کابل شہر خصوصاً اور افغانستان مجموعی طور پر افراتفری، انتشار، عدم تحفّظ، اور مستقبل کے حوالے سے بے یقینی کا شکار نظر آرہا ہے جس کی وجہ طالبان کا برق رفتاری کے ساتھ صوبائی دارالحکومتوں کے بعد دارالخلافہ پر قبضہ ہے جب کہ دوسری طرف افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی جو قوم کو یہ یقین دلاتے رہے کہ طالبان اقتدار پر قابض نہیں ہوں گے، وہ طالبان کے کابل میں داخل ہونے کے بعد راہِ فرار اختیار کرچکے ہیں۔
دوسری طرف کسی بھی ملک کے استحکام کی ضمانت سمجھے جانے والی قوّت اس کی فوج اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ہوتے ہیں جو مسلح طالبان کے سامنے نہیں ٹھہر سکے اور گویا ڈھیر ہوگئے۔
افغانستان میں فوج کی پسپائی اور وجوہات
تقریباً دو ماہ قبل امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے بہت پر اعتماد انداز میں دعویٰ کیا تھا کہ امریکہ نے افغانستان کی فوج اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں جن کی تعداد تین لاکھ کے قریب ہے، کو اس قابل بنا دیا ہے کہ وہ نہ صرف تعداد میں لگ بھگ ستّر ہزار طالبان کی پیش قدمی کو روک کر ان کو پسپا ہونے پر مجبور کردیں گے بلکہ اپنے ملک کی سلامتی اور حکومت کا دفاع بھی کریں گے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ امریکہ کے پندرہ ہزار کے قریب ٹرینروں نے انھیں تربیت دے کر جدید اسلحہ سے لیس کیا ہے جب کہ امریکہ کے ادارے اسپیشل انسپکٹر جنرل فار افغانستان کی رپورٹ کے مطابق افغان ارمی پر گزشتہ بیس سال میں 80 بلین ڈالر سے زائد خرچ کیے گئے ہیں، لیکن صورتِ حال دنیا کے سامنے ہے۔ جونہی امریکہ اور اتحادی افواج کا انخلا مکمل ہوا افغانستان کی فوج اور دیگر اداروں کے اہلکار تتر بتر ہوگئے اور وہ اسلحہ جو ان کو طالبان کے خلاف لڑنے کے لیے ملا تھا، اسی اسلحہ سمیت طالبان کے سامنے ڈھیر ہوگئے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق افغان آرمی کی پسپائی کی بڑی وجہ لسانی، قومیت اور قبائل کی بنیاد پر تقسیم، بڑھتی ہوئی کرپشن، افسروں اور ماتحت میں عدم اعتماد اور بدترین بد انتظامی ہے اور اس کے علاوہ افغان فوج کو اس بات کا یقین نہیں تھا کہ امریکہ ان کو یوں چھوڑ کر ملک سے نکل جائے گا جس کا طالبان نے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں زیر کرلیا۔
افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کا فرار اور اس کے اثرات
ڈاکٹر اشرف غنی جو افغانستان کے 2014 کے متنازع انتخابات میں صدر منتخب ہوئے تھے اس سے قبل ورلڈ بنک سے منسلک رہے اور ایک کتاب انگریزی زبان میں بھی تحریر کرچکے ہیں جس کا عنوان تھا، ناکام ریاستوں کی تعمیرِ نو (ری کنسٹرکشن آف فیلڈ اسٹیٹ) لیکن جب ان کو خود ایک تباہ حال افغانستان دیا گیا تو سیاسی، قبائلی، لسانی اور قومیتی تقسیم کو بڑھاوا ملا اور یہی وجہ کہ امریکہ کو بار بار ڈاکٹر اشرف غنی اور ڈاکٹر عبد اللہ عبد اللہ کے مابین تعلقات کو قائم رکھنے کے لیے مداخلت کرنا پڑتی جب کہ ڈاکٹر اشرف غنی کے بارے میں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ان کے قریبی حلقوں میں زیادہ تر وہ لوگ شامل تھے جو بیرونِ ملک مقیم تھے اور ان کو ڈاکٹر اشرف غنی کی دعوت پر ان کی معاونت کے لیے آئے تھے جس کے باعث ڈاکٹر اشرف غنی اور ان کے اتحادی افغان قیادت عدم اعتماد کا شکار رہے جس کے اثرات اس وقت سامنے ائے جب امریکہ نے افغان حکومت کی بجائے طالبان سے مذاکرات کر کے دوحا معاہدہ قلمبند کیا اور پھر اپنی واپسی کے اعلان پر عملدرامد شروع کردیا۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق چونکہ اشرف غنی کی اپنی حکومت پر رٹ کمزور تھی اس لیے طالبان نے جب امسال مئی میں پیش قدمی شروع کی تو ان کو سخت مزاحمت کا سامنا پیش نہیں ایا اور طالبان نے مختصر وقت میں کابل پر قبضہ کر لیا اور اشرف غنی کو اپنے کابینہ کے ساتھیوں کو چھوڑ کر فرار ہونا پڑا اور یہی وہ لمحہ تھا جب افغان قوم صدمے میں چلی گئی اور وہ طالبان جن کے بارے میں ان کو یقین تھا کہ افغان ارمی ان کو شکست دے دی گی لیکن اب وہ اس بات پر مجبور ہیں کہ طالبان کو ایک سیاسی طاقت پر قبول کریں بلکہ اگر ان کی حکومت پر بنتی ہے اس کو تسلیم کرنے کو بھی تیار ہیں۔
طالبان کا کابل پر قبضہ اور زمینی حقائق
پندرہ اگست سے قبل کابل میں حالات معمول پر تھے۔ افغان پولیس تھانوں میں موجود تھی، بازار دفاتر کھلے ہوئے تھے۔ لڑکیاں اسکول جارہی تھیں اور خواتین اپنے روزمرہ کی سرگرمیوں میں مشغول تھیں لیکن جونہی طالبان کابل گیٹ پر قریب پہنچے تو ایک افراتفری پھیل گئی اور اس افراتفری کو روکنے کے لیے طالبان نے اعلان کیا وہ جنگ کی بجائے پرامن طریقے سے دارالحکومت میں داخل ہونا چاہتے ہیں اور پھر یہی ہوا کہ جونہی ڈاکٹر اشرف غنی ایوان صدر کو چھوڑ کر روانہ ہوئے تو طالبان نے صدارتی محل پر بغیر کسی مزاحمت کے کنٹرول سنبھالا تو افغان عوام میں جنگ کا خوف تو ختم ہوا لیکن اس دوران افغان پولیس اور افغان ارمی منظر نامے سے اچانک غائب ہوگئی اور شہر میں لوٹ مار کا سلسلہ شروع ہوگیا اور افغان میڈیا کی رپورٹ کے مطابق بے پناہ قیمتی گاڑیاں کو چھینا گیا جب کہ ڈکیتی کی وارداتیں بھی سامنے ائیں اور یہی وجہ تھی کہ کابل کے بازاروں اور دفاتر کو بند کردیا گیا جب کہ مقامی ابادی گھروں میں محصور ہوگئی ہے اور عینی شاہدین کے مطابق طالبان نے سرکاری گاڑیاں قبضہ میں لے کر گشت شروع کردی ہے اور ان کو یقین ہے کہ طالبان حالات پر کنٹرول حاصل کر لیں گے۔
کابل ایئر پورٹ پر دھاوا
جب کابل پر طالبان نے قبضہ حاصل کرلیا تو افغانستان سے فرار ہونے والا پہلا شخص افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی تھا اور یہی وجہ تھی کہ ملک میں افراتفری کی فضا پیدا ہوگئی اور اس دوران مقامی افراد کے مطابق جب یہ افواہ پھیلا ئی گئی کہ امریکہ اور کینیڈا سے جہاز کابل پر اترے ہیں اور جو افغان پاسپورٹ رکھتا ہے اس کو بغیر ویزے کے لے جائیں گے تو کابل میں موجود افغان عوام نے ایئر پورٹ پر دھاوا بول دیا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ امریکہ کے وہ فوجی جو افغانستان میں افغان عوام کے دفاع کے لیے ائے تھے اور جب وہ ان کو بے سروسامانی کی حالت میں چھوڑ کر جانے لگے تو اپنے فوجی جہاز کو اڑانے پر افغانوں پر فائرنگ کرنی پڑی جس کے نتیجے پانچ افراد جاں بحق ہوگئے۔
طالبان کا قبضہ اور مسقبل کے حالات
افغان طالبان نے اپنی بیس سالہ جدو جہد کا ثمر افغانستان پر قبضہ کرکے حاصل تو کر لیا ہے لیکن اب ان کی بڑی ازمائش افغان قوم کا اعتماد حاصل کرنا ہے اور تجزیہ نگاروں کے مطابق افغانستان کا بڑا مسئلہ بدامنی، خراب معیشت، کرپشن اور سیاسی کشیدگی ہے اور اگر طالبان نے ان مسائل پر دیگر افغان قیادت کے ساتھ مل کر ان کو حل کرلیا تو افغانستان استحکام کی طرف بڑھ سکتا ہے کیوں کہ ایسی صورت میں دہشت گرد تنظیموں کو بھی افغانستان کی زمین استعمال کرنے کا موقع نہیں ملے گا اور خواتین کے حوالے سے تحفظات ختم ہوں گے لیکن اگر طالبان نے اقتدار کو اپنے تک محدود رکھا تو سیاسی و عسکری کشیدگی میں اضافہ ہوگا اور وہ نقل مکانی جو اب کابل تک محدود ہے ہمسایہ ملکوں تک پھیل سکتی ہے