The news is by your side.

وی لاگ بنائیں، مگر اپنی نجی زندگی کو ڈیجیٹل مارکیٹ میں فروخت نہ کریں

دورِ جدید میں‌ اپنا نقطۂ نظر پیش کرنے، کسی موضوع پر اظہارِ خیال، تفریحی یا تشہیری مقاصد کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لینے والوں میں‌ ‘وی لاگ’ سب سے زیادہ مقبول ہے۔ یہ ایسی ویڈیو ہوتی ہے جس میں وی لاگر اپنا ‘کانٹینٹ’ سوشل میڈیا اور مخصوص پلیٹ فارم پر اپ لوڈ کردیتا ہے اور انھیں ہر کوئی دیکھ سکتا ہے۔ یہ ویڈیوز گھر بیٹھے خاطر خواہ آمدنی کا ذریعہ بنتی ہیں‌۔

وی لاگر کا تعلیم یافتہ ہونا بھی ضروری نہیں‌ ہے۔ کسی بھی عمر اور طبقے کے مرد، عورت جو سماجی رابطے کے کسی پلیٹ فارم سے منسلک ہوں اور موبائل فون یا ڈیجیٹل کیمرے کا استعمال جانتے ہوں، ایسا کانٹینٹ پیش کر کے جو عام آدمی کی دل چسپی اور توجہ حاصل کرے، کام یاب وی لاگر بن سکتے ہیں۔

وی لاگنگ ایک وقت طلب کام ضرور ہے، لیکن کوئی ایک ویڈیو بھی وائرل ہوگئی تو وی لاگر کو لاکھوں ‘ویورز’ مل سکتے ہیں‌ جس کے بعد آمدنی کا راستہ آسان ہو جاتا ہے۔ گوگل اب ’’یوٹیوب مونیٹائزیشن‘‘ کی آفر خود کرتا ہے جس کے تحت ویڈیوز اپ لوڈ کرنے والوں کو وی لاگ پر اشتہار دکھانے کے عوض پیسے ملتے ہیں۔ گویا یوٹیوب پر جو ویڈیو جتنی زیادہ مرتبہ دیکھی جائے گی، وی لاگ بنانے والے کو اتنے ہی زیادہ پیسے بھی ملتے ہیں۔ اور وی لاگر اس آفر کے تحت گھر بیٹھے کما بھی رہے ہیں۔

وی لاگ مختلف موضوعات پر بنائے جاسکتے ہیں۔ جیسے بیوٹی ٹپس، ٹریولنگ، گیمز ریویو، کوکنگ وغیرہ۔ پاکستان میں‌ بالخصوص نوجوان لڑکے لڑکیاں‌ جو ڈیجیٹل پلیٹ فارمز اور کیمرہ وغیرہ سے متعلق ٹیکنالوجی کا استعمال بخوبی جانتے ہیں، ایسے وی لاگ بنا کر اپنے یوٹیوب چینل پر اپ لوڈ کررہے ہیں۔ اسی طرح ڈیلی روٹین (معمولاتِ زندگی) پر بنائے گئے وی لاگ بھی لوگوں‌ میں بہت مقبول ہیں اور خاص طور پر خواتین وی لاگر کوتوجہ مل رہی ہے۔ یہ خواتین اپنے وی لاگ میں‌ صبح کی بھاپ اڑاتی چائے، گرما گرم پراٹھے سے لے کر شام کے کھانے کی تیّاری تک اپنے کاموں اور معمولات کو اپنے چینل کے ناظرین کے سامنے رکھ دیتی ہیں۔

ان وی لاگز کا حصّہ ان کے اہلِ خانہ بھی ہوتے ہیں جن کا تعارف کروانے کے ساتھ وی لاگر ان کے معمولات جیسے گھر سے باہر آنا جانا، گھومنا پھرنا، شاپنگ اور آپس کی باتیں‌ وغیرہ سبھی کچھ عکس بند کرتی ہیں جسے اپنی سہولت سے اپنے چینل یا فیس بک پیج پر اپ لوڈ کردیتی ہیں۔ بعض وی لاگر آن لائن براہِ راست یہ سب دکھاتے ہیں اور یہ سب بظاہر غیر حقیقی یا مصنوعی نہیں ہوتا۔ یہ ڈیلی روٹین بلاگ ‘کٹ اور ایڈٹ’ کے بغیر ‘لائیو’ نشر ہوتا ہے جس میں‌ ناظرین کئی گنا زیادہ دل چسپی لیتے ہیں اور ان کے ویورز کی تعداد بھی زیادہ ہوسکتی ہے۔

یہاں تک تو بات سمجھ میں آتی ہے، لیکن بدقسمتی سے زیادہ سے زیادہ کمانے اور شہرت کی ہوس میں وی لاگر اخلاقی حدود کو پامال کرتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔ ان وی لاگز میں کتنا سچ اور کتنا جھوٹ ہوتا ہے، اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا،مگریہ ضرور ہے کہ فلم بند کیے گئےواقعات کی ‘اصلیت’ کی کھوج کئی میل دور بیٹھے ناظر کے لیے ممکن نہیں۔ اس امکان کو کسی صورت نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ اپنی ویڈیوز کو زیادہ سے زیادہ مقبول بنانے اور ‘وائرل’ کرنے کے لیے وی لاگرز ڈرامائی انداز بھی اختیار کرتی ہیں۔

وی لاگر اپنے گھریلو جھگڑے، شوہر سے ناچاقی اور نجی نوعیت کے معاملات کو بھی سب کے سامنے لے آتے ہیں جس سے خود ان کے تعلقات، رشتے داریاں متاثر ہوسکتی ہیں اور یہ سب وی لاگر کے خاندان کے لیے بھی باعثِ شرمندگی بن سکتا ہے۔ خاص طور پر جب میاں بیوی کے تعلق پر اور ان میں رنجش، کسی بات پر تکرار یا جھگڑے کو بھی وی لاگ کا حصّہ بنایا جاتا ہے تو ایک طرف تو بہت عجیب اور غیرضروری لگتا ہے،لیکن اس سے زیادہ عجیب بات یہ ہوتی ہے کہ شائقین اور ویڈیو دیکھنے والوں سے نجی معاملے پر یاجھگڑے کے بعد رائے طلب کی جاتی ہے اور پوچھا جاتا ہے کہ کون درست ہے اور غلطی کسی کی ہے۔ ایسی ویڈیوز کا ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ ان میں عورتیں‌ اپنی روایات اور اقدار سے بے پروا نظر آتی ہیں جب کہ وہ جانتی ہیں کہ ان کے دیکھنے والوں میں کم عمر اور نوجوان بھی شامل ہیں۔ بھڑکیلے لباس کے ساتھ نشست و برخاست کا نامناسب انداز اور ہیجان انگیز مکالمے بھی اکثر وی لاگز کا حصّہ ہوتے ہیں جنھیں دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب ارادی طور پر کیا جارہا ہے۔ اسی طرح خاتون وی لاگر ڈرامائی انداز اپناتے ہوئے اپنے معاملات اور مسائل کو بڑھا چڑھا کر بیان کرکے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنے چینل کی طرف راغب کرنے کی کوشش کرتی دکھائی دیتی ہیں۔

ویڈیو کو اپ لوڈ کرنے کا مرحلہ بھی اسے ‘وائرل’ کرنے کی شدید خواہش کے زیرِ اثر اکثر نہایت بھونڈا بلکہ غیراخلاقی دکھائی دیتا ہے۔ ان ویڈیوز پر تھمب نیل سنسنی خیز اور ہیجان انگیز ہوتے ہیں اور بعض اوقات یہ وی لاگر لوگوں کو متوجہ کرنے کے لیے انتہائی پست اور نامناسب سرخی یا عنوان بھی دے دیتے ہیں۔ اس کی ایک عام مثال “میرے خاوند نے مجھ پر بڑا ظلم کیا، میرے خاوند کی دوسری شادی، میری سوکن مجھ سے میرا خاوند چھین رہی ہے، میں گھر چھوڑ رہی ہوں… وغیرہ” ہوسکتی ہے جس سے ناظرین کا اشتیاق بڑھتا ہے اور ان میں‌ بے چینی پیدا ہوتی ہے۔ یوں وہ ویڈیو دیکھنے بیٹھ جاتے ہیں اور وی لاگر اپنے مقصد میں کام یاب ہوجاتا ہے۔

دوسری طرف نجی زندگی، اپنی ذات اور تلخیوں اور جھگڑوں کو عام لوگوں‌ کے سامنے رکھتے ہوئے جب وی لاگر لوگوں سے مشورہ اور ان کی رائے طلب کرتا ہے تو جس کا جو دل چاہتا ہے، وہ کہہ دیتا ہے۔ کچھ لوگ ویڈیو پر تبصرہ کرتے ہوئے رکیک جملے، گھٹیا باتیں‌ کرتے ہیں‌ اور کچھ مذاق اڑاتے ہیں، تو کوئی سنجیدگی سے انھیں‌ ان کے مسئلے کا حل بتانے لگتا ہے۔ کہیں خاوند سے طلاق لینے پر زور دیا جاتا ہے، اور کچھ تو سرِعام لائیو سیشن میں انھیں شادی کی پیشکش بھی کردیتے ہیں۔ ان کی کہانیاں‌ ڈیجیٹل دنیا میں ہاٹ کیک کی طرح بکتی ہیں۔

خاتون وی لاگرز میں‌ چند ایک کے گھر بھی اجڑنے کی باتیں سنی گئی ہیں۔ ایک دن سرچنگ کے دوران ایک وی لاگر جوڑے کی کہانی سامنے آئی جس پر دل افسردہ ہوگیا۔ واقعہ یہ تھاکہ جب ان کے ڈیلی روٹین پر وی لاگز کو شہرت ملی، اور ان کے چینل کا طوطی بولنے لگا، تو سب سے پہلے آپس میں اختلافات کے بعد اس جوڑے کے چینل الگ ہوگئے، پھر گھر اور آخر میں تعلق مکمل طور پر ختم ہو گیا۔ وی لاگنگ میں ایک دوسرے پر سبقت کی دوڑ نے انھیں‌ طلاق پر آمادہ کرلیا اور یوں وہ گھر برباد ہوگیا۔ افسوس کہ لوگ ظاہری حالات سدھارنے میں سدھ بدھ کھو چکے ہیں اور انھیں علم ہی نہیں کہ ان کے خانگی معاملات کس نہج پر پہنچ گئے ہیں‌ اور وہ تباہی کی طرف گام زن ہیں۔

پاکستان میں‌ وی لاگنگ کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے، اس نے ڈالرز کی چکاچوند میں خاندانی نظام کو بیچ چوراہے پر لاکھڑا کیا ہے۔ ایک اور ویڈیو میں افسوس ناک صورت حال دیکھنے کو ملتی ہے کہ ایک وی لاگر اپنی سگی بہن پر الزام لگاتے ہوئے اسے اپنے خاوند کے ساتھ غیر اخلاقی حرکتوں میں‌ ملوث بتا رہی ہے اور غم و غصہ کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہے کہ بہن نے میرا گھر برباد کر دیا اور میرے پاس ثبوت ہیں۔ پھر باقاعدہ ثبوت دکھائے بھی جاتے ہیں۔ اکثر لوگ یہ بھی کہتے دکھائی دیے کہ یہ سب جھوٹ ہے اور اس طرح‌ ڈرامائی انداز اختیار کرکے گھٹیا الزامات لگانے کا مقصد محض وی لاگ وائرل کرنا اور آمدنی بڑھانا ہے۔ یہ سب سچ ہے یا جھوٹ ایک بات ضرور طے ہے کہ ایسی ویڈیوز نے اخلاقیات کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ دوسری طرف اس وی لاگر کی بہن اپنی بھنویں اور بال کاٹ کر سامنے آتی ہے اور اپنی ویڈیو میں‌ خود پر لگے الزامات کا جواب دیتی ہے۔ اگر یہ الزام درست تھا اور ایسی کوئی بات تھی بھی تو جو معاملہ گھر کی چار دیواری کے اندر حل ہونا چاہیے تھا، اسے ڈالر کی ہوس میں سب پر کھول دیا گیا۔ ان ویڈیوز پر چند گھنٹوں میں لاکھوں ویوز اور لائکس کی بھرمار تھی، ناظرین اس تماشے پر شہد کی مکھیوں کی طرح منڈلاتے رہے، لیکن افسوس ایسی بے تکی اور بے مقصد ویڈیوز پر انھیں کوئی ٹوکنے والا نہیں‌ تھا۔

لاکھوں سبسکرائبرز اور ڈالرز کی برسات میں وی لاگرز یہ بات بھول گئے ہیں کہ زندگی میں عزّت اور شخصی وقار بہت اہمیت رکھتا ہے۔ معاشرے میں عزّت کے ساتھ جینے اور سَر اٹھا کر چلنے کا لطف ہی کچھ اور ہے۔ انسان کی ساکھ اور کردار بے مول ہوتے ہیں۔ ایسی ویڈیو سے کمائے گئے ڈالروں کا کیا فائدہ، جس پر ہزاروں کمنٹس آپ کو ذلیل کرنے اور ٹھٹھا اڑانے کے لیے لکھے جارہے ہوں، ایسی بےعزّتی سے کمایا گیا ڈالر کیا آپ کو حقیقی مسرت دے سکتا ہے؟ کیا یہ سوال آپ نے اپنے آپ سے کبھی کیا ہے؟

کسی بھی موضوع پر وی لاگنگ کارآمد اور مفید مگر نہایت ذمہ دارانہ عمل ہے۔ لہٰذا ایک کارآمد فرد کی حیثیت سے اپنے کانٹینٹ کے ذریعے معاشرے کی اصلاح کریں۔ اچھی اور معیاری ویڈیو بنائیں اور ان کی مدد سے سماجی برائیوں کو اجاگر کرتے ہوئے ان کا سدّباب کرنے کی کوشش اور مسائل کا حل پیش کریں۔

آپ ڈیلی روٹین وی لاگ میں ہی تفریحی انداز میں معلوماتی، مفید اور اصلاحی ویڈیو بھی بنا سکتے ہیں۔ وی لاگ بناتے ہوئے ایک اخلاقی حد ضرور مقرر کریں اور اپنے معاشرے اور ہر عمر کے ناظرین کو ذہن میں‌ رکھیں‌ اور پھر کسی بھی صورت میں‌ اس حد سے تجاوز نہ کریں۔ ڈیلی روٹین پر مبنی ویڈیوز ضرور بنائیں، لیکن اپنے نجی معاملات کو ڈیجیٹل بازار میں پیش نہ کریں، کیوں کہ کچھ چیزیں برائے فروخت نہیں ہوتیں جیسے عزّت!

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں