The news is by your side.

بچوں کے ساتھ اپنا رویّہ بہترین بنائیں‌

دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بچّوں‌ کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے اور ان معاشروں میں سب سے زیادہ اہتمام ان کی تربیت کے لیے کیا جاتا ہے۔

ہمارے یہاں بھی تعلیم کے ساتھ تربیت کی اہمیت اور افادیت کو سمجھا گیا ہے، اور بلاشبہ یہ سلسلہ بچپن سے لے کر بلوغت تک اسکول اور اگلے تمام تعلیمی درجات میں بچّے کی شخصیت کو متوازن بنانے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود بچّوں میں غیر اخلاقی قدریں اور منفی رجحان بھی جنم لے رہا ہے جس سے آج کی مائیں نالاں نظر آتی ہیں۔اکثر مائیں بچّوں کے بدتمیزی سے بات کرنے، ان کے منہ پھٹ اور زبان دراز ہونے کی شکایت کرتی ہیں اور اس کی ذمہ داری اساتذہ اور تعلیمی اداروں پر ڈالتی ہیں جب کہ تعلیمی ادارے اسے والدین کی غفلت اور تربیت میں کمی کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔ یوں سماج میں‌ تعلیم و تربیت سے متعلق دو اہم ذمہ داروں کے درمیان رسہ کشی شروع ہو جاتی ہے، جس کا نتیجہ صفر ہی رہتا ہے۔ اس قضیے میں اگر غور کیا جائے، تو اس کا سرا خود ہمیں، ہمارے ہی معمولات، طریقۂ پرورش اور اندازِ تربیت، ماحول اور توارث سے مل جائے گا۔

دراصل ہمارے سامنے بظاہر چھوٹا نظر آنے والا بچّہ، مکمل حسیات کے ساتھ پوری طرح بیدار اور متحرک دماغ کی ایک شخصیت ہوتا ہے۔ اس لیے بچّوں کے متعلق یہ مفروضہ کیسے قائم کیا جا سکتا ہے کہ وہ ناسمجھ اور نادان ہیں یا وہ ہمارے غصے، اچھے برے رویوں میں امتیاز نہیں کرسکتے؟ دراصل بچّوں کے اندر قدرتی طور پر ایک ایسا میکنزم موجود ہوتا ہے، جس کی بدولت وہ اپنے ماحول سے محبت، نفرت، خوشی، بیزاری، خوش گوار و ناگوار جذبات کا ادراک بھی رکھتا ہے اور اسے ہر عمر میں محسوس کرنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔ ماہرینِ نفسیات کے مطابق اسی لیے بچوں میں منفی جذبات اور رجحانات یک دم پیدا نہیں ہوتے، بلکہ اس کے پیچھے وہ تمام عوامل کارفرما ہوتے ہیں، جو طویل عرصہ سے بچّے کی ذہنی اور جذباتی تربیت کررہے ہوتے ہیں۔ ذیل میں بچّوں کے رویے سے متعلق چند عمومی باتوں کا جائزہ، اس کے تدارک کے لیے تجاویز پیش ہیں۔

بچّوں کو ان کے دوستوں کے سامنے عزّت دیں:
اسکول جانے کے ساتھ ہی بچّے کا اپنے ہم عمروں سے تعلق اور وابستگی کا بھی آغاز ہو جاتا ہے۔ یہ اس کی زندگی کا انتہائی اہم موڑ ہوتا ہے جہاں والدین کو محبت دینے کے ساتھ ساتھ بچّے کو عزت بھی دینی چاہیے، خاص کر، جب ان کے دوست ساتھ ہوں۔ کیونکہ آپ کی ذرا سی تلخ بات انھیں اپنے دوستوں کے سامنے شرمندہ کرسکتی ہے، جس طرح والدین اپنی عزت و ناموس کے لیے حساس ہوتے ہیں، اسی طرح بچّہ بھی اپنے وقار اور ساتھیوں کے درمیان اپنی عزت کے معاملے پر سمجھوتا کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ آپ نے کبھی یہ مشاہدہ کیا ہو گا کہ گھر میں ڈانٹ کھانے پر اس کا ردعمل اتنا شدید نہیں ہوگا، لیکن اسے دوستوں کے سامنے بری طرح جھڑک دیا جائے یا کسی جائز بات پر بھی ڈانٹا جائے، تو اس کا ردعمل عجیب ہوسکتا ہے۔ ایسے میں جونہی آپ غصے میں بچّے کی طرف بڑھتے ہیں یا اس پر چیختے ہیں، تو وہ وہاں سے فوراً بھاگنے کی کوشش کرے گا، یا کوئی نہ کوئی ایسا اشارہ کرے گا کہ والدین اس کو ڈانٹنے یا مار پیٹ کرنے سے رک جائیں لیکن بدقسمتی سے غصے میں والدین اس طرف توجہ نہیں‌ دے پاتے اور بچّے کو جذباتی طور پر نقصان پہنچتا ہے۔ اس عمل سے بحثیت والدین آپ ان کے لیے رفتہ رفتہ ناپسندیدہ شخصیت بن جاتے ہیں۔ بچہ کے لیے یہ لمحات انتہائی تکلیف دہ ہوتے ہیں کہ اس کے دوستوں کے سامنے سرزنش ہو، وہ اسے اپنی توہین سمجھتے ہیں اور اس کے نتیجے میں اپنے دوستوں کے سامنے جو شرمندگی اٹھانا پڑتی ہے، اسے ساری زندگی نہیں بھول پاتے۔ اسی وجہ سے ان میں بغاوت اور سرکشی جنم لیتی ہے۔ پھر والدین یہ شکایت کرتے ہیں کہ بچّے ان کا احترام نہیں کرتے یا ان سے بحث اور تکرار کرنے لگے ہیں۔ والدین اگر اپنا احترام کروانا چاہتے ہیں، تو انھیں چاہیے کہ بچوں کی عزت اور احترام کو بھی ملحوظِ خاطر رکھیں۔ اس سے بچّے کے اندر ایک اعتماد پیدا ہوتا ہے، اور وہ معاشرے میں ایک سلجھی شخصیت کے طور پر سامنے آتے ہیں۔

بچوں کو آزادی اظہارِ رائے کا حق دیں:
عموما بچوں کو نا سمجھ اور کمسن تصور کرکے ہم انہیں بات کرنے کا موقع نہیں دیتے۔ انہیں درمیان میں ٹوک دیتے ہیں۔ انہیں اپنی بات جلدی کرنے کا حکم صادر کرتے ہیں یا ان کی بات میں عدم دلچسپی ظاہر کرتے ہیں۔ اور پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے، کہ بچہ اپنی بات کی وضاحت کرنے میں دقت محسوس کرنے لگتا ہے۔ وہ اٹکتا ہے، جھنجھلاتا ہے، جس کی وجہ سے اس کے اندر بے سکونی اور بے چینی پیدا ہوتی ہے، اور آہستہ آہستہ وہ احساس کمتری کا بھی شکار ہو جاتا ہے۔ بچے کو اس کیفیت سے نکالنے کے لیے ضروری ہے کہ بچہ جب تک اپنی بات مکمل نہ کر لے، بے صبری کا مظاہرہ مت کریں، اسے بولنے کا پورا وقت دیں، اس کی بات غور سے سنیں، اور دلچسپی لیں، تاکہ بچے کے اندر یہ احساس پیدا ہو کہ خواہ کوئی بھی مشکل آجائے، گھر میں ایک فرد ایسا ہے جو اس کی بات نہ صرف سنے گا، بلکہ سمجھے گا بھی۔

بچوں کو دوسروں کی عزت کرنے پر مجبور کرنا یا دباؤ ڈالنا:
ہمارے سماج میں یہ رویہ عام دیکھا جاتا ہے کہ بچوں کو بڑوں کی عزت کرنے کا درس پورے خشوع اور خضوع سے دیا جاتا ہے حالانکہ اس بات کو بہتر اور مکمل انداز میں کہنے کی ضرورت ہے کہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا عزت سب کی کرو۔ یہ دوسروں کا احترام سکھانے کا سب سے آسان طریقہ ہے جو بچوں کی سوچ کو بھی وسعت عطا کرے گا۔ دوسری طرف گھر میں کوئی نہ کوئی ایسا فرد موجود ہوتا ہے، جس کے سخت رویے کا سب شکار رہتے ہیں، لیکن بچوں کی درگت یا شامت زیادہ بنتی ہے، تو ایسے میں ہر وقت بچوں کو آنکھیں دکھا کر چپ کروائے جانے والا رویہ، دراصل ان کی ذات کی نفی کا باعث بنتا ہے۔ بچے کو اپنی ہی سپورٹ میں بولتے والدین کہیں نظر نہیں آتے، بلکہ الٹا اسے آنکھوں ہی آنکھوں میں خاموش رہنے کا اشارہ دیا جاتا ہے۔ بچہ اس سخت رویے کو سہتے سہتے زود رنج، احساسِ کمتری اور عدم تحفظ کا شکار ہونے لگتا ہے، اس لئے والدین کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچے کو مکمل احساس دلائیں کہ آپ ان سے بے پناہ محبت کرتے ہیں، اور ان کے ساتھ کھڑے ہیں، تاکہ وہ گھر میں ایسے غیرمعمولی رویوں اور مواقع پر دلبرداشتہ نہ ہوں۔

بچوں کو معذرت اور شکریہ جیسے الفاظ سکھانے پر زور دینا:
بچے وراثت میں والدین کا رنگ، قد و قامت، اور طرزِ تکلم ہی نہیں لیتے بلکہ نفسیات کی رو سے وہ اپنے والدین کی مثبت اور منفی عادات بھی لے کر دنیا پر آتے ہیں۔ اسی لیے جیسے آپ کی عادت ہوگی، بچے میں بھی ویسے ہی عادات پیدا ہوں گی۔ اگر آپ غلطی کر کے دوسروں سے معذرت کر لینے کی عادت رکھتے ہیں، تو خود بخود یہ عادت بچے میں بھی پیدا ہو جائے گی، اور اگر آپ دوسروں کی مدد پر انہیں شکریہ کہتے ہیں، تو بچہ آپ سے خود بخود شکریہ سیکھ کر اپنی زندگی میں اس کا اہتمام کرے گا، اس لیے جبراً بچوں کو معذرت اور شکریہ ادا کرنے پر مجبور نہ کریں بلکہ اس تکرار میں الجھانے کی بجائے خود اس کی مثال بنیے۔

بچہ کچھ باتیں ساری زندگی نہیں بھولتا:
یہ عام مشاہدہ ہے کہ گھر میں خواہ کچھ بھی ہو جائے، اس کا ذمہ دار صرف بچوں کو ٹھہرایا جاتا ہے، کسی کی طبیعت خراب ہو، تو کہا جاتا ہے کہ بچوں کے شور شرابے یا تنگ کرنے کی وجہ سے مزید تکلیف بڑھ رہی ہے یا اسی طرح چھوٹی چھوٹی باتیں بچوں کے سر ڈال کر خود بری بری الذّمہ ہوجاتے ہیں۔ بچہ یہ بات ہمیشہ یاد رکھتا ہے کہ کیسے آپ نے اپنی ہر بات کی ذمہ داری اس پر تھوپ دی تھی، اور اسے سب کے سامنے کٹہرے میں لا کھڑا کیا تھا۔ دوسری طرف والدین کا آپس میں اچھا برا رویہ، تکرار، لڑائی جھگڑے کو بھی وہ ساری زندگی نہیں بھولتا اور اسے یاد رہتا ہے کہ کس موقع پر والدین نے اپنے مسئلے کو کیسے حل کیا، بات چیت کے ذریعے، تحمل اور برداشت کے ساتھ ایک دوسرے کی مکمل بات سن کر یا پھر لڑائی جھگڑا کر کے! اور یہی رویہ اس کے اندر جذباتی عدم تحفظ، بغاوت، سرکشی اور خود سری جیسے جذباتی اور نفسیاتی مسائل پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے۔

اس لیے آپس کی لڑائی اور اپنی ناکامیوں کی بھڑاس بچوں پر مت نکالیں، یا اسی قسم کی چھوٹی بڑی باتوں‌ میں براہ راست بچے کو مت گھسیٹیں‌۔ یاد رکھیں بچے کمزور ضرور ہوتے ہیں لیکن ساری زندگی کمزور نہیں رہتے۔ آپ بحثیت والدین جیسا رویہ ان کے ساتھ رکھیں گے، وہ بڑے ہو کر ویسا ہی آپ کے ساتھ بھی کرسکتے ہیں۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں