کتنی عجیب بات ہے کہ ہمارے ملک میں جہاں صحّت اور امراض سے متعلق آگاہی کا فقدان ہے، اور لوگوں کی اکثریت جو صرف دو وقت کی روٹی، تن پر کپڑے اور سَر چھپانے کی فکر میں اپنی جان گھلاتی رہتی ہے، سابق وزیرِ اعظم میاں نواز شریف کی اُس تازہ طبّی رپورٹ میں گہری دل چسپی لے رہی ہے جس کے مطابق وہ ’ٹاکا سوبو سینڈروم‘ کا شکار ہیں۔
اس وقت ٹوئٹر پر ’ٹاکا سوبو سینڈروم‘ سرِفہرست ٹرینڈز میں موجود ہے۔واضح رہے کہ میاں نواز شریف کی طبّی رپورٹ اس وقت عدالت میں پیش کی گئی ہے جب حکومت کی طرف سے وطن واپسی ان کی یقین دہانی پر عمل درآمد نہ ہونے پر سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔
ایک جانب نواز شریف کے حامی اور خیر خواہ ہیں جو ان کی صحّت کے لیے دعا گو ہیں اور دوسری جانب سیاسی مخالفین ہیں جو اس تازہ طبّی رپورٹ کو جھوٹ کا پلندہ اور ایک نیا بہانہ قرار دے کر ان پر تنقید کررہے ہیں، اور تیسری طرف ہم ہیں جس نے مثبت طرزِ فکر کو اپناتے ہوئے اور ساتھ ہی ہر قسم کی سیاست دور رہتے ہوئے اس طبّی رپورٹ کو صحّت اور ادب کے آئینے میں “فٹ” کر کے دیکھا ہے۔
صحّت کے حوالے دیکھا جائے تو اس رپورٹ کی وجہ سے آج قوم کا بچّہ بچّہ ’ٹاکا سوبو سینڈروم‘ نامی بیماری سے واقف ہوگیا ہے۔ اس بیماری سے کیسے بچا جائے اور اس کا علاج کیا ہے، یہ بعد کی بات ہے۔ کم سے کم پہلے مرحلے میں قوم کو ایک اور مرض کا نام تو معلوم ہو گیا نا۔ اس بیماری میں دل ٹوٹ جاتا ہے یا یہ مرض کسی شکستہ دل کو لاحق ہوتا ہے؟ یہ تو کوئی طبّی ماہر ہی بہتر بتا سکتا ہے۔ ہمیں یہ سمجھ آیا کہ یہ کسی بھی دل کو لاحق ہونے والی ایک عارضی کیفیت ہے جس کا سبب مسلسل دباؤ اور انتہائی جذباتی حالت بنتی ہے۔ یہ مسئلہ کسی سنگین جسمانی بیماری کی وجہ سے یا سرجری کروانے کے بعد بھی جنم لے سکتا ہے۔ اب پاکستان میں صحّت کے شعبے میں سرگرم تنظیموں کا کام ہے کہ موقع کا فائدہ اٹھا کر عوام کو اس بیماری سے متعلق مزید آگاہی دیں۔
سچ ہے شدید دباؤ کا سامنا کرنے والا کوئی بھی انسان، کوئی بڑا سیاسی لیڈربھی خود کو کہاں تک سمجھائے۔
کب تلک خود کو یہی کہتا رہوں
دل پہ مت لے جو ہوا اچھا ہوا
ہماری بات کی جائے تو ہم مکمل طور پر غیرجانب دار اور یکسر غیر سیاسی ہیں، اور ہمارے خیالات اور جذبات کو سمجھنے کے لیے یہ شعر کافی ہو گا۔
شکستہ دل کسی کا ہو ہم اپنا دل سمجھتے ہیں
ترے غم میں زمانے بھر کے غم شامل سمجھتے ہیں
ادب کی طرف چلیں تو یہاں عاشق اور معشوق کے درمیان بھی صحّت و سلامتی کے حوالے سے طرح طرح کی باتیں (اشعار) پڑھنے کو ملتی ہیں۔ ان میں بیماریٔ دل کا رونا سرِ فہرست ہے۔ اس کے ساتھ چارہ سازی، عیادت، مزاج پُرسی اور بعض صورتوں میں مردنی چھا جانے اور قریبُ المرگ ہونے تک بہت کچھ ایسا ہے جسے پڑھ کر آپ افسردہ و ملول ہوسکتے ہیں۔
یہ شعر ملاحظہ کیجیے۔
کون آتا ہے عیادت کے لیے دیکھیں فراغؔ
اپنے جی کو ذرا ناساز کیے دیتے ہیں
عاشق بھی کتنے عجیب ہوتے ہیں۔ معشوق کو متوجہ کرنے کے لیے خود کو بیمار کرلیتے ہیں۔ یہ بھی نہیں سوچتے کہ ان کا معشوق جفا پیشہ ہوا اور عیادت کے لیے بھی نہ آیا تو کتنی بے عزّتی ہوگی۔
ایک عاشق ایسا بھی تھا جو بیمار پڑنے کا فریب کرتا ہے لیکن اس کا ذرا بھی اثر دوسرے پر نہیں پڑتا۔
آیا نہ ایک بار عیادت کو تو مسیح
سو بار میں فریب سے بیمار ہو چکا
یہ دو اشعار دیکھیے۔
مرے مریض کو اے جاں شفا سے کیا مطلب
وہ خوش ہے درد میں اس کو دوا سے کیا مطلب
ہر وقت فکرِ مرگِ غریبانہ چاہیے
صحّت کا ایک پہلو مریضانہ چاہیے
اور فہمی بدایونی کا یہ شعر ہمیں سب سے زیادہ پسند آیا۔
پوچھ لیتے “وہ” بس مزاج مرا
کتنا آسان تھا علاج مرا