چند برسوں کے دوران حکومتی سطح پر بعض اقدامات، عورتوں کے حقوق کے لیے تحاریک اور حقوقِ نسواں کی تنظیموں کی کوششوں سے کافی حد تک تبدیلی آئی ہے، جس نے پاکستان میں عورتوں سے جڑے مروجہ رسم و رواج، ان سے امتیازی سلوک اور صنفی تفریق پر مباحث اور مکالمے کا راستہ نہ صرف ہموار کیا ہے، بلکہ اس نوع کے واقعات کے بعد اب عام آدمی بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے عورتوں پر ظلم و زیادتی کے خلاف آواز بلند کرتا نظر آتا ہے۔لیکن ابھی منزل دور ہے اور آج بھی بیٹوں اور بیٹیوں میں تفریق نے عورتوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔
پاکستانی سماج میں خواتین کو صنفِ نازک کہا تو جاتا ہے، لیکن اس بنیاد پر وہ نرمی اور حسنِ سلوک کے بجائے پدر سری سماج میں ایسے تلخ رویوں کا شکار ہوجاتی ہیں جو کسی بھیانک واقعے کی صورت میں میڈیا کے ذریعے ہمارے سامنے آتے ہیں۔ تب ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ پاکستانی سماج میں فکر و شعور کا افلاس اور کس قدر ذہنی پستی ہے۔ دراصل پاکستانی معاشرہ ایک پدر سری معاشرہ ہے، جس میں گھر کا سربراہ مرد کو سمجھا جاتا ہے اور عورت خواہ وہ پڑھی لکھی ہی کیوں نہ ہو، اسے گھر کی چار دیواری کی زینت سمجھا جاتا ہے، جس کا کام چولھا چوکھا سنبھالنا، بچّے پالنا ہے، لیکن اسے فیصلہ سازی کا حق نہیں دیا جاتا۔ آج بھی بہت سے گھرانوں کی لڑکیوں کی زندگیاں وہیں ساکت و جامد ہوجاتی ہیں، جب وہ والدین کی دہلیز چھوڑ کر سسرال میں قدم رکھتی ہیں۔ اب یہ لڑکی کی قسمت کہ اسے سسرال کیسا ملا ہے۔ اگر سسرال اچھا ہے تو کچھ اونچ نیچ کے ساتھ زندگی بہتر اور قدرے پُرسکون ہوگی، ورنہ ساری عمر تپتی دھوپ میں سائبان تلاش کرتے رہنا پڑے گا۔
پاکستانی سماج میں ایک عورت کی زندگی کے عام مسائل اور سسرال میں اس کے ساتھ ناانصافی اور زیادتی کی بات کی جائے تو بعض لوگ اسے مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عورتوں کو اپنی ذات اور اپنے کنبے کے بارے میں سوچنے اور اس حوالے سے فیصلہ کرنے کی آزادی ہے۔ یہ ایک عام مغالطہ ہے جس کا اظہار اکثر سوشل میڈیا پر کیا جاتا ہے لیکن لاہور کے ایک اسپتال میں پیش آنے والا دل خراش واقعہ اس خیال کی یکسر نفی کرتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو شاید ایک عورت تیسری بیٹی کی پیدائش پر خوف زدہ ہو کر اپنی زندگی ختم کرنے کا سوچتی بھی نہیں۔ چند روز پہلے خبر آئی کہ لاہور کے جنرل اسپتال میں تیسری بیٹی کو جنم دینے کے بعد ماں نے عمارت کی دوسری منزل سے چھلانگ لگا دی اور شدید زخمی ہو گئی۔ ابتدائی رپورٹ کے مطابق سسرال والے اس مرتبہ لڑکی سے بیٹے کی امید رکھتے تھے، لیکن اس نے تیسری بار بھی بیٹی ہی کو جنم دیا اور ظاہر ہے کہ سسرال والوں کو اس پر خوشی نہیں ہوئی۔ نومولود کی ماں شدید ذہنی تناؤ کا شکار تھی اور نجانے کب اس نے اس ‘جرم’ کی سزا کے طور پر خود کو موت کے سپرد کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ یہ پہلا واقعہ نہیں ہے جب بچی کی پیدائش پر سب کی طرح قدرت کے فیصلے کے آگے بے بس اور مجبور ماں نے انتہائی قدم نہ اٹھایا ہو۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ملک کے طول و عرض اس طرح کے کئی واقعات ایسے بھی ہوئے ہیں جو کسی وجہ سے رپورٹ نہیں ہوسکے۔
اکثر پہلی بیٹی یا اوپر تلے بیٹیوں کی پیدائش پر لڑکیوں کو طلاق کا پروانہ تھما دیا جاتا یا پھر موت ان کا مقدر بنتی ہے۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ اسپتال ہی میں شوہر اور دوسرے سسرالی ناخوشی کا اظہار کرتے ہوئے لڑکی اور نومولود بچی کو چھوڑ کر گھر روانہ ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں میکے والے اسپتال اور زچہ و بچہ کے سارے اخراجات بھی اٹھاتے ہیں۔
دیکھا جائے تو ہمارے سماج میں وہ ذہن کس قدر مفلوج ہیں جو بیٹی کی پیدائش کو منحوس اور اسے ایک بوجھ تصور کرتے ہیں۔ ایسے باپ اور یہ گھرانے بچّی کو اولاد کے طور پر قبول ہی نہیں کرتے۔ بیٹے کی پیدائش پر تو مٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں، لیکن بیٹی کی پیدائش پر گویا صفِ ماتم بچھ جاتی ہے۔
بیٹا پیدا کرنے کے لیے تعویذ، دھاگے، عاملوں کے پاس جانے اور مزاروں کے چکر لگانے کے باوجود اگر بیٹی ہی پیدا ہو جائے تو اسے عورت کی بد بختی تصور کیا جاتا ہے۔ اس لپیٹ میں صرف ایک دور دراز اور پسماندہ علاقے میں رہنے والی کوئی ان پڑھ لڑکی ہی نہیں آتی، بلکہ اسی آزمائش سے شہر کی پڑھی لکھی لڑکی بھی گزرتی ہے۔ جب شہر کی ایک لڑکی کے ساتھ ہوتا ہے تو وہ بھی اس سماج میں پاگل ہونے لگتی ہے۔ اس کی تمام قابلیت، فخر و غرور، اس کا اعتماد اس کی شخصیت سب تباہ ہو جاتا ہے۔ اسے بیٹا نہ پیدا کرنے کی پاداش میں نظروں سے ایسے گرایا جاتا ہے کہ وہ شدید خواہش کے باوجود بھی اٹھ نہیں پاتی۔ اسے نہ تو شوہر سہارا دیتا ہے اور نہ ہی وہ ساس اور نندوں سے امان پاتی ہے اور حد تو یہ کہ میکے میں بھی کوئی اس ذہنی اذیت سے اس کو نجات دلانے والا نہیں ہوتا۔
یہ سلسلہ یہیں پر تمام نہیں ہوتا، بلکہ کچھ عرصے کے بعد بیٹے کی دوسری شادی اس کے والدین صرف اس لیے کر دیتے ہیں کہ پہلی بیوی بیٹا نہیں دے سکی۔ تشدد کی یہ بدترین قسم، دراصل ایسی ذہنی اذیت ہے، جسے کبھی تسلیم ہی نہیں کیا گیا، کیونکہ یہ بظاہر دکھائی نہیں دیتی۔ اسی وجہ سے خواتین اپنے ذہنی مسائل پر بات کرتے ہوئے ہچکچاتی ہیں اور اگر ہمت کر کے بات کر بھی لیں تو اسے کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔
سائنس کہتی ہے کہ بیٹا یا بیٹی پیدا کرنا عورت کا اختیار نہیں اور سائنس کے مطابق، بچے کی جنس ماں نہیں، باپ کی جینیات اور کروموسومز پر منحصر ہوتی ہے۔ اس طرح اگر واقعی کوئی قصور وار ہے تو پھر وہ مرد ہے، لیکن اس کے باوجود بیٹی کی پیدائش کے بعد خواتین کے ساتھ ذہنی اور جسمانی تشدد کے واقعات میں کمی نہیں آئی ہے۔ دوسری طرف ہم دینی نقطۂ نظر سے دیکھیں تو اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ جسے چاہتا ہے بیٹا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹی دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے دونوں عطا کرتا ہے (ترجمہ و مفہوم)۔ اتنے واضح حکم کے بعد بھی نہ ہم اچھے مسلمان بن سکے اور نہ ہی اچھے انسان۔
عورتوں کے ساتھ ہونے والے ایسے بہیمانہ سلوک پر عموماً مختلف طبقہ ہائے فکر کے خیالات بھی سامنے آتے ہیں، جن کے مطابق عورت ہی عورت پر ظلم کرتی ہے، مرد تو ان کے درمیان پس کر رہ جاتا ہے، نہ وہ بیوی کی طرف داری کرسکتا ہے اور نہ ہی ماں اور بہنوں کی۔ اس لیے مرد کو موردِ الزام ٹھہرانا غلط ہے۔ جب کہ دوسرا طبقہ پہلے کی مخالفت میں یہ کہتا نظر آتا ہے کہ ساس کی بجائے مرد ہی ظالم ہے، جو اپنی بیوی اور اس کے بطن سے پیدا ہونے والی بچّی کا تحفظ نہیں کرسکتا۔ یہ مباحث صبح سے شام تک بھی جاری رہیں یا خواتین کے عالمی دن پر مذمتی الفاظ کی جگالی کی جاتی رہے، اس کا منطقی انجام ممکن نہیں اور نہ ہی اس کا حل سامنے آئے گا۔
اس لیے ضروری ہے کہ ہم ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے اپنا کردار اپنے گھر سے ادا کرنا شروع کریں۔ کیوں کہ سٹرکوں پر نعرے مارنے سے تبدیلی نہیں آئے گی۔ اس کا دوسرا اور مؤثر حل ریڈیو اور ٹی وی پروگرام ہیں بالخصوص وہ ڈرامے جو ملک بھر میں اور دور دراز علاقوں میں جہاں مردوں اور عورتوں کی اکثریت ناخواندہ بھی ہے اور وہاں شعور اور آگاہی کا بھی فقدان ہے، شوق سے دیکھے جاتے ہیں۔ ان ڈراموں کے ذریعے عورتوں کے مسائل کو اجاگر کرتے ہوئے ان کے مضبوط کردار کو سامنے لایا جائے جس سے رفتہ رفتہ سہی تبدیلی ضرور آئے گی۔