The news is by your side.

خیبر پختونخواہ میں بلدیاتی انتخابات: وہ سب کچھ جو آپ جاننا چاہیں

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے دوسرے دور میں خیبر پختونخواہ میں دوسری دفعہ بلدیاتی ایکٹ2019کے تحت پہلے مرحلے میں اتوارانیس دسمبر دو ہزار اکیس کو الیکشن ہونے جارہے ہیں اور اس حوالے سے تمام انتظامی و سیکیورٹی کے انتظامات مکمل ہوچکے ہیں۔

مقامی حکومت کے لئے انتخابات خیبر پختونخواہ کے سابق قبائلی علاقہ جات سمیت سترہ اضلاع پشاور، مردان، نوشہرہ، صوابی، بونیر،چارسدہ، مہمند، باجوڑ ،پشاور، خیبر، کوہات، ہنگو، کرک، بنوں، لکی مروت، ٹانک، اور ڈیرہ اسماعیل خان میں منعقد ہونگے جہاں ووٹروں کی تعداد ایک کڑوڑ چھبیس لاتھ اٹھاسٹھ ہزار اٹھ سو باسٹھ ہیے جن میں مرد ووٹرز ستر لاکھ پندرہ ہزار سات سو سٹاسٹھ اور خواتین ووتڑز چھپن لاکھ ترپن ہزار پچانوے ہے جبکہ پولینگ سٹیشن کی تعداد نو ہزار دو سو تائیس جن میں انتہائ حساس پجیس سو سات اور حساس چار ہزار ایک سو اٹھاسی ہیں-

May be an image of 8 people, beard and people standing

بلدیاتی نظام میں تبدیلی

تحریک انصاف نے خیبر پختونخواہ میں دو ہزار تیرہ میں حکومت بنانے کے بعد بلدیاتی انتخابات 2013کے بلدیاتی ایکٹ کے تحت کرائے تھے جس میں ضلع اور تحصیل میں اکثریتی ووٹوں کی بنیاد پر ضلع اور تحصیل ناظم اور نائب ناظم کا انتخابات کیا جاتا تھا لیکن 2019 میں پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ اور موجودہ وزیراعظم عمران خان کی سوچ کو عملی جامعہ پہناتے ہوئے خیبر پختونخواہ اسمبلی میں صوبائی حکومت 2013 کے بلدیاتی نظام میں ترمیم کرتے ہوئے 2019 میں بلدیاتی ایکٹ منظور کرایا جسکے تحت ضلع ناظم کا نام تبدیل کرکے سٹی لوکل کونسل کے لئے سربراہ کا نام مئیر اور تحصیل اور یونین کونسل کے لئے چئیر مین جبکہ نائب ناظم کا عہدہ ختم کردیا گیا ہے اسی طرح انتخاب کے طریقہ کار کو تبدیل کرکے مئیر اور چئیرمین براہ راست ووٹوں سے منتخب ہوگا ۔ نئے قانون کے مطابق مئیر کا انتخاب خیبر پختونخواہ کے سات ڈویژنل ہیڈکوارٹر (پشاور،مردان،ڈیرہ اسماعیل خان، کوہاٹ، بنوں ،سوات اور ایبٹ اباد ) میں ہوگا جبکہ دیگر شہیروں میں تحصیل اور یونین کی سطح پر چئیرمین منتخب ہونگے اسی طرح یونین کونسل جو دیہاتی علاقوں میں ویلج اور شہری علاقوں میں نیبر ہوڈ کونسل ہوگی جو پانچ سے پندرہ ہزار ابادی پر مشتمل ہوگی وہاں ارکان کی تعداد سات ہوگی جو کہ تین جنرل کونسلر ، خواتین،کسان، یوتھ اور اقیلیتی سیٹون پر براہ راست منتخب ہونگے

بلدیاتی انتخابات کی منفرد اہمیت

ویسے تو بلدیاتی نظام عوام کے مقامی مسائل حل کرنے میں جہاں موثر ثابت ہوتے ہیں وہی نچلی سطح سے نئی سیاسی قیادت ابھرنے میں مرحلہ وار اختیارات کی مرکزیت ختم کرتے ہیں اور بلدیاتی ادارے با اختیار اور مالی وسائل کے مالک بن جاتے ہیں خیبر پختونخواہ حکومت کا دعوی ہے کہ مقامی حکومتوں کو صوبے کے ترقتیاتی بجٹ کا بیس فیصد فنڈ جاری کیا جائے گا البتہ اس حوالے سے گزشتہ مقامی حکومتیں فنڈز کی عدم دستیابی کی شکایات بھی سامنے ائی تھیں ۔ اسی طرح ان انتخابات میں سابق قبائلی علاقوں جنہیں اب ضم اضلاع کہا جارہا ہے وہاں بھی پہلی مرتبہ یہ الیکشن ہونے جارہے ہیں جسکے باعث یہ منفرد اہمیت رکھتے ہیں

مقامی حکومتوں کے اختیارات

مقامی حکومتوں کے 2019 کے تحت سٹی ڈسٹرکٹ اور تحصیل حکومت کو تجاوازات کے خلاف اپریشن ، اپنی رٹ کو منوانے کے لئے میونسپل وارڈن فورس کے قیام کا اختیار سمیت بیالیس مختلف اقسام کے کاروبار اور قوانین کی خلاف ورزی پر جرمانے کا اختیار حاصل ہوگا جن میں سڑک پر کھوکھے بنانے پر پندرہ ہزار روپے، سرکاری زبح خانے سے جانور زبح کرنے پر بارہ ہزار روپے، عوامی جگہ پر مویشی لے جانے پر دو ہزار روپے ، روڈ ، گلی یا نالی توڑنے پر پچیس ہزار ، گیس و پانی پائپ لائن توڑنے پر پچاس ہزار روپے ، بغیر اجازت عوامی مقام پر مردہ دفانے پر تین ہزار روپے ، ہتھ ریڑھی سڑک پر کھڑی کرنے پر دو ہزار روپے ، گندگی روڈ اور گلی میں پھنکے پر پانچ ہزار روپے سمیت ترقیافتہ ممالک کی طرز پر اشیائے خوردونوش نہ ڈھانپنے اور موسم کے مطابق ٹھنڈا اور گرم نہ رکھنے پر پانچ ہزار روپے جرمانے سمیت متعدد دیگر جرمانوں کا اختیار حاصل ہوگا-

بلدیاتی انتخاباتکاغذات نامزدگی

اتوار کو ہونے والے انتخابات خیبر پختونخواہ کے سترہ اضلاع ( پشاور، مردان، صوابی ، بونیر، نوشہرہ، کوہاٹ، خیبر، مہمند، بنوں، لکی مروت، ٹانک، ڈیرہ اسماعیل خان ، چارسدہ،ہری پور ، باجوڑ ،کرک اور ہنگو) کی 66 تحصیلوں اور 2382 و یلیج اور نیبر ہوڈ کونسلز 37 ہزار سات سو 52 امیدوار میدان میں ہیں جن میں 876 خواتین سمیت جنرل، کسان ،یوتھ اور اقلیت کی نشستوں پر دو ہزار تائیس امیدوار بلامقابلہ منتخب ہوچکے ہیں-

انتخابی سرگرمیاں

انتخابات جس سطح کے بھی ہوں ، گلی ،محلے اور روڈوں پر سرگرمیاں دکھائی دیتی ہیں اور یہی صورتحال کے پی کے سترہ اضلاع کی بھی جہاں سیاسی جماعتیں اور ازاد امیدوار بھر پور مہم چلارہے ہیں اور اس مہم کے دوران الیکشن کمیشن بھی اپنے جاری کردہ ضابطہ اخلاق پر سخت نظر رکھے ہوئے ہے جس کے باعث خیبر پختونخواہ حکومت کے وزراٗ، ،ممبر صوبائ اسمبلی، پارٹی رہنماوں ، وفاقی وزراٗ اور سپیکر قومی اسمبلی سمیت پانچ سے زائد افراد کو نوٹس جاری کرچکا ہے ۔ تاہم اسکے باوجود سیاسی سرگرمیاں عروج پر ہیں اور ہر امیدوار کامیابی کے لئے تمام حربے استعمال کررہا ہے ۔

معاشی سرگرمیاں

ان دنوں جب ملکی معیشت سست روی کا شکار ہے اور روزگار اور امدن کے زرائع سکڑ ہوئے ہیں مقامی حکومتوں کی انتخابی سرگرمیوں پرنٹنگ پریس، ہوٹل، ٹرانسپورٹ سے وابستہ کاروبار میں ہلچل پیدا کی ہوئی ہے تاہم مہنگائی کے باعث گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں امدن کی شرح اس سے مطمئن نظر نہیں ارہے ہیں

May be an image of 3 people and people standing

موروثی سیاست

با اثر سیاسی خاندان اور افراد کو جہاں بھی اختیار نظر اتا ہے انکی بھر پور کوشش ہوتی ہے کہ اس پر اپنا تسلط قائم کریں بھلے اس کے لئے ان کو اپنا نظریہ ، اخلاق و روایت کو پس پشت رکھنا پڑا اور اس صورتحال کی ایک جھلک ان انتخابات میں بھی نظر اتی ہے-

اس میں سرفہرست تحصیل نوشہرہ ہے جہاں حکمران جماعت کے امیدوار وزیر دفاع پرویز خٹک کے صاحبزادے اسحاق خٹک مقابلہ اپنے ہی چچا زاداحد خٹک کے ساتھ ہے جو رکن صوبائی اسمبلی لیاقت خٹک  کے صاحب زادے ہیں۔

ڈیرہ اسماعیل خان میں چیئرمین کشمیر کمیٹی کے علی امین گنڈا پور اور صوبائی وزیر بلدیات فیصل امین گنڈاپور کے بھائی عمر امین گنڈاپور میئرشپ حکمران جماعت کے امیدوار ہیں جن کا مقابلہ پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات اور سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی فیصل کریم کنڈی اور جے یو آئی ایف کے کفیل احمد نظامی سے ہوگا۔۔۔

اسی طرح صوابی کی تحصیل رزڑ سے صوبائی وزیرتعلیم شہرام ترکئی کے چچا بلند اقبال ترکئی تحریک انصاف کے ٹکٹ پر قسمت آزمائی کر رہے ہیں جبکہ صوابی خاص سے اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے پھوپھی زاد بھائی جماعت کی لاج رکھنے کے لیے میدان میں ہے۔۔۔۔

پشاور کی تحصیل متھرا سے ڈپٹی سپیکر کے پی اسمبلی محمود جان کے چھوٹے بھائی احتشام خان پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر مخالف امیدواروں کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہیں۔ اسی طرح پشاور کے مئیر کی نشست پر پیپلز پارٹی نے اپنے پارٹی رہنما ضیاٗ اللہ افریدی سے پارٹی ٹکٹ واپس لے کر سابق وفاقی وزیر ارباب عالمگیر اور مرکزی رہنما اسمہ ارباب عالمگیر کے فرزند ارباب زرک خلیل کو تھما دیا اور مولانا فضل الرحمان کی جماعت جے یو ائی نے پارٹی ٹکٹ اپنے کسی کارکن کو دینے کی بجائے سابق ضلع ناظم و سینیٹر اور مولانا فضل الرحمان کے سمدھی غلام علی کے بیٹے زبیر علی کے حوالہ کیا ہے ۔۔بلدیاتی انتخابات کی سیکیورٹی

انتخابات میں امن و عامہ کو یقینی بنانے اور ووٹرز کو بہتر اور سازگار ماحول میں ووٹ ڈالنے کی غرض سے پولنگ سٹیشن کو سیکیورٹی نقطہ نظر سے تین کٹیگری میں تقسیم کر کے ستتر ہزار پولیس اہلکار اور کوئیک رسپانس فورس کو خیبر پختونخواہ حکومت نے تعینات کیا ہے جبکہ ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے الیکشن کمیشن فوج کو بھی طلب کرسکتا ہے ۔

بلدیاتی انتخابات میں سیاسی جماعتوں کی حکمت عملی

بلدیاتی انتخابات جہاں نچلے سطح کی سیاسی قیادت کو اگے برھنا کا موقع دیتی ہے وہی سیاسی جماعتوں کا بھی اپنی عوامی طاقت جانچنے کا موقع دیتی ہے اور یہی وجہ کہ ان انتخابات میں صوبائی سطح پر کو ئی بڑا انتخابی اتحاد دیکھنے کو نہیں مل رہا ہے اور تمام جماعتوں نے قسمت ازمائی کے لئے اپنے اپنے امیدروار کھڑے کئے ہپوئے کیونکہ ان انتخابات کا اثر دو ہزار تئیس کے عام انتخابات پر پڑ سکتا ہے ۔
خواتین امیدوار۔

خیبر پختونخواہ کی سیاست میں خواتین ہمیشہ سے اہم کردار ادا کرتی ائی ہیں اور بین الاقوامی اور ملکی سطح پر اپنا سیاسی تشخص قائم کیا ہے ، ان انخابات میں دو ہزار تین سو بیاسی نشستوں کے لئے چار ہزار دو سو چودہ خواتین امیدوار سامنے ائی ہیں اور شوق کا یہ عالم ہے کہ ضلع مہمند جو سابق قبائلی علاقہ ہے اور قبائلی سوچ کے اثر میں ہیں وہاں سے ساس بہو جو ایک ہی گھر میں رہ رہی ہیں لیکن ایک دوسرے کے مد مقابل ہیں ، ساس دینا بی بی اے این پی اور انکی بہو رابعہ ازاد حیثیت میں قسمت ازمائی کررہی ہیں

وزیر اعلی کے اختیارات اور تحصیل چئیرمین کی معطلی

موجودہ بلدیاتی نظام میں تحصیل کونسل کی براہ راست نگرانی وزیراعلی کو دی گئی ہے جو تحصیل کونسل کے احکامات یا قانون سازی جو عوامی مفاد کے خلاف اسکو معطل کرکے بلدیاتی کمیشن کو بھیجواسکتا ہے اور ساٹھ دن میں رپورٹ نہ انے پر کوٗی بھی منسوخ بھی ہوسکتا ہے ۔

پشاور میں مئیر کا الیکشن

صوبائی دارلحکومت پشاور میں مئیر کا انتخاب صوبائی اسمبلی کی سات نشستوں پر مشتمل ہے جن میں چھ تحریک انصاف نے جیتی ہوئی ہیں اور ان چھ میں تین وزارت کا قملدان رکھتے ہیں ان میں کامران بنگش، تیمور سلیم جھگڑا اور اشتیاق ارمڑ شامل ہیں جبکہ ایک نشست پر اے این پی کی خاتون ثمر بلور رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئی ہیں ۔ اس نشست پر تجزیہ کاروں کے مطابق تحریک انصاف، اے این پی، پیپلز پارٹی ، جے یو ائی اور جماعت اسلامی کے امیدوراوں کے مابین سخت مقبالہ دیکھنے کو مل سکتا ہے ۔ مئیر کے علاوہ پشاور کی سات تحصیلوں میں بھی تمام پارٹیوں کے بانین سخت مقابلہ کی توقع کی جارہی ہے ۔ پشاور کے انتخابات میں گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں برادری ازم نمایاں نظر ارہا ہے اور ان میں ارباب ، بنگش، مہمند اور با جوڑ قوم کے افراد متحرک دکھائی دے رہے ہیں جبکہ پشاور ابائی رہائشی جنہیں ہند کو وان کہا جاتا ہے وہ قدرے غیر متحرک تو ہیں لیکن تمام جماعتیں اس ووٹ بنک سے بھر پور رابطے میں مصروف ہیں ۔ چونکہ بلور فیملی جو ہر سطح کے انخابات میں براہ راست اپنے امیدوار کی شکل میں نظر اتی تھی ان انتخابات میں اے این پی کے امیدوار کی حمایت کرتی نظر تو اتی ہے لیکن سابق سینیٹر الیاس بلور کے بیٹے اور سابق وفاقی وزیر اور اے این پی کے سینیر رہنما ، خان عبد الغفار خان اور ولی خان مرحوم کے قریبی ساتھی غلام احمد بلور کے بھتیجے نے غضنفر بلور کی تحریک انصاف میں شمولیت نے سیاسی ہلچل پیدا کردی ہے پشاور میں ووٹروں کی تعداد انیس لاکھ اٹھارہ ہزار پانچ سو ستاسی ہے جن میں مرد ووٹرز دس لاکھ اٹھتر ہزار چار سو اور خواتین ووٹرز چوراسی ہزار ایک سو چھیاسی ہے جبکہ پولینگ سٹیشن کی تعداد بارہ سو اٹھتالیس جن میں حساس اٹھ سو ساٹھ اور انتہاٗی حساس ایک سو پینسٹھ ہے-

شاید آپ یہ بھی پسند کریں