The news is by your side.

کیا بھارت کا میزائل اور جوہری ںظام محفوظ ہاتھوں میں ہے؟

بدھ نومارچ کو ضلع خانیوال کی تحصیل میاں چنوں سے شام کے وقت مختلف ذرایع سے یہ اطلاع موصول ہوئی کہ پاکستان ایئر فورس کا تربیتی طیّارہ گر کر تباہ ہوگیا ہے۔ تاہم ایئر فورس کی جانب سے اس کی فوری تردید کر دی گئی۔ متضاد اطلاعات یہ بھی تھیں کہ کوئی پرائیوٹ طیارہ گرا ہے یا کسی فیکٹری کا کوئی بوائلر پھٹ گیا ہے، لیکن جائے وقوع سے جب حادثے کی تصاویر سامنے آئیں تو ایک حیران کن انکشاف ہوا۔ وہاں نہ ہی کوئی تربیتی طیّارہ تھا، اور نہ ہی یہ کوئی بوائلر بلاسٹ تھا بلکہ وہاں ایک سپر سونک میزائل آکر گرا تھا۔

اگلے دن 10 مارچ کو اس کی تصدیق ہو گئی۔ ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل بابر افتخار نے پریس کانفرنس بلائی جس میں میزائل کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دی۔ انہوں نے بتایا کہ 6 بج کر 33 منٹ پر بھارت کی حدود سے ایک ‘شے’ پاکستان کی فضائی حدود میں داخل ہوئی جو دراصل سوپر سونک پروجیکٹ تھا اور ممکنہ طور پر میزائل تھا۔ انہوں نے بتایا کہ یہ غیر مسلح تھا، یہ آبجیکٹ بھارت میں سو کلو میٹر اندر تھا، تبھی ہم نے اسے نوٹس کرلیا تھا۔ میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ پاکستانی فضائی حدود میں وہ چیز 3 منٹ اور چند سیکنڈ تک رہی اور 260 کلومیٹر اندر تک سفر کیا۔ اس کے خلاف ضروری کارروائی بر وقت کر لی گئی۔ پاک فضائیہ نے یہ کھوج لگایا کہ وہ بھارتی علاقے سرسا سے آئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ بھارت سے پاکستانی حدود میں‌ داخل ہونے والی یہ شے میاں چنوں میں کسی حساس جگہ نہیں گری اور اس سے کسی قسم کا جانی نقصان نہیں ہوا، البتہ وہاں شہریوں کی املاک کو نقصان پہنچا، لیکن اس نے عام شہریوں کی جانوں کو خطرے میں‌ ڈالا اور کوئی بڑا فضائی حادثہ بھی ہوسکتا تھا۔

دوسری جانب بھارت نے اس معاملے میں خاموشی اختیار کیے رکھی۔ تاہم تین دن کے بعد سرکاری طور پر اسے یہ تسلیم کرنا پڑا کہ غلطی سے ایک میزائل فائر ہو گیا تھا، جو پاکستانی علاقے میں گرا۔ بھارت کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ معمول کی دیکھ بھال کے دوران ایک میزائل چل گیا، جو پاکستانی علاقے میں داخل ہوا اور 80 کلو میٹر اندر جا کر پھٹا۔ بھارت نے اس پر معذرت کا اظہار کیا اور اپنے بیان میں اس غلطی کو افسوس ناک قرار دیا۔

ہمارا مؤثر دفاعی نظام اور اس واقعے پر بَروقت کارروائی اور تحقیقات کے بعد بھارت کا اعتراف اور معذرت تو ناگزیر تھی، لیکن اس سنگین غلطی یا کوتاہی نے یہ سوال بھی اٹھا دیا ہے کہ کیا بھارت کا کمانڈ کنٹرول سسٹم اتنا کمزور ہے جس میں ایسی سنگین غلطی ممکن ہے؟

بریگیڈیئر(ر) اشفاق حسن نے اس سلسلے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان ایک معاہدہ کے تحت جب کوئی میزائل ٹیسٹ کرنا ہو تو فائر سے 72 گھنٹے پہلے پڑوسی ملک کو اس سے آگاہ کرنا ہوتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ فلاں تاریخ کو کس وقت اور کس ڈائریکشن میں میزائل ٹیسٹ کیا جائے گا۔ پاکستان سے ایسی معلومات کا تبادلہ نہیں‌ کیا گیا اور اس کا مطلب ہے کہ یہ کوئی ٹیسٹ فائر یا ان کا پلان نہیں تھا۔ جب وہ کہتے ہیں کہ یہ حادثاتی طور پر فائر ہوگیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ٹیسٹ فائر ہی کررہے تھے۔ یہ اس دوران فائر ہو جاتا ہے۔ یہ کروز میزائل ہیں، بیلسٹک نہیں ہیں۔

بیلسٹک میزائل اسٹیٹک لانچر سے لانچ ہوتا ہے۔ اس کو راکٹ اوپر لے کر جاتا ہے اور وہاں اسے فلائی پاتھ دیتے ہیں، اس کے بعد اسے ولاسٹی پر چھوڑ دیا جاتا ہے اور وہ ٹارگٹ کی جانب جاتا ہے۔ کروز میزائل موونگ لانچ سے لانچ کیا جاتا ہے۔ اسے اسٹیٹک لانچ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کے اندر راکٹ انجن لگا ہوتا ہے تو یہ نہیں ہوسکتا کہ اسے تیّار کرکے لانچ کر رہے تھے۔ یہ عجیب ہی بات ہے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ مینٹیننس کی جارہی تھی اور فائر ہوگیا۔ ایسی صورت میں تو اس میں ٹارگٹ ڈیٹا اور سب کچھ فیڈ نہیں کرتے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سوچا سمجھا کام تھا اور اس کا ایک مقصد پاکستان کی ایئر ڈیفنس کی صلاحیتوں کو چیک کرنا ہوسکتا ہے۔

بریگیڈیئر(ر) اشفاق حسن نے کہاکہ اس میزائل کو سرسا سے فائر کیا گیا اور اڑیسہ جہاں ان کی فائر فیلڈ رینج ہے، اسے وہاں اپنے ٹارگٹ کو ہٹ کرنا تھا جس کا مطلب ہے کہ اس کو پوری طرح تیار کر کے لانچ کیا گیا تھا۔ ٹارگٹ ڈیٹا جب بھی کسی میزائل میں فیڈ کیا جاتا ہے تو وہ مڈ کورس میں اپنی ڈائریکشن نہیں تبدیل کرسکتا۔ یہ سیدھا اپنی اسٹریٹجک ڈائریکشن لیتا ہے اور سیدھا ٹارگٹ کی طرف جاتا ہے۔ اس میزائل نے اسٹریٹجک ڈائرکشن 90 ڈگری ایک سو بیس کلومیٹر کے بعد تبدیل کی ہے۔ ان کے دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شاید اس پر سائبر اٹیک ہوگیا ہو، لیکن ایسا ممکن نہیں لگ رہا۔ اگر یہی بات ہے تو وہ میزائل لانچ کے وقت ہو جانا چاہیے تھا۔ یہ بہت خطرناک معاملہ ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت کی میزائل ٹیکنالوجی، نیوکلیر ٹیکنالوجی محفوظ ہاتھوں میں نہیں ہے جس کا دنیا کو سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہیے۔ اگر پاکستان کی طرف سے ایسی غلطی ہوجاتی تو کیا ہوتا؟

بھارتی میزائل پاکستانی حدود میں 124 کلومیٹر اندر گرا۔ بھارت نے جمعے کے روز تسلیم کیا کہ “تکنیکی خرابی کی وجہ سے ایک میزائل حادثاتی طور پر فائر ہو گیا”۔ یہ اپنی نوعیت کا انوکھا ہی واقعہ ہوگا جہاں کوئی ملک میزائل کا ایسا غلط تجربہ کرے کہ وہ سرحد پار کر جائے اور ٹریک بھی بدل لے۔

واضح رہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بیلسٹک میزائل ٹیسٹنگ کی طرح دونوں ممالک میں‌ معاہدہ ہے کہ زمین سے زمین تک مار کرنے والا (زمینی) یا پھر سمندر سے (بحری) بیلسٹک میزائل لانچ کرنے سے 72 گھنٹے قبل بھی یعنی تین دن پہلے ایک دوسرے کو اس پر مطلع کریں گے۔

اصولی طور پر تو میزائل ٹیسٹ کرنے والے ملک کو بالترتیب فضائی اور بحری جہازوں کو خبردار کرنے کے لیے ایئرمشنز (NOTAM) یا نیویگیشنل وارننگ (NAVAREA) کو نوٹس جاری کرنا چاہیے۔ جب کہ ٹیسٹ کرنے والے ملک کو یہ یقینی بنانا چاہیے کہ لانچ کی جگہ 40 کلومیٹر کے اندر نہ ہو، جب کہ بین الاقوامی باؤنڈری (IB) یا لائن آف کنٹرول (LoC) سے 75 کلومیٹر کے اندر نہ ہو۔ ٹیسٹ میزائل کے ٹارگٹ پاتھ آئی بی یا ایل او سی کو عبور نہیں کرنا چاہیے اور سرحد سے کم از کم 40 کلومیٹر کا افقی فاصلہ برقرار رکھنا چاہیے۔

بھارت اور پاکستان کے درمیان بیلسٹک میزائلوں کے تجربات سے متعلق معلومات کے تبادلے کا معاہدہ ہے، لیکن کروز میزائلوں کی ٹیسٹنگ کی معلومات کے حوالے سے کوئی معاہدہ موجود نہیں ہے۔ بھارت کی جانب سے غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا گیا کہ “غلطی سے میزائل فائر ہوگیا “جب کہ پاکستان نے اسے “سپر سونک” میزائل کہا ہے۔

تاہم دفاعی ماہرین کا اندازہ ہے کہ یہ روس کے اشتراک سے تیّار کردہ ہندوستان کے اعلیٰ ترین میزائل برہموس کا تجربہ تھا۔ کیوں کہ اس میزائل نے 200 کلومیٹر کا سفر کیا، 40,000 فٹ کی بلندی پر آواز کی رفتار سے 2.5 سے 3 گنا تک سفر کیا۔

برہموس کی تیز رفتار مچ 3 ہے، جس کی رینج تقریباً 290 کلومیٹر ہے، اور 15 کلومیٹر (تقریباً 50,000 فٹ) کی سمندری اونچائی ہے۔ برہموس کہیں سے بھی فائر کیا جا سکتا ہے، جوہری صلاحیت رکھتا ہے، اور 200-300 کلو گرام وار ہیڈ لے جا سکتا ہے۔

اس واقعہ کا ایک حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ میزائل نے ہوا کے وسط یعنی مڈ کورس میں اپنی سمت تبدیل کی جو بھارتی کمانڈ کنٹرول پر سوالیہ نشان ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان جس طرح‌ تعلقات میں سرد مہری اور صورتِ حال کشیدہ ہے، ان حالات میں بھارت کی طرف سے میزائل کے اس تجربہ کو معمول کی ٹیسٹنگ اور غلطی کیسے کہا جاسکتا ہے؟

بھارت کی جانب سے غیر ذمہ داری اور بے پروائی کی انتہا ہوگئی ہے۔ اس میزائل کے راستے میں اگر کوئی جہاز آجاتا تو کتنا بڑا حادثہ ہوسکتا تھا، یا یہ آبادی پر گر جاتا تو کتنا بڑا انسانی المیہ جنم لے سکتا تھا۔

بھارت کے خطّے میں‌ جارحانہ عزائم اور جنگی جنون کو دنیا جانتی ہے، جب کہ بھارت خود سمجھتا ہےکہ پاکستان جیسے جوہری صلاحیت کے حامل ملک کی سلامتی اور خود مختاری کو کسی بھی صورت چیلنج کرنا اسے بڑے خسارے سے دوچار کرسکتا ہے، لیکن بھارت کی جانب سے مسلسل غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔

دوسری جانب ایک بار پھر یہ غلطی یا اتفاقی حادثہ بھارت کے دفاعی نظام میں موجود خامیوں اور فالٹ لائنز کی طرف اشارہ کررہا ہے۔ بھارت میں یورینیم چوری کے واقعات تسلسل سے رپورٹ ہوتے رہے ہیں۔ جب کہ ایٹمی پلانٹ کی خرابیوں کی کہانیاں بھی منظرِ عام پر آتی رہی ہیں۔ بھارتی ڈیفنس کے ٹارگٹ کی غلطیاں بھی کوئی پہلی بار سامنے نہیں آرہی ہیں۔

حال ہی میں‌ پاکستان بحریہ نے چوتھی بار ہندوستانی آبدوز کی جدید ترین کلاس کو قبل از وقت روکا اور ٹریک کیا ہے۔ یہ یکم مارچ 2022ء کی بات ہے جب کہ پچھلے پانچ سال میں چار بار بھارتی آبدوزیں پاکستانی بحریہ کے ریڈار پر آچکی ہیں۔

بھارتی بحریہ تمام تر ٹیکنالوجی اور اپنے دعوؤں کے باوجود 2019ء میں پاک بھارت کشیدگی کے دوران پاکستانی آب دوز پی این ایس سعد کو تلاش کرنے میں ناکام رہی تھی۔ انڈین نیوی 21 روز تک پاکستانی آبدوز ڈھونڈنے کے لیے سمندر میں ماری ماری پھرتی رہی، لیکن ساٹھ جنگی جہاز اور کئی طیارے مل کر ایک پاکستانی آبدوز کا سراغ نہیں‌ لگا سکے تھے۔ بھارتی فضائیہ ستائیس فروری کو اپنا ہی ہیلی کاپٹر بھی ٹارگٹ کر بیٹھی تھی جس میں چھے ہلاکتیں ہوئی تھیں۔

پاکستان کا کوئی میزائل اپنی سمت سے منحرف ہو کر کسی اور ملک کی حدود میں کبھی نہیں گرا۔ پاکستان کے کام یاب تجربات میں سے ایک حالیہ مثال سی سپارک 2022ء ہے جس میں شمالی بحیرۂ عرب میں پاک بحریہ کے جہاز، آبدوز اور ہوائی جہاز نے سطحِ آب اور زیرِ آب مار کرنے والے میزائل اور تار پیڈو کام یابی سے فائر کیے۔

یہ میزائل حادثہ کئی حسّاس سوالات کو جنم دیتا ہے جن پر دنیا کا بھارت سے جواب طلب کرنا بہت ضروری ہے ۔پاکستان کی جانب سے اگرچہ اس سنگین غلطی کا بہت ہی مناسب اور سلجھا ہوا ردعمل دیا گیا ہے، تاہم صرف دو طرفہ تحقیقات کا مطالبہ کافی نہیں۔ پاکستان کو چاہیے کہ عالمی برادری کو اس جانب متوجہ کرے اور بھارت سے پوچھا جائے کہ اس کا کمانڈ کنٹرول سسٹم قابلِ اعتبار ہے یا نہیں؟

شاید آپ یہ بھی پسند کریں