The news is by your side.

کیا ایم کیو ایم نے حدّ ادب پار کر لی تھی ؟

ہر طنز کیا جائے ہر اک طعنہ دیا جائے
کچھ بھی ہو پر اب حد ادب میں نہ رہا جائے
تاریخ نے قوموں کو دیا ہے یہی پیغام
حق مانگنا توہین ہے حق چھین لیا جائے

کیا ایم کیو ایم پاکستان کے کارکنان آج حق چھین لینے کے ارادے سے سڑکوں پر نکلے اور کیا انھوں نے حدِّ ادب پار کر لی تھی جس پر انھیں لاٹھی چارج اور شیلنگ کا سامنا کرنا پڑا؟ ایسا نہیں‌ ہے۔ یہ احتجاجی دھرنا ہی تھا، اور ایک سیاسی جماعت کا حق تھا لیکن شاید ریڈ زون سے باہر رہتے ہوئے یہ احتجاج مؤثر ثابت نہیں ہوتا۔ سچ تو یہ ہے کہ تقسیم اور ڈھرے بندی کا شکار ایم کیو ایم ہی کیا قومی سطح کی مضبوط سیاسی جماعتوں نے کبھی تاریخ کو اتنی اہمیت ہی نہیں‌ دی کہ اس سے کوئی سبق حاصل کرے اور کچھ سیکھے، لیکن انھیں یہ ضرور سمجھنا ہو گاکہ جمہوری نظام میں حق چھینا جاتا ہے یا عوامی طاقت اور عدلیہ کا سہارا لے کر۔ خیر، یہ کوئی ماہرِ سیاسیات ہی بہتر بتا سکتا ہے، لیکن اس وقت کراچی کے سلگتے ہوئے مسائل پر حکومت سے الجھتے ہوئے سیاسی راہ نماؤں‌ کی شعلہ باری اور اپنے مخالفین کو نامناسب انداز میں‌ للکارنے شہریوں میں‌ جو بے چینی اور خوف پیدا ہوا ہے، اسے دور کرنا ضروری ہے۔

موجودہ منظر نامے میں وفاق اور صوبوں‌ میں‌ بھی حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کی جماعتیں آمنے سامنے نظر آرہی ہیں۔ سندھ کی طرف چلیں‌ تو وفاق کی حکم راں جماعت تحریکِ انصاف نے پاکستان پیپلز پارٹی کا گڑھ کہلانے والے لاڑکانہ میں‌ عوامی اجتماع منعقد کیا اور بلاول بھٹو زرداری نے بھی اس کا جواب دیا۔ ادھر کراچی کو حق دو، کراچی والوں کے ساتھ انصاف کرو، کراچی ہمارا ہے جیسے نعروں کے ساتھ گزشتہ چند دنوں میں مختلف پارٹیوں کے کارکن بھی شہر کی سڑکوں پر نظر آئے۔

آج ماضی کی ایک بڑی سیاسی طاقت اور سندھ کے شہری علاقوں‌ کی نمائندہ جماعت ایم کیو ایم نے وزیراعلیٰ ہاؤس پر دھرنا دیا تھا۔ یہ بلدیاتی قانون میں حالیہ ترامیم کے خلاف احتجاجی دھرنا تھا۔ ایم کیو ایم کے کارکنان اور دھرنے میں شامل شہری جب اپنی قیادت کے ساتھ ریڈ زون میں‌ داخل ہوگئے تو پولیس نے انھیں‌ منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا استعمال کیا، گرفتاریاں ہوئیں اور صورتِ حال بگڑ گئی۔

اس سے قبل ٹنڈو الہ یار میں خلیل عرف بھولو خانزادہ کا قتل اور اس کے بعد سندھ کی شہری آبادی کی قیادت کی جانب سے صوبائی حکومت کو ذمہ دار قرار دے کر لسانی فسادات کو ہوا دینے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ یہی نہیں‌ بلکہ سخت بیانات اور ایسی تقاریر کی گئیں جنھیں مختلف واقعات پر سیاسی ردعمل تو کہا جاسکتا ہے، لیکن یہ سب صوبے میں‌ بسنے والوں کے درمیان نفرت اور دوریاں پیدا کرسکتا ہے۔ سنجیدہ و باشعور عوامی حلقے بلدیاتی قانون میں ترامیم پر حکومتِ سندھ کو بھی مطعون کرتے نظر آتے ہیں اور دانش وَر طبقہ بھی سمجھتا ہے کہ یہ عوام دشمنی کے مترادف ہے، لیکن اس وقت سیاسی جماعتوں جس قسم کا ماحول بنا دیا ہے، اس میں‌ عام آدمی خوف زدہ نظر آرہا ہے۔ بلدیاتی اختیارات اور مسائل کے حوالے سے سیاسی لڑائی بجا، مگر کراچی کے شہریوں کی تشویش دور کرنا اور انھیں تحفظ کا احساس دلانا ضروری ہے۔ اس میں‌ سب سے بڑی ذمہ داری صوبائی حکومت کی ہے جو ایک طرف تو شہریوں کی جان و مال کے تحفظ میں‌ ناکام نظر آتی ہے اور عوام کے مسائل کے حل میں تاخیری حربے استعمال کرتے ہوئے آج بلدیاتی نظام کو مکمل طور پر مفلوج کرچکی ہے۔

حکومتِ سندھ کی جانب سے بلدیاتی قانون میں ترامیم کے خلاف ایم کیو ایم ہی نہیں‌ سندھ میں‌ حزبِ اختلاف کی دیگر جماعتیں بھی سراپا احتجاج ہیں۔ جماعتِ اسلامی کی احتجاجی ریلی اور دھرنے، مہاجر قومی موومنٹ کے آفاق احمد کے جلسے، پاک سَرزمین پارٹی کے مصطفیٰ کمال اور مہاجر اتحاد تحریک کے چیئرمین کے احتجاج کے دوران تقریر میں بھی سندھ اسمبلی میں منظور کردہ بلدیاتی بِل کو کالا قانون قرار دیا گیا۔

حزبِ اختلاف کی جماعتوں کا کہنا ہے کہ اس بل کے ذریعے صوبائی حکومت نے مقامی حکومتوں کے اختیارات سلب کر لیے ہیں اور عوام کے مسائل سے لاتعلق نظر آتی ہے جب کہ صوبائی حکومت کے سربراہ مراد علی شاہ، اور پیپلز پارٹی کی قیادت سمیت اراکینِ اسمبلی کی نظر میں ان ترامیم کے بعد سندھ میں بلدیاتی قانون دیگر صوبوں کے مقابلے میں بہتر ہو گیا ہے، لیکن کس کا مؤقف درست ہے، یہ جاننے سے زیادہ ضروری ہوگیا ہے کہ انتشار اور افراتفری کی فضا کا خاتمہ کیا جائے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ سندھ میں بلدیاتی اداروں کو جس قدر بااختیار ہونا چاہیے تھا، وہ نہیں ہیں جب کہ کسی بھی جمہوری اور ترقیّ یافتہ معاشرے کے لیے بااختیار مقامی حکومتیں ضروری ہیں۔ کراچی جو ملک کا معاشی حب اور سب سے بڑا شہر ہے، گندگی کا ڈھیر بن چکا ہے اور مقامی سطح پر لوگوں کے مسائل کئی گنا بڑھ چکے ہیں اور صورتِ حال گمبھیر ہے، اسے حل کرنے کے لیے ایک مؤثر اور ہر قسم کے سیاسی امتیاز سے پاک اور مداخلت سے آزاد نظام کی ضرورت ہے۔ سندھ میں اپوزیشن اسی حقیقی مسئلے کو اجاگر کرنے اور حکومت کو متوجہ کرنے کے لیے میدان میں ہے۔ تحریک انصاف اور فنکشنل لیگ بھی گزشتہ دنوں‌ اس حوالے سے متحرک نظر آئی تھیں، لیکن کیا حکومت اور سیاسی جماعتیں تند و تیز بیانات دیتے ہوئے یہ سوچ رہی ہیں‌ کہ اس کے کیا نتائج نکل سکتے ہیں۔

سیاسی مبصرین کے مطابق آج وزیرِ اعلیٰ‌ ہاؤس کے سامنے ایم کیو ایم پاکستان کے دھرنے کے شرکا کے ساتھ جو کچھ ہوا، اسے صوبائی حکومت کی ہٹ دھرمی اور من مانی کے سوا کیا نام دیا جاسکتا ہے، لیکن دوسری طرف سیاسی جماعتوں کے راہ نماؤں نے بھی ایسی تقاریر اور تند تیز بیانات دینا شروع کر دیے ہیں جو خود ان کے ووٹروں اور حامیوں کی مشکلات بڑھا سکتے ہیں۔ موجودہ حالات میں حکومتِ سندھ کے اقدامات کے خلاف کوئی تحریک کام یاب ہو یا ناکام، سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں کے عوام میں دوریاں ضرور بڑھیں گی اور اس کے اچھے نتائج سامنے نہیں‌ آئیں گے۔

سندھ میں اپوزیشن کا یہ مطالبہ درست ہے کہ کراچی کو وہ بلدیاتی نظام دیا جائے جو ایک بڑے شہر کو جدید خطوط پر اس کی ضرورت کے مطابق چلانے کا ذریعہ بنے۔ شہریوں کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے ذمہ دار محکمے ہی نہیں حکومت، پولیس کو بھی مقامی حکومت کے ماتحت کرے جو حالات میں بہتری لانے کا سبب بنے گا۔ ایک طرف کراچی میں لوٹ مار کے واقعات اور ڈکیتیوں کے دوران مزاحمت پر شہریوں کا قتل معمول بن گیا ہے جب کہ مؤثر بلدیاتی نظام نہ ہونے کی وجہ سے لوگ پہلے ہی مصائب کا شکار ہیں۔

عوامی حلقے بھی پاکستان پیپلز پارٹی سے بنیادی ضروریات کی فراہمی کا مطالبہ کرتے ہوئے مؤثر بلدیاتی نظام دینے کی خواہش کا اظہار کررہے ہیں، لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکم راں اور اپوزیشن جماعتوں‌ کو سمجھنا چاہیے کہ سیاسی میدان میں ان کی شعلہ بیانی سے صوبے میں انتشار اور لسانیت کو فروغ ملے گا اور یہ سب بڑے سماجی المیے کو جنم دے سکتا ہے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں