The news is by your side.

شادی سے پہلے تھیلیسیمیا ٹیسٹ ضروری ہے!

“اگر تم ابارشن نہیں کروارہی ہو تو میں تمہیں طلاق دے دوں گا، اب فیصلہ تمہارے ہاتھ میں ہے، مجھے یہ بچّہ نہیں چاہیے۔ آپ بتائیں میں اپنے بچّے کی زندگی بچاؤں یا اپنا گھر؟ “

“ہماری ایک بیٹی بھی ہے جو تھیلیسیمیا مائنر ہے اور پھر ایک بیٹا تھیلیسیمیا میجر ہے، اب میں تیسری بار ماں بننے جارہی ہوں۔ ڈاکٹروں نے ٹیسٹ کے بعد بتایا ہے کہ میرا یہ بچّہ بھی تھیلیسمیا پازیٹو ہے۔”

جب اس چونتیس سالہ خاتون ندا(فرضی نام) نے میرے سامنے اپنا مسئلہ رکھا تو مجھے سمجھ نہیں آیا کہ ان کو میں کیا مشورہ دوں۔ کیا کہوں کہ اس بچّے کو بچا لو جسے دنیا میں آکر اپنی زندگی کے لیے ہر مہینے کبھی پندرہ دن بعد، کبھی ہر ہفتے خون کی بوتل چاہیے ہو گی اور اس کے بعد بھی اس کی زندگی عام بچّوں جیسی نہیں ہوسکتی، نہ ہی یہ بتایا جاسکتا ہے کہ وہ کب تک جیے گا۔ ندا کا کہنا تھا کہ لوگوں کو اس مرض سے متعلق آگاہی دینا اور یہ بتانا چاہیے کہ دورانِ حمل تھیلیسیمیا کا ٹیسٹ کروانا کتنا ضروری ہے۔

تربت کی رہائشی نور بی بی (فرضی نام) سے موبائل فون پر رابطہ ہوا تو بتایا کہ ان کی ایک ہی بیٹی ہے، جب وہ چھ مہینے کی ہوئی تو انہیں پتہ چلا کہ وہ تھیلیسیمیا میجر ہے۔ ڈاکٹر نے میاں بیوی کا ٹیسٹ کروایا تو پتہ چلا کہ وہ دونوں تھیلیسمیا مائنر ہیں جب کہ وہ کزنز یا دور کے رشتے دار بھی نہیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہماری بیٹی ہمارے خاندان میں تھیلیسیمیا میجر کا پہلا کیس ہے۔ ان کے بقول شوہر کے اکثر رشتے دار بہت غریب ہیں اور وہ یہ ٹیسٹ نہیں کروا سکتے، نہ ان کو اس بارے میں علم ہے۔ وہ چاہتی تھیں کہ جو لوگ پڑھے لکھے نہیں یا وہ تھیلیسمیا کا ٹیسٹ نہیں کروا سکتے، ان کے لیے مفت ٹیسٹ کی سہولت موجود ہو اور ڈاکٹروں کو چاہیے کہ وہ اس بارے میں آگاہی دیں اور لوگوں‌ کو بتائیں‌ کہ شادی سے پہلے تھیلیسیمیا ٹیسٹ کتنا ضروری ہے۔

انہوں نے اپنی تکلیف کے بارے میں کہا کہ وہ ایک بار ابارشن کروا چکی ہیں، کیونکہ ان کا ہونے والا بچّہ تھیلسیمیا میجر تھا۔ ایک طرف وہ اپنی بچّی کو تکلیف میں دیکھ کر اذیت میں ہیں تو دوسری طرف ان کو یہ احساس ستا رہا ہے کہ انہوں نے اپنے ہاتھوں سے اپنے بچّے کو مار دیا تھا۔ وہ خود کو گناہ گار تصور کرتی ہیں۔

کراچی کی رہائشی ایک خاتون کی کہانی بھی درد ناک ہے۔ وہ تین بار اسقاطِ حمل کی اذیت سہہ چکی ہیں۔ کیونکہ تینوں بار طبّی ٹیسٹ میں ان کے بچّوں میں تھیلیسیمیا میجر کی علامات سامنے آئی تھیں۔ ڈاکٹروں کے منع کرنے باوجود انہوں نے اس امید پر ماں بننے کی کوشش کی کہ شاید کوئی معجزہ ہوجائے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے سسرال والے سمجھتے ہیں کہ وہ منحوس ہیں اور یہ سب سن کر ان کا دل چاہتا ہے کہ وہ خود کشی کر لیں۔ “میں ایسا بچّہ پیدا نہیں کرنا چاہتی تھی جسے میں اپنے سامنے پل پل مرتا دیکھوں۔” اس خاتون نے روتے ہوئے بتایا تھا۔

تھلیسیمیا خون کی خطرناک جینیاتی بیماری ہے جو والدین سے بچّے کو منتقل ہوتی ہے۔ تھیلیسمیا کے مریض کی زندگی کا دار و مدار خون کی بوتل پر ہوتا ہے اور یہ مریض کی حالت پر منحصر ہے کہ اس کو کتنی خون کی بوتلیں چاہییں۔

تھیلیسیمیا‮ ٹیسٹ کیوں ضروری ہے؟
اس خطرناک موروثی بیماری کے بارے میں‌ جاننے اور تھیلیسیمیا‮ ٹیسٹ کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے جینیاتی امراض کے ماہر ڈاکٹر زوہیب سے رابطہ کیا تو انہوں‌ نے بتایا، پاکستان میں تھیلیسیمیا مائنر کُل آبادی میں سات سے آٹھ فیصد ہیں، یعنی سو میں سے سات یا آٹھ لوگ تھیلیسمیا مائنر ہیں اور ان کے علم میں یہ بات ہی نہیں کہ وہ تھیلیسیمیا‮ مائنر ہیں۔ کیونکہ پاکستان میں میاں بیوی کا تھیلیسیمیا‮ ٹیسٹ جب ہی ہوتا ہے جب ڈاکٹر کو بچّے میں تھیلیسیمیا‮ کی علامات نظر آتی ہیں۔

جب دو تھیلیسیمیا‮ مائنر کی آپس میں شادی ہوتی ہے تو جو بچّہ پیدا ہوتا ہے وہ زیادہ تر تھیلیسیمیا میجر ہوتا ہے۔ تھیلیسیمیا‮ کی ایک وجہ کزنز کی آپس میں شادیاں یا خاندان میں شادی ہے، تاہم یہ ضروری نہیں ہے۔

تھیلیسیمیا سے بچاؤ کیسے ممکن ہے؟
اس بارے میں ڈاکٹر زوہیب کا کہنا تھاکہ شادی سے پہلے ہر شخص کا تھیلیسیمیا‮ ٹیسٹ ہونا چاہیے۔ تھیلیسیمیا‮ ٹیسٹ کے بعد اگر لڑکا لڑکی دونوں کا ٹیسٹ مثبت ہو تو ماہرین کہتے ہیں‌ کہ یہی بہتر ہے کہ ان کی آپس میں شادی نہ کی جائے۔ تاہم خاندانی روایات اور کئی وجوہ کی بنا پر جن میں بچپن کی منگنی بھی شامل ہے، اگر یہ ممکن نہ ہو تو پھر ایسے جوڑے کو چاہیے کہ وہ استقرارِ حمل (پریگنینسی) کی صورت میں‌ پہلے دس سے چودہ ہفتوں کے دوران پری نیٹل (سی وی ایس) ٹیسٹ لازمی کروائیں، یہی ٹیسٹ ان کے آنے والے بچّے کا تھیلیسیمیا‮ اسٹیٹس بتاتا ہے۔

ڈاکٹر زوہیب نے کہا کہ ہر نوزائیدہ بچّے کی اسکریننگ ضروری ہے جس سے بروقت یہ معلوم ہوسکتا ہے کہ بچّے کو کس مرحلے پر کس قسم کے علاج کی ضرورت ہے۔

سندھ بلڈ ٹرانسفیوژن اتھارٹی کی سیکریٹری ڈاکٹر درِّ ناز جمال نے بھی اس بات پر زور دیا کہ شادی سے پہلے تھیلیسیمیا ٹیسٹ لازمی ہونا چاہیے۔ تاہم ان کے مطابق اگر لڑکے کا ٹیسٹ نیگیٹو ہو تو پھر لڑکی کا ٹیسٹ کروانے کی ضرورت نہیں ہے۔لیکن اگر لڑکا تھیلیسیمیا مائنر ہے تو پھر لڑکی کاٹیسٹ بھی کروانا پڑے گا، اگر وہ نیگیٹو ہے تو پھر ٹھیک ہے، لیکن لڑکی بھی تھیلیسیمیا مائنر آجائے تو پھر ان کی شادی نہیں کرنی چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جو لڑکے اور لڑکیاں شادیاں کرچکے ہیں، بہتر ہے کہ وہ اولاد کی خواہش نہ کریں اور احتیاط کریں۔ لیکن حمل ٹھہر جانے کی صورت میں‌ ابتدائی چند ہفتوں کے دوران سی وی ایس ٹیسٹ کروا لیں کیونکہ یہ ضروری نہیں کہ ہر بار دنیا میں‌ آنے والا بچّہ تھیلیسیمیا میجر ہو۔ اگر ٹیسٹ کے نتائج میں‌ بچّے میں‌ تھیلیسیمیا میجر کی علامات سامنے آتی ہیں تو پھر
ماں کو ابارشن کروانے کے لیے آمادہ کیا جانا چاہیے۔ تاہم یہ اتنا آسان نہیں ہوتا اور اس کے لیے کاؤنسلنگ کی جاتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ تھیلیسیمیا ایک موروثی بیماری ہے جو ماں اور باپ دونوں سے بچّے کو منتقل ہوتی ہے اور اس کی ذمہ داری کسی ایک پر نہیں ڈالی جاسکتی،

خاندان میں‌ شادیاں یا کزن میرج کے نتیجے میں نو زائیدہ میں تھیلیسیمیا کے امکانات
اس بارے میں ڈاکٹر زوہیب کا کہنا تھا کہ طبی ماہرین اکثر کزن میرج کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ ایسے جوڑے کے یہاں‌ ہر پریگننسی میں پچیس فیصد امکان ہوتا ہے کہ دنیا میں آنے والا بچّہ تھیلیسیمیا میجر ہوگا اور پچیس فیصد چانس ہوتا ہے کہ بچّہ نارمل ہو گا۔ تاہم پچاس فیصد اس بات کا امکان ہوتا ہے کہ بچہ تھیلیسیمیا مائنر ہو گا۔

پاکستان میں تھیلیسیمیا کے مریضوں کی کیا تعداد ہے؟
ڈاکٹر درّ ناز جمال نے بتایا کہ اس وقت سندھ بھر میں پچیس سینٹروں میں‌ تھیلیسیمیا کے مریض بچّوں کو خون فراہم کیا جارہا ہے اور ان کی تعداد رجسٹریشن کے حساب سے آٹھ ہزار سے بھی زیادہ ہے۔ محتاط اندازے کے مطابق پاکستان بھر میں اس وقت کم از کم چالیس ہزار سے زیادہ بچّے تھیلیسیمیا میجر ہیں۔ جب کہ تھیلیسیمیا مائنر بچّوں کی تعداد نوے لاکھ تک جاپہنچی ہے۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ پاکستان میں پیدا ہونے والے پانچ سے نو ہزار تک بچّے تھیلیسیمیا کے مرض میں مبتلا ہوتے ہیں۔

تھیلسیمیا ٹیسٹ کے حوالے سے قانون سازی
پاکستان میں تھیلیسیمیا ٹیسٹ کے حوالے سے مؤثر قانون سازی نہیں کی گئی ہے۔ سندھ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر در ناز جمال نے بتایا کہ 2013 میں تھیلیسیمیا ٹیسٹ کے حوالے سے سندھ اسمبلی سے ایکٹ پاس ہوا تھا لیکن اس کو نافذ نہیں کیا جاسکا۔ اس کا نفاذ یقینی بنانے کی کوشش کرنا ہو گی۔ اس سلسلے میں ان کا مزید کہنا تھا کہ جب تھیلیسمیا بورڈ بن جائے گا تو نکاح سے پہلے لڑکے لڑکی دونوں کا ٹیسٹ لازمی ہوگا۔

ابارشن یا اسقاطِ حمل کروانا ماں کے لیے کتنا خطرناک ہے؟
معروف گائناکالوجسٹ ڈاکٹر تسنیم کوثر نے اس حوالے سے بتایا کہ پلان ابارشن کی قانونی اور مذہبی طور پر اجازت نہیں ہے۔ ابارشن یا اسقاطِ حمل کی صرف اور صرف اس صورت میں اجازت ہے جب ماں کی جان کو خطرہ ہو یا پھر اگر بچّے میں ایسی کوئی غیر معمولی جینیاتی نشوونما نظر آتی ہے جس کی وجہ سے پیدائش کے بعد بچّے کی زندگی کی بقا کے امکانات انتہائی کم یا خطرناک ہوں۔

اسقاطِ حمل میں ماں کی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہوتے ہیں، اور خاص طور میں اس صورت میں جب وہ کسی اناڑی ہاتھوں سے ہو۔ ان میں ہارمونل انفیکشن، خاصی مقدار میں خون آنا، اندرونی اعضاء کو نقصان پہنچنا جیسا کہ بچّہ دانی کا پھٹ جانا یا اِس میں سوراخ پیدا ہوجانا جیسی طبی پیچیدگیاں بھی شامل ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ وہ اپنی حاملہ ہونے کی صلاحیت مستقل طور پر بھی کھو سکتی ہے جب کہ اسقاطِ حمل کے دوران اس کی جان بھی جاسکتی ہے۔

تاہم ضروری ہو اور اگر یہ عمل کسی ماہر ڈاکٹر کے ہاتھوں ہو تو پیچیدگیاں کم سے کم ہوتی ہیں تاہم تب بھی اس کے اثرات میں جسم میں شدید اینٹھن، سر درد، متلی اور الٹی ہونا اور خاصی مقدار میں خون آنے کی شکایت ہوسکتی ہے۔ اسقاط حمل کے بعد ایک ماں جسمانی تکلیف سے تو گزرتی ہی ہے مگر اس کی ذہنی تکلیف کا اندازہ کرنا بہت مشکل ہے۔

اسقاط حمل ماں کی ذہنی حالت پر کیسے اثر انداز ہوتا ہے؟
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے مینٹل ہیلتھ تھراپسٹ رابعہ خان کا کہنا تھا کہ قدرتی طور پر شادی کے بعد ایک عورت ماں بننے کی خواہش کرتی ہے۔ اپنے آنے والے بچّے کے ساتھ کتنی ہی امیدیں کتنی خوشیاں جڑی ہوتی ہیں۔ لیکن اگر اسے پتہ چلے کہ بچّے کی نشوونما نہیں ہو رہی یا پھر اسی طرح کی پیچیدگی کی وجہ سے ڈاکٹر اسقاطِ حمل کی طرف جائیں۔ یا اسے معلوم ہو کہ وہ تھیلیسیمیا مائنر ہے اور اس وجہ سے آنے والا بچّہ بھی اس کا شکار ہوگا تو یہ سب اس کی ذہنی صحت کو متاثر کرتے ہیں۔ وہ شدید ذہنی دباؤ کا شکار بھی ہوتی ہے۔

بدقسمتی سے ہمارے ہاں اس حوالے سے لوگوں میں آگاہی نہیں ہے کہ جس کا ابارشن ہوا ہے اس پر کیا گزرتی ہے۔ ہمارے معاشرتی رویے ایسے نہیں ہیں کہ ہم اس تکلیف سے گزرنے والی عورت کو سپورٹ کریں ویسے بھی ہمارے ہاں ہر موقع پر خواتین کو چپ رہنے اور صبر کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔

انہوں نے اس سلسلے میں مزید بتایا کہ ڈپریشن، تناؤ، اور بے چینی خواتین میں مردوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ خاص طور پر پریگننسی کے دوران ویسے بھی ہارمونل تبدیلیاں ہورہی ہوتی ہیں اور بہت ساری خواتین کو ڈپریشن ہوتا ہے لیکن ان کو آگاہی نہیں ہوتی کہ وہ ڈپریشن کا شکار ہیں۔ اسی دوران جب وہ بچہ پیدا کرنا چاہتی ہیں تو کسی وجہ سے یہ پریشر ہو کہ ابارشن کروا لو یا ان کے بچے میں کوئی ابنارملیٹی ہے تو ایک ایسی عورت کی دماغی صحت بھی متاثر ہوتی ہے۔ اگر اس دوران خاتون کو سپورٹ نہ ملے تو پھر ڈپریشن بہت شدید ہوجاتا ہے۔

بہت سارے کیسز میں خاتون اسقاط حمل کے بعد اسٹریس سے گزرتی ہے اس پر پریشر بہت ہوتا ہے۔ اسے ندامت ہوتی ہے، خاتون اپنے آپ کوذمہ دار ٹھہراتی ہے اسے غصہ آتا ہے اسے شرمندگی ہوتی ہے۔ وہ احساس کمتری کا شکار ہوتی ہے نیند میں کمی اور چڑچڑاہٹ بھی ہوتی ہے۔ اپنا بچہ کھونے کا احساس اتنا شدید ہوتا ہے کہ اس وجہ سے اس کے اندر خودکشی کا احساس بھی جاگ جاتا ہے۔

رابعہ خان کا کہنا تھا ایسی صورتحال میں اس عورت کو زیادہ پیار اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس سے بات کرنے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ ایک عورت جسمانی اذیت سے گزری ہوتی ہے اور اس کو ذہنی اذیت سے بھی گزرنا ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسی شدید صورت میں‌ کسی اچھے سائیکاٹرسٹ سے رابطہ کریں تاکہ وہ اس کو اس کیفیت باہر نکالنے میں مددگار ثابت ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ ضروری ہوتا ہے کہ جب وہ اپنی گائناکالوجسٹ سے بات کرے تو اس سے اپنے سارے سوال پوچھ سکے۔ ہمارے ہاں تو ڈاکٹروں سے بات بھی نہیں کی جاتی کیونکہ کچھ ڈاکٹر بھی ایسی ہوتی ہیں جو زیادہ بات نہیں کرتیں۔ رویے بہت معنی رکھتے ہیں۔ خواتین ڈر کے مارے شرمندگی کے مارے سوال بھی نہیں کرتی ہیں۔ جب کہ ساتھ میں اگر شوہر یا ساس ہوں تو بھی وہ بات کرنے میں شرماتی ہیں۔

ایسی بھی خواتین ہوتی ہیں جو اسقاط حمل کے اگلے دن ہی کچن میں جاتی ہیں یہ بہت غیر انسانی رویہ ہے۔ اس کو مکمل آرام احتیاط کروائیں اس کو جسمانی آرام کے ساتھ ساتھ ذہنی آرام بھی دیں اور سپورٹ اس کو گھر والو ں سے مل سکتی ہے۔

ہمارے معاشرے میں خواتین ویسے بھی مخلتف قسم کے جسمانی ذہنی دباؤ سے گزرتی ہیں۔ اس لیے شادی سے پہلے تھیلیسیمیا ٹیسٹ ضرور کروا لیں تاکہ شادی کے بعد ان کو جسمانی اور ذہنی اذیت سے نہ گزرنا پڑے۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں