کسی شاعر نے کہا تھا، یہ سچ ہے حلق میں آتا ہے چرخ کا تھوکا…
کیا آپ جانتے ہیں کہ طبی سائنس تھوک یا لعاب دہن کی مدد سے انسانی جسم میں پیدا ہونے والے مسائل اور مختلف امراض کی تشخیص کو ممکن بنانے کے لیے تحقیق کررہی ہے۔
ہمیں اس وقت یہ بات معلوم ہوئی جب ہم نے سوشل میڈیا پر تھوک کے حساب سے ارون یادو کی تھوک والی ٹویٹ پر تبصرے پڑھے۔
اس میں کیا شک کہ ایک زمانہ لتا کا مداح اور ہندوستان شاہ رخ خان کا دیوانہ ہے۔ اسی ہندوستان میں ارون یادو جیسے بونے بھی بستے ہیں جو اپنا قد اونچا کرنے کی فکر میں رہتے ہیں۔ انھیں سستی شہرت سمیٹنے کا کوئی موقع ملے اور وہ اسے ہاتھ سے جانے دیں، یہ کیسے ممکن ہے؟
ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے ارون یادو کو جیسے ہی موقع ملا اس کی بدنیّتی نےموقع کو کیش کروانے پر آمادہ کر لیا، مگر وہ یہ بھول گیا کہ آسمان کا تھوکا منہ پر آتا ہے۔
قصّہ یہ ہے کہ لتا منگیشکر کی آخری رسومات کے موقع پر بالی وڈ کے سپر اسٹار شاہ رخ خان کی دعا پڑھ کر مذہبی روایات کے مطابق میّت کی طرف منہ کرکے پھونک ماری اور اپنی جگہ پر جاکر کھڑے ہوگئے۔ اس کی تصاویر اور ویڈیو وائرل ہوئیں تو کنگ خان کے مداحوں اور سماج کے مختلف طبقات نے اسے سراہا اور یہ ایک ایسا عمل تصوّر کیا گیا جو مذہبی ہم آہنگی، رواداری کو فروغ دینے کے ساتھ لتا کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کی ایک شکل تھی۔ الغرض یہ “پھونک” سب کو پسند آئی، لیکن ارون یادو کی شامت آئی تھی کہ اس نے شاہ رخ خان کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا، ”کیا شاہ رخ نے تھوکا ہے؟‘‘
یہ ٹویٹ اسے مہنگی پڑگئی اور ہندوستان بھر میں اس پر “تُھو تُھو” ہو رہی ہے۔ اردون یادو کے کچھ حامیوں نے اس بات کو اچھالنے کی خوب کوشش کی جس میں اہم سیاست داں اور نام ور شخصیات بھی شامل تھیں، لیکن شاہ رخ کی حمایت میں سوشل میڈیا پر جو طوفان آیا، اس کے سامنے ٹھہرنا ان کے لیے ممکن نہ رہا۔
بھارت میں سیاست دانوں، فن کاروں اور مختلف شعبہ ہائے حیات سے وابستہ شخصیات نے اردون یادو کی ٹویٹ کو باہمی منافرت پھیلانے، سماج میں نفرت کا زہر گھولنے اور گندگی پھیلانے کی ایک گھٹیا کوشش قرار دیا ہے۔
سوشل میڈیا پر ارون یادو کی جو درگت بنائی جارہی ہے۔ یہ سلسلہ ابھی تھمنے والا نہیں، لیکن اگر ہماری یہ تحریر اس “رسوائے زمانہ” کی نظر سے گزرے تو تھوک (لعابِ دہن) کے بارے میں اس کی معلومات میں خوب ہی اضافہ ہو گا۔ واضح ہو کہ ہمارا مقصد ہرگز ہرگز ارون یادو کا مذاق اڑانا یا چاروں شانے چت پڑے ہوئے اس قوم پرست کو مطعون کرنا نہیں بلکہ ہم فی الواقعی لعاب (تھوک) کیدنیائے طبّ میں اہمیت بتانا چاہتے ہیں۔ دیکھیے نا، علم بانٹنے سے بڑھتا ہے اور کسی جاہل (یا کم علم) کو آپ دو چار باتیں سکھا سکیں تو اس سے اچھی کیا بات ہے؟
تو میاں اردون یادو! انسانی جسم میں خون کے علاوہ دیگر سیال جیسے کہ تھوک کسی جسمانی خرابی یا بیماری کی تشخیص میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ لعابِ دہن ایک ایسا نامیاتی سیال ہے جس میں ہمارے خون میں شامل مختلف اجزاء موجود ہوسکتے ہیں۔ اسی خصوصیت کی بنا پر دنیا میں انسانی منہ میں موجود رطوبت (لعاب) کو کسی مسئلے کی صورت میں طبّی جانچ کی غرض سے خون کے متبادل کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ اس ضمن میں ماہرین تجربات کررہے ہیں کہ کس طرح جسم میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں کے اثرات کو انسانی لعاب کا نمونہ لے کر کسی مسئلے یا بیماری کی تشخیص کی جاسکتی ہے۔
منہ میں بننے والا تھوک یا لعاب دراصل لحمیات (پروٹین) پانی، مختلف برق پاروں (ایون) وغیرہ کا مرکب ہوتا ہے۔ انسانی کھوپڑی میں منہ کے اطراف لعاب بنانے والے غدود ہوتے ہیں جو خون کی شریانوں سے اکثر اجزا اپنے اندر لے سکتے ہیں اور اس مخصوص عمل کے دوان مختلف بیماریوں کے بائیو مارکر منہ کے لعاب میں پہنچ جاتے ہیں۔
سمجھ دار اور پڑھے لکھے لوگوں کا کہنا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے تحقیق اور تجربات جاری رکھے جائیں تو اس نامیاتی مایع (تھوک) کے ذریعے تشخیصی عمل کو بہتر اور مفید بنایا جاسکتا ہے، لیکن جدید ذرایع ابلاغ یا سوشل میڈیا پر تھوک سے متعلق کوئی بھی بات کارآمد اور مفید ثابت نہیں ہوسکتی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ لعاب میں یہ تبدیلیاں جلد یا بہ دیر ظاہر ہوجاتی ہیں۔ ارون یادو کے لعابِ دہن کو تجربہ گاہ میں بھیجا جائے تو تعصب، مذہبی عناد، نفرت اور نجانے کون سی بیماریوں کی تشخیص ہوجائے ۔