The news is by your side.

وہ کند ذہن اور نالائق نہیں!

“آپ کا بچہ پڑھائی میں بہت کم زور ہے۔ بر وقت آگاہ اس لیے کر رہے ہیں کہ آپ اندھیرے میں نہ رہیں اور کل یہ نہ کہیں کہ ہماری وجہ سے اس کا سال ضائع ہوا ـ” پرنسپل نے دو ٹوک لہجے میں کہا۔

” یہ ٹھیک ہو جائے گا ـ ٹیوشن بھی لگائی ہے۔ ہم بھی کوشش کر رہے ہیں۔ پلیز آپ اسکول  سے نہ نکالیں۔” ریحان کی والدہ التجائیہ لہجے میں بولیں ـ

“دیکھیں اس کا کسی ایک سبجیکٹ کا مسئلہ نہیں ہے، ہر مضمون میں اس کا یہی حال ہے۔ نہ یہ کلاس میں دل چسپی لیتا ہے، نہ سبق یاد کرتا ہے نہ صحیح سے لکھ پاتا ہے۔ حالاں کہ باقی بچوں کو بھی اسی طریقہ ہائے تدریس کے ذریعے پڑھایا جاتا ہے لیکن پوری کلاس میں اس بچے کی سب سے کم زور کارکردگی ہے جس کا اثر باقی طالب علموں پر بھی پڑ سکتا ہے۔ اس لیے ہم مزید رسک نہیں لیں گے۔ “

ریحان کی والدہ افسردہ دلی کے ساتھ اسے گھر واپس لے آئیں اور پھر مختلف اسکولوں میں ایڈمیشن کروانے کے بعد ان پر کھلا کہ ان کا بچّہ ’’نالائق‘‘ ہے،غبی بھی ہے۔ یہ پڑھائی کا شوق نہیں رکھتا اور جو بچّہ ذرا بھی دل چسپی نہ لے اسے کیسے پڑھایا جا سکتا ہے؟


یہ سارے تبصرے سننے کے بعد انہیں مشورہ بھی دیا گیا کہ وہ اسے کوئی ہنر سکھائیں تا کہ یہ کل کسی پر بوجھ نہ بنے۔

بچّہ اسکول میں نہیں پڑھ سکتا اور کیااس کا داخلہ کروانا وقت اور پیسے کا ضیاع ہے، یہ سوچ ایک ایسی ماں کے لیے اذیت ناک ہوتی ہے جو اپنی اولاد کو کسی قابل بنانا چاہتی ہو۔ لیکن جب ریحان کی والدہ کو اپنے بچّے میں ڈسلیکسیا کی بیماری کا علم ہوا تو وہ بہت رنجیدہ ہوئیں کہ اتنا عرصہ اپنے بچّے کو نالائق کہہ کر ذہنی اذیت دی۔

ریحان نے گھر میں پڑھتے ہوئے کئی بار والدہ سے مار کھائی۔ اس پر غصہ کرنا اور اسے سخت سست کہنا تو معمول کی بات تھی۔ الغرض ایک معصوم بچّہ وہ سب سہتا رہا جس میں اس کا کوئی قصور نہ تھا۔

بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں والدین اور اساتذہ بچّے کے انفرادی مسائل کو سمجھنے اور اس کی ذہنی حالت کے بارے میں جاننے کی کوشش ہی نہیں کرتے اور اس بارے میں بنیادی معلومات بھی ان کے پاس نہیں ہیں۔ اگر کوئی بچہ باقی طلباء کے ساتھ نہیں چل رہا تو بجائے اس کا مسئلہ سمجھنے کے، اس کا نام تعلیمی ادارے سے خارج کردیا جاتا ہےـ والدین بھی بچّے پر اپنا غصّہ نکالتے ہیں اور اپنی لا علمی کی وجہ سے ڈسلیکسیا کے شکار بچّوں کی کوئی مدد نہیں کر پاتےـ

یہ بچّے گھر میں اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ اور اسکول میں اپنے ہم جماعتوں سے موازنہ کیے جانے کی اذیت ناک مشق سے گزرتے رہتے ہیں۔

دراصل یہ ایسی معذوری ہے جو نظر نہیں آتی اور اس کا شکار فرد اپنی پریشانی کا اظہار کرنا بھی نہیں جانتا۔ خاص طور بچّہ والدین اور اساتذہ کو یہ نہیں بتا سکتا کہ وہ پڑھنے میں کیسی دشواری محسوس کررہا ہے اور اسے کسی سوال کو سمجھنے اور اسے حل کرنے میں کیوں مشکل پیش آرہی ہے۔
اگر آپ کی اولاد پڑھنے لکھنے کی عمر کو پہنچ چکی ہے اور اس حوالے سے انہیں کسی مشکل اور دقت کا سامنا ہے تو اپنے بچّوں پر بیوقوف اور ان کے ۔غبی ہونے کا لیبل لگانے سے پہلے دیکھ لیجیے کہ وہ ڈسلیکسیا کا شکار تو نہیں۔!

آئیے جانتے ہیں کہ یہ بیماری کیا ہے۔

ڈسلیکسیا کیا ہے؟

طبّی ماہرین کے مطابق یہ ایک ایسی بیماری ہے جس کی وجہ سے بچّے کو پڑھنے لکھنے، کسی لفظ اور ہجّے کو یاد رکھنے، الفاظ کی ادائیگی میں مستقل دشواری پیش آتی ہے۔ یہ بیماری دماغ اور اس کی کارکردگی سے تعلق رکھتی ہے۔ مگر اس کا تعلق ذہانت سے نہیں ہے۔ یہ ایسا مسئلہ ہے جو بظاہر نظر نہیں آتا اور اس کا شکار فرد بھی اپنے اس کا اظہار کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔

ڈسلیکسیا کی علامات کیا ہیں؟

ڈسلیکسیا کی علامات ہر فرد میں مختلف ہو سکتی ہیں۔ کچھ بچّے لکھنے اور ہجّے کرنے میں اور ریاضی کے حروف کی پہچان کرنے میں دشواری محسوس کرتے ہیں تو بعض بچّوں کے لیے الفاظ کا غلط تلفّظ اور اعداد الٹے نظر آنا ایک مستقل پریشانی بن جاتی ہے۔

ڈسلیکسیا  کا علاج

ڈسلیکسیا کوئی بیماری یا معذوری نہیں بلکہ ایک کیفیت ہے جس میں بچّوں کو سیکھنے کے عمل میں دشواری کا سامنا رہتا ہے۔ یہ ایک توجہ طلب مسئلہ ہے۔ جو پیدائش کے فوراََ بعد سامنے نہیں آتا۔ عموماََ اس بیماری کی تشخیص تین سے پانچ سال کی عمر میں ہوتی ہے۔ اگر بچّہ بولنے میں دشواری کا سامنا کر رہا ہے یا توجہ کا دورانیہ کم ہے تو ان دو علامات کی روشنی میں والدین کو فوراََ خبردار ہو جانا چاہیے۔

اس مرحلے پر بچّوں کو مشکل سے نکالنے میں والدین کا کردار انتہائی اہم ہے۔ انہیں اپنے بچّوں پر ابتدا سے ہی نظر رکھنی چاہیے۔ اگر بچّہ لفظ جوڑ توڑ اور حروف کی پہچان میں بار بار ناکام ہو رہا ہے تو پھر انہیں کسی ڈاکٹر سے مشورہ کرنا چاہیے۔ کیونکہ ماہر معالج ایسے بچوں کو تھراپی یا گفتگو کے مراحل سے شناخت کر کے ان کی کم زوریوں کو دور کرنے کے لیے بہترین مشورے دے سکتے ہیں۔

یہ ماہرین بچّوں کو کھیل کھیل میں رنگوں اور اشکال کی مدد سے حروف کی پہچان سکھاتے ہیں اور والدین کو رنگ برنگی تصویروں والی کہانیاں اور رسائل کی مدد سے پڑھانے کی تجاویز دے سکتے ہیں۔

اس بیماری سے متاثرہ بچّے کو تعلیم کا پورا حق حاصل ہے لہٰذا والدین اسکول میں ٹیچر کو  اپنے بچّے کی ذہنی کیفیت اور پڑھائی سے متعلق اس کے مسئلے پر اعتماد میں لے کر اس کے لیے ان کی خصوصی توجہ حاصل کرسکتے ہیں اور ادارہ اپنے اساتذہ کو اس حوالے سے ٹریننگ دے کر بچّے کی تعلیم کا اہتمام کرسکتاہے۔ ایک اچھا استاد ہی متاثرہ بچّے کو اس وقت حوصلہ اور اعتماد دے سکتا ہے جب انہیں اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔

ماہرین کے مطابق یہ بچّے والدین اور اساتذہ کی مدد سے عام بچّوں کی طرح تعلیمی مراحل طے کرکے کام یاب ہو سکتے ہیں۔ اس کی مثال امریکا کی بہترین اداکارہ جینیفر آنسٹن، ہالی ووڈ کے چوٹی کے فلم میکر اسٹیون اسپیل برگ اور لیجنڈری ہیوی ویٹ باکسنگ چیمپئن محمد علی مرحوم ہیں جو اس مسئلے کا شکار تھے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں