محمد علی عمران کو جہانِ سخن میں علی شیران کے نام سے پہچان ملی۔ اس نوجوان شاعر کا تعلق پاکستان کے ضلع جھنگ کی تحصیل شور کوٹ سے ہے۔ زمانۂ طالبِ علمی میں اپنے تخلیقی سفر کا آغاز کرنے والے علی شیران نے نظمیں بھی کہی ہیں، لیکن ان کی وجہِ شہرت غزل ہے۔ انھوں نے پنجاب یونیورسٹی سے گریجویشن اور سرگودھا یونیورسٹی سے انگریزی میں ایم۔ اے کیا اور تدریس سے وابستہ ہیں۔ ان کی چند غزلیں باذوق قارئین کی نذر ہیں۔
غزل
مرے سپرد کیا ہے نہ خود لیا ہے مجھے
کسی نے حیرتِ امکاں میں رکھ دیا ہے مجھے
بچا نہیں میں ذرا بھی بدن کے برتن میں
ترے خیال نے بے ساختہ پیا ہے مجھے
تو ایک شخص ہے لیکن تری محبّت میں
دل و دماغ نے تقسیم کر دیا ہے مجھے
جدائی، رنج، اداسی، اندھیرا، خوف، گھٹن
ہر ایک یار نے دل کھول کر جیا ہے مجھے
تمہارے بعد نہیں اب کسی کی گنجائش
کہ تم نے اتنا محبت سے بھر دیا ہے مجھے
غزل
مجھے شعور بھی خواہش کا داغ لگنے لگا
جہاں بھی دل کو لگایا، دماغ لگنے لگا
تلاش اتنا کیا روشنی کو جنگل میں
تھکن کے بعد اندھیرا چراغ لگنے لگا
تو سامنے تھا مگر کوئی اور لگ رہا تھا
پسِ خلائے محبت سراغ لگنے لگا
کمال درجہ کی شفافیت تھی آنکھوں میں
خود اپنا عکس مجھے ان میں داغ لگنے لگا
پلک پرندہ تھا، لب پھول اور زلف شجر
وہ چہرہ پہلی نظر میں ہی باغ لگنے لگا
غزل
ہجر سے دشت کو آباد نہیں رکھوں گا
عشق میں قیس کو استاد نہیں رکھوں گا
دوسری بار اگر بھیجا گیا دنیا میں
آنکھ اور سوچ کو آزاد نہیں رکھوں گا
خود سے رشتہ ہے مرا صرف ترے ہونے تک
یہ تعلق بھی ترے بعد نہیں رکھوں گا
تیری دہلیز بھی چوموں گا تو خود داری سے
ہونٹ رکھتے ہوئے فریاد نہیں رکھوں گا
تجھ کو چاہوں گا ترے سارے پرستاروں سمیت
وہم پر عشق کی بنیاد نہیں رکھوں گا