ایسا کیا ہوا کہ وہ افغان جو گزشتہ چالیس سال سے پاکستان میں قیام پذیر تھے اور پاکستانیوں کو انصار بھائی کہتے نہں تکھتے تھے اج ان کی نظر میں بوجھ بن بیٹھے ہیں۔ یہ وہی افغان تھے کہ جب روس نے افغانستان نے پر قبضہ کیا تو پشاور کے باسیوں نے ان کے لئے اپنے گھر کھول دئیے اور ملازمدت کے مواقع فراہم کئے اوریہ فراخدلی ایسے حالات میں بھی جاری رہی جب پشاور اور ملک کے دیگر حسوں میں ہونے والی دہشت گردی اور جرائم کی وارداتوں میں افغانوں اور افغانستان کی سرزمیں کے ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد سامنے آنے لگے لیکن آرمی پبلک سکول پشاور اوراس کے بعد باچا خان یونیور سٹی چارسدہ پرحملوں نے افغان مہاجرین کو وطن واپس بھیجنے کے حوالےسے پیدا ہونے والی سوچ نے جنم لیا جسے بلوچستان میں پاکستان کے جعلی شناختی کارڑ اور پاسپورٹ رکھنے والے طالبان کے امیر ملا اختر محمد منصور کی ڈرون حملے میں ہلاکت نے مزید پختہ کردیا، اور بلوچستان کی حکومت کی جانب سے افغان مہاجرین کو وطن واپس بھیجنے کی تحریک اب خیبر پختونخواہ حکومت کی بھی آواز بن گئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ خیبر پختونخواہ حکومت کے ترجمان مشتاق احمد غنی کو بھی کہنا پڑ رہا ہے کہ وفاقی حکومت افغان مہاجرین کے قیام میں توسیع کے بجائے انِ کی باعزت واپسی کا شیڈول طے کرے، کیونکہ خیبر پختونخوا پر 12لاکھ کے قریب رجسٹرڈ اور اتنی ہی تعداد میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین کا بوجھ ہے جن کی ایک طویل عرصہ سے مہمان نوازی کر رہے ہیں۔
حکومتی سوچ کے علاوہ عام عوام کی جانب سے مہاجرین کو نکالنے کے مطالبے میں درج بالا وجوہات مصروف عمل ہیں وہیں افغان حکومت کی پالیسیاں بھی کار فرما ہے اور اس بات کو دکھ کے ساتھ محسوس کیا جاتا ہے کہ پاکستان نے افغانیوں کو محدود وسائل کے باوجود پناہ دی لکین ان کی حکموت کو جب بھی موقع ملتا ہے وہ انڈیا کو پاکستان پر برتری دیتی ہے۔
پاکستان کے دشمن افغانستان کی سرزمین پرآزاد گھومتے ہیں اوراس سے بڑھ کرجب پاکستان اپنی سرحدوں کو محفوظ بنانے کے لئے اپنی حد کے اندر گیٹ لگاتا ہے تو اس پر فائرنگ کی جاتی ہے اور فوجی افسر کو شہید کیا جاتا ہے۔ اب جبکہ 30 جون کو مہاجرین کے قیام کی مدت ختم ہورہی تھی تو خیبر پختونخواہ حکومت کا یہ موقف تھا کہ چونکہ اقوام متحدہ کا ادارہ برائے مہاجرین بھی پاکستان میں ان کے قیام میں کوئی مالی مدد نہیں کررہا ہے لہذا یہ وقت ہے کہ ان کی مدد میں توسیع نہ کی جائے لیکن وقافی حکومت نے ان کی مدت میں چھ ماہ کی توسیع کردی ہے جس پر صوبائی حکومت جہاں ایک جانب معترض ہے تو وہیں اس کا یہ بھی موقف ہے کہ افغان مہاجرین کو محض جنبش قلم سے نکال باہر نہ کیا جائے بلکہ تجویز دیتے ہوئے کہا کہ ، وفاق کو چاہئے کہ وہایک جامع پالیسی اور شیڈول کے تحت ان کی اپنے ملک کو واپسی یقینی بنائے۔
اور اگر وفاق افغان مہاجرین کو پاکستان میں مزید رکھنا چاہتی ہے تو پھر ان کو تمام صوبوں میں برابر کی تعداد میں بھیجا جائے۔ آرمی پبلک سکول اور باچا خان یونیورسٹی پر حملے کے بعد وفاقی حکومت کی پالیسی میں بھی تبدیلی دیکھنے کو ملتی ہے جس کے تحت وہ افغان مہا جرین جن کے پاس عارضی رجسٹریشن کارڈ موجود ہے اور وہ اپنے ملک واپس جاتے ہیں تو پھر پاکستان آنے کے لئے باقاعدہ ویزہ لینا ہوگا جس کے تناظر میں نئی بارڈر مینیجمنٹ سکیم کو بھی شروع کیا گیا ہے جو یکم جون سے لاگو ہوچکی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق گزشتہ چھ ماہ میں چالیس ہزار افغان مہاجرین واپس جاچکے ہیں جبکہ پندرہ لاکھ رجسٹرڈ اب بھی پاکستان میں مقیم ہیں جن میں نولاکھ خیبر پختونخواہ میں قائم 43 کیمپوں میں رہائش پذیر ہیں۔ اس کے علاوہ ایک اندازے کے مطابق بارہ لاکھ غیر رجسٹرڈ ہیں۔ چونکہ افغانستان تاحال خانہ جنگی کی لپیٹ میں ہے اوروہاں روزگار کے مواقع موجود نہیں ہیں اورنہ ہی مہاجرین کی آباد کاری کو بندوبست جس کے باعث افغان مہاجرین کی زیادہ تعداد پاکستان میں رہنے کو ترجیح دیتی ہے۔
لیکن آخرکارایک دن ان تمام مہاجرین کا واپس جانا ہے لہذا ضرورت اس امرکی ہے کہ ایسی پالیسی بنائی جائے جو افغان عوام کے ساتھ دوستی کو جوڑے رکھنے کا ذریعہ بنے کیونکہ وہ ممالک جن کی اپس میں سرحدیں ملتی ہے وہ ہر لحاظ سے ایک دوسرے کے لازم و ملزوم ہیں اور کسی ایسے ملک کو موقع نہیں دینا چاہیے کہ ان حالات کو اپنے لئے استعمال کرتے ہوئے پاکستان کی قربانیوں پر پانی پھیر دے۔