبقے اور شعبے سے کئی گرفتاریاں کی جاچکی ہیں۔ ایک طرف تو بھارتی حکومت این آر سی کے مطابق جتنے بھی مہاجرین ہیں انہیں بھارت سے باہر نکالنا چاہتی ہے، تو دوسری جانب وہ تمام پڑوسی ممالک کے غیر مسلموں کو بھارتی شہریت سی اے بی بل کی صورت میں دینا چاہتی ہے۔ اندازے کے مطابق پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش میں لگ بھگ چار کروڑ غیر مسلم آباد ہیں۔ ان میں سے دو کروڑ بھی ہجرت کریں تو بھارتی حکومت جو پہلے ہی معاشی دلدل میں پھنسی ہوئی ہے ان کو کیسے سنبھالے گی؟ اس پالیسی سے تو ایک طرف بھارتی حکومت کی مستقبل نااندیشی ثابت ہوتی ہے اور دوسری طرف یہ بھی سوچا جا سکتا ہے کہ افغانستان اور بنگلا دیش میں کچھ چہیتے ہیں جنھیں بھارتی سرکار پناہ دینا چاہتی ہے۔

بھارت کے سہولت کاروں نے افغان جنگ اور اکہتر سے اب تک اور کئی نے پاکستان میں دہشت گردی کی ہے، جن کو اس آڑ میں نوازا جائے گا۔ ایودھیا تنازع کے فیصلے اور کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے پر گمان کیا جا رہا تھا کہ بھارت میں مذہبی و نسلی منافرت کا خاتمہ ہو جائے گا تاہم یہ غلط فہمی ثابت ہوا۔

بابری مسجد پر رام مندر بنانے کی تحریک کا دائرہ صرف مسجد اور مندر تک محدود نہیں تھا، بلکہ اس تحریک کے پسِ پشت ملک میں ہندو قوم پرستی کو فروغ دینا تھا۔ ماضی میں جھانکیں تو 23 اپریل 1985 کو جب شاہ بانو کیس میں سپریم کورٹ نے اسلامی شریعت سے متصادم فیصلہ صادر کیا تھا تو ملک میں مسلم پرسنل لا کے تحفظ کے لیے مسلمانوں نے ایک بے مثال تحریک چلائی تھی۔ اس تحریک کے نتیجے میں حکومت کو پارلیمنٹ سے مسلم مطلقہ قانون پاس کرنا پڑا تھا۔ مسلم پرسنل لا کے تحفظ کی تحریک میں مسلمانوں کو حاصل ہونے والی کام یابی کا فسطائی عناصر پر گہرا اثر ہوا۔ انھوں نے بڑی قوت سے پراپیگنڈہ شروع کردیا کہ حکومت نے مسلم بنیاد پرستوں کے آگے گھٹنے ٹیک دیے۔ جب بھی کسی جماعت کو اقتدار ملتا ہے تو اس کے پاس دو راستے ہوتے ہیں، یا وہ ڈنڈے کے زور پر حکومت کرتے ہیں یا لوگوں کی فلاح و بہبود اور اجتماعی ترقی کے لیے پالیسیاں بنا کر اس پر خلوصِ نیت سے عمل کرتی ہے۔

اگر بھارتی حکومت مسلمانوں کو نکال کر دیگر مذاہب کے پیروکاروں کو آباد کرنا چاہتی ہے تو مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اس جبر اور ظلم کے آگے ڈٹ جائیں اور مسلم اکثریتی علاقوں کو آزادی دینے کا مطالبہ کردیں اور اس کے لیے تحریک چلائیں۔ یہی وقت ہے کہ مسلمان قیادت اور جماعتوں کے راہ نما ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر کے خود مختار علاقے اور آزاد ریاست کی جدوجہد شروع کریں۔ بھارت کا سنجیدہ اور باشعور طبقہ بھی مودی سرکار کے اس بدترین اور بھونڈے قانون کے خلاف ان کا ساتھ دے سکتا ہے۔ مسلمانوں کے لیے یہ ایک نادر موقع ہے جب ہندوستان بھر میں انتہا پسندی اور مذہبی جنونیت کا پردہ چاک ہو چکا ہے اور یہ بات دنیا کے علم میں آچکی ہے کہ بھارت نام نہاد سیکولر ریاست ہے اور اقلیتوں کے حقوق کا کتنا خیال رکھتا ہے۔ وقت ہے کہ کوئی آگے بڑھے اور کروڑوں مسلمان ہندوستانیوں کو ان کا حق دلائے۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں