ہم نے تو بس اللہ پر چھوڑ دیا ہے، وہی ہے جو ایسا ظلم کرنے والوں کا حساب لے گا۔ ہم تو سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ اپنی بچّی کی لاش کو اس حال میں دیکھنا ہوگا۔
یہ کہنا تھا عبدالخالق کا جو ٹانڈہ شہر سے بیس کلومیٹر فاصلے پر چک کملا کے رہائشی ہیں۔ عبدالخالق کے مطابق جب وہ اپنی بیس سالہ ذہنی معذور بھانجی کی تدفین کے اگلے دن اس کی قبر پر فاتحہ کے لیے گئے تو دیکھا کہ اس کی قبر کسی نے کھود ڈالی تھی اور لاش غائب تھی۔ ڈھونڈنے پر بھانجی کا کفن سے محروم مردہ جسم قبرستان سے کچھ فاصلے پر مل گیا جسے دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ کسی نے مردے کے ساتھ جنسی زیادتی کی ہے۔
ان کا کہنا تھاکہ پولیس نے اس واقعے کا مقدمہ بھی درج کیا اور فرانزک جانچ کے لیے مردہ جسم سے نمونے بھی حاصل کیے۔ یہی نہیں بلکہ شک کی بنا پر کچھ ایسے لوگوں سے پوچھ گچھ بھی کی جن کا پہلے سے کرمنل ریکارڈ بھی موجود تھا، لیکن انہوں نے اس ساری کارروائی اور اس قبیح فعل کا ارتکاب کرنے والے کی گرفتاری سے متعلق مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ مجھے نہیں لگتا کہ پولیس کبھی اصل مجرم کو پکڑے گی اور ہم غریب لوگ ہیں، ہماری کوئی پہنچ تو ہے نہیں۔
مردے کے ساتھ جنسی زیادتی ایسا فعل ہے جس کے بارے میں سوچ کر ہی دل دہل کر رہ جاتا ہے۔ ذہن ایسی درندگی کو ماننے پر آمادہ نہیں ہوتا کہ قبر میں اتاری گئی کسی عورت کی لاش نکال کر اسے بھی اپنی جنسی ہوس کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں خواتین صنفی امتیاز اور استحصال کا شکار ہیں اور انہیں مختلف شکلوں میں خوف و ہراس اور تشدد کا سامنا ہے۔ ورلڈ اکنامک انڈیکس کی صنفی مساوات کے متعلق تازہ رپورٹ میں پاکستان کو ’دوسرا بدترین ملک‘ قرار دیا گیا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ بنتِ حوا اپنے ہی گھر اور کام کرنے کی جگہوں پر عزّت، تحفظ اور سکون سے محروم نہیں ہے بلکہ موت کے بعد قبر میں بھی اسے تحفظ اور سکون نصیب نہیں۔
کسی عورت کی لاش کو قبر سے نکال کر اس کی بے حرمتی کرنے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس طرح کے افسوس ناک واقعات اکثر رپورٹ ہوتے رہتے ہیں۔
ایسا ہی ایک واقعہ 29 نومبر 2011 کو کراچی میں پیش آیا تھا جہاں اس فعلِ قبیح میں ملوث ریاض نامی ایک شخص رنگے ہاتھوں پکڑا کیا گیا تھا۔ عدالت نے گیارہ سال کے بعد اس کیس کا فیصلہ سنایا اور ملزم کو دو بار عمر قید کی سزا اور پچاس ہزار جرمانہ عائد کیا۔
پاکستان میں نیکروفیلیا کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ نہ صرف مردہ کی بے حرمتی اور اس کے خاندان کے لیے نہایت تکلیف دہ عمل ہے بلکہ معاشرے کی نظر میں بھی ایک گھناؤنا، اور ذلّت آمیز عمل ہے۔
نیکروفیلیا آخر ہے کیا ؟
نیکروفیلیا یونانی لفظ نیکروز سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے لاش اور فیلیا محبت کو ظاہر کرتا ہے۔ عام طور پر، لاشوں کے ساتھ جنسی فعل یا مردہ جسم کی طرف جنسی کشش کو نیکروفیلیا کہا جاتا ہے۔ یہ ایک پیرافیلیا ہے جس میں کوئی شخص مردہ جسم کے ساتھ چھیڑ چھاڑ یا جنسی زیادتی کرنے کی خواہش محسوس کرتا ہے اور موقع ملنے پر یہ فعل انجام دیتا ہے ۔
نیکروفیلیا کے بارے میں بات کرتے ہوئے لاہور سے تعلق رکھنے والی ماہر نفسیات ڈاکٹر مائدہ نے بتایا کہ نیکروفیلیا اتنا عام عارضہ نہیں ہے۔ اس کی لت میں مبتلا انسان بہت تنہا ہوتے ہیں اور زیادہ تر وہ خود کسی نہ کسی مرض کا شکار ہوتے ہیں۔ جب کہ زیادہ تر وہ معاشرے کے ٹھکرائے ہوئے لوگ ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایسے لوگ صاف ستھری جگہوں پر نہیں رہتے سنسان جگہوں پررہتے ہیں۔ جبکہ زیادہ تر ان کا پیشہ بھی ایسا ہوتا ہے کہ ان کو قبرستان تک رسائی میں آسانی رہے جیسا کہ گورکن وغیرہ۔
ایسے افراد کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے مزید بتایا کہ ان کا بچپن بھی خاصا تکلیف دہ گزرا ہوتا ہے اور یہ لوگ بچپن سے ہی غلط صحبت کا شکار ہوتے ہیں۔ اگر چند ایک ان کے دوست ہوں بھی تو وہ بھی ان کے کرائم پارٹنر ہوتے ہیں۔
پنجاب چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے بورڈ آف گورنر میں شامل لاہور کی ماہر نفسیات ڈاکٹر صوفیہ سہیل نے کہا کہ نیکروفیلیا کا شکار مردہ عورت کا جسم ہی ہوتا ہے۔ جتنے بھی کیسز دیکھیں اس میں عورت کی لاش ہی نشانہ بنی ہے۔
ڈاکٹر مائدہ نے اس جنسی رجحان کے بارے میں بتایا کہ اس قبیح فعل کا جو بنیادی محرک ہوتا ہے وہ یہ ہوتا ہے کہ ان کا شکار یا وہ مردہ عورت جسے وہ اپنا پارٹنر فرض کرلیتے ہیں، جسمانی طور پر یا جنسی طور پر مزاحمت یا اس عمل میں رکاوٹ ڈالنے اور کسی بھی طرح انکار کرنے کے قابل نہیں ہوتا۔
اسی بات کی تائید کرتے ہوئے ڈاکٹر صوفیہ سہیل نے کہا کہ زیادہ تر ایسے لوگوں کو ٹھکرائے جانے کا خوف ہوتا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کا ساتھی جنسی طور پر ان کو کسی عمل روکنے کے قابل نہ ہو اور نہ ہی کوئی مزاحمت کرے کیونکہ ان کے اندر خود اعتمادی نہیں ہوتی اور اسی لیے وہ اپنی جنسی تسکین کے لیے ایک ایسا ساتھی چاہتے ہیں جو ان کو روک نہ سکتا ہو۔
اس پیچیدہ رویے اور جنسی رجحان کے حامل لوگوں کے علاج کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا انہوں نے کہا کہ ان کے علاج پر بہت محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ایک نفسیاتی عارضہ ہے جس کا علاج کئی سال جاری رہ سکتا ہے اور اس میں ماحول کی تبدیلی کے ساتھ معالج کو نہایت سنجیدگی سے ان کی ذہنیت کو بدلنے کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسے مجرم کو سزا ضرور دی جائے لیکن اس کا علاج بھی ضروری ہے۔ کیونکہ ان کیسز کے ملزمان نفسیاتی پیچیدگی کا شکار ہوتے ہیں، اس لیے ان کی تھراپی ضروری ہے۔ ڈاکٹر صوفیہ سہیل کا کہنا تھا کہ اس طرح کے لوگوں کو سزائیں ہوتی رہی ہیں۔ تاہم یہ ایک ذہنی ڈس آرڈر ہے جسے مکمل ٹریٹمینٹ کی ضرورت ہوگی۔
قانون نیکروفیلیا کے حوالے سے کیا کہتا ہے؟
پاکستان میں قانون کی کتاب اس معاشرے میں بسنے والوں کے بعض حقوق سے متعلق خاموش ہے اور خاص طور پر کسی مردے کے حقوق یا لاش اور میّت کی عزت، اور اس کے تحفظ پر خاص طور پر کچھ واضح نہیں ہے۔
پاکستان کے کئی تعزیری قوانین مختلف جرائم یا ان کی مختلف شکلوں اور پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہیں، لیکن لاش کی بے حرمتی اور مردہ جسم کے ساتھ جنسی زیادتی کے حوالے سے کوئی سخت اور قابلِ ذکر سزا موجود نہیں ہے۔
آئین کا آرٹیکل 37 “سماجی انصاف کے فروغ اور سماجی برائیوں کے خاتمے” سے متعلق ہے، اور یہی نیکروفیلیا کے جرم کا بھی احاطہ کرتا ہے۔
آئین کا آرٹیکل 9 کسی بھی شخص کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے اور آرٹیکل 14 شہریوں کے وقار کی حفاظت کرتا ہے، لیکن کیا وہ لاش کی عزت اور تحفظ کے حوالے سے بھی مؤثر ہے یا اس کا مکمل احاطہ کرتا ہے؟
نیکروفییلیا کے مرتکب افراد اگر گرفتار ہوجاتے ہیں تو سخت قانون اور سزا نہ ہونے باعث آزاد ہو جاتے ہیں۔ نیکروفیلیا کے حوالے سے اکتوبر 2020 میں سینیٹ میں ایک بل میں کہا گیا تھا کہ سیکشن 297 میں ترمیم کرنی چاہیے جس میں نیکروفیلیا کو بھی جنسی حملہ تصور کیا جانا چاہیے اور سزا مقرر ہونا چاہیے تاہم وہ بل اب تک زیر التوا ہے۔
اس حوالے سے لاہور کی ایک خاتون وکیل عزت فاطمہ نے لاہور ہائی کورٹ میں پیٹیشن دائر کی تھی جس میں انہوں نے عدالت سے پی پی سی سیکشن 297 میں ترمیم کی استدعا کی تھی۔ ان کے مطابق نیکروفیلیا کے واقعات کے ملزمان کو سزا نہیں ملتی کیونکہ سیکشن 297 میں اس حوالے سے ابہام موجود ہے، مردہ کے ساتھ بے حرمتی کا جو ایکٹ ہے، اس بارے میں کوئی بات نہیں کی گئی ہے۔
قانون سازی صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں
دنیا کے کئی ممالک میں بھی ایسے ملزمین کو خصوصی قانون سازی نہ ہونے کی وجہ سے گرفتاری کے بعد سخت سزا نہیں ملتی اور وہ رہا ہوجاتے ہیں۔
امریکہ کی چند ریاستوں میں نیکروفیلیا کے حوالے سے واضح قوانین موجود ہیں۔ جن میں جارجیا اور میساچوسٹس جیسی ریاستیں شامل ہیں جہاں اس کی سزا پندہ سال سے لے کر بیس سال تک ہے۔
برطانیہ میں جنسی جرائم ایکٹ، 2003 کا سیکشن 70 نیکروفیلیا سے متعلق ہے اور اسی طرح کینیڈا اور جنوبی افریقہ کے فوجداری قوانین (جنسی جرائم اور متعلقہ معاملات) ترمیمی ایکٹ، 2007 کا سیکشن 14 کسی لاش کے ساتھ جنسی فعل کرنے کی ممانعت کرتا ہے۔
معروف اسلامک اسکالر ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی کا اس بارے میں کہنا ہے کہ ہمارا دین میّت کا احترام سکھاتا ہے اور احتیاط کے ساتھ اس کی آخری رسومات کی ادائیگی کی تلقین کرتا ہے۔ مردے کو بہت احترام سے اٹھانے اور احتیاط سے قبر میں اتارنے کا حکم دیا گیا ہے۔ جب کہ مردے کی بھی بے پردگی یا بے حرمتی نہ ہو۔ اسلام ہی نہیں ہر مہذب معاشرے اور ہر مذہب میں میت کے احترام کی روایت موجود ہے۔ ہر مذہب اپنی رسومات کے مطابق اپنے مُردوں کو عزت، محبت اور حفاظت کے ساتھ ان کی آخری آرام گاہ تک پہنچانے کی ہدایت دیتا ہے۔ ایسے لوگ اگر دماغی انتشار اور خلل کا شکار ہیں تو ان کا علاج ہونا چاہیے، لیکن اگر یہ ان کی عادت ہے تو پھر ان کو قانون کے مطابق سخت سے سخت سزا دینی چاہیے۔
بلاشبہ یہ ایک ایسا فعل ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے اور قانون ساز اداروں اور ارباب اقتدار کو اس مسئلے کی سنجیدگی اور سنگینی کو دیکھتے ہوئے مؤثر قانون سازی کرنا چاہیے اور ایسے ذہنی اور نفسیاتی عارضے میں مبتلا افراد کا مکمل علاج کروانا جب کہ اس فعل کے عادی اور بے حس افراد کو سخت ترین سزا دی جانی چاہیے۔