The news is by your side.

وہ نقصان جس کی تلافی ہونے میں‌صدیاں لگ جاتی ہیں!

یہ تو ہم سب کے علم میں ہے کہ زمین پر جانداروں کے لیے سبزہ اور جنگلات کا ہونا کس قدر ضروری ہے۔ جنگلات زمین اور ماحول کے لیے کئی طرح سے مفید ہیں اور انسانوں اور حیوانات کی مختلف ضروریات بھی پوری کرتے ہیں۔

قدرتی طور پر جہاں سبزہ و گل زمین کی خوب صورتی میں‌ اضافہ کرتے ہیں، وہیں قسم ہا قسم کے پیڑ پودے قدیم دور سے آج تک انسانوں کی غذائی ضرورت کے ساتھ ساتھ ان کے علاج معالجے اور سہولت کی مختلف اشیا کی تیاری میں کام آرہے ہیں۔ جنگلات سے حاصل کردہ لکڑی کو انسان ایندھن کی ضرورت پوری کرنے، تعمیراتی مقاصد اور فرنیچر وغیرہ کی تیاری میں استعمال کرتا آرہا ہے۔ وسیع رقبے پر پھیلے ہوئے جنگل مختلف حیوانات کا مسکن ہیں جب کہ درخت زمینی کٹاؤ کو ہی نہیں روکتے ہیں بلکہ اس کی زرخیزی بھی قائم رکھتے ہیں۔

پاکستان کی بات کی جائے تو یہاں پچھلے کئی برسوں کے دوران ایندھن یا تعمیرات کی غرض سے پیڑ پودوں کو بے دریغ کاٹا جاتا رہا ہے اور ہم جنگلات کو اپنے ہی ہاتھوں تباہ کررہے ہیں۔

ہمارے ملک میں‌ جنگلات کے لیے ٹمبر مافیا اور لینڈ مافیا بڑا خطرہ ہے، لیکن پاکستان میں آتش زدگی کے واقعات میں بھی جنگلات کو بڑا نقصان پہنچا ہے اور ان کی بقا کو خطرہ رہتا ہے۔ آتش زدگی کے واقعات کے بعد نقصانات کی تلافی فوری ممکن نہیں‌ ہوتی بلکہ کئی برس اور اکثر صدیاں لگ سکتی ہیں۔

بلوچستان کے علاقے شیرانی کے جنگلات کی میں آگے لگنے کے حالیہ واقعے کے بعد ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ پاکستان کی تاریخ کی سب سے خوف ناک آگ ہے جس میں 36 مربع کلومیٹر پر پھیلے ہوئے چلغوزے کے درخت جل کر راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئے۔ جس کا ایک مطلب یہ ہے کہ ان درختوں سے جن لوگوں کا روزگار وابستہ تھا، وہ بھی گویا اس بھیانک آگ کے نتیجے میں جھلس گیا۔ یہی نہیں بلکہ وہاں پائی جانے والی جنگلی حیات بھی شدید متاثر ہوئی جن میں مار خور اور اوڑیال سمیت مختلف جانور، پرندے اور حشرات شامل ہیں۔

دوسری جانب ماہرینِ ماحولیات کا خیال ہے ان نقصانات کو پورا ہوتے ہوتے اب شاید ایک صدی لگ جائے۔ ابھی یہ آگ پوری طرح ٹھنڈی بھی نہیں ہوئی کہ خیبر پختونخوا کے علاقوں سوات، بونیر، مینگورہ، شانگلہ اور چکیسر کے پہاڑوں پر واقع جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات پیش آئے ہیں، اور آتش زدگی کے نتیجے میں تین خواتین سمیت 4 افراد بھی جھلس کر جاں بحق ہوگئے۔ ماہرین کے مطابق پہاڑی سلسلوں میں لگنے والی آگ اس لیے بھی تشویش ناک ہے کہ اس سے نہ صرف ہزاروں درخت خاکستر ہورہے ہیں بلکہ لوگوں کا روزگار بھی ختم ہو رہا ہے۔

پاکستان میں اس وقت جنگلات اور جنگلی حیات کی کیا صورتِ حال ہے؟

ورلڈ وائڈ فنڈ فار وائلڈ لائف (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے ریجنل ڈائریکٹر طاہر رشید نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ پاکستان میں جنگلات کا رقبہ 4.5 فیصد ہے، لیکن FAO کی رپورٹ کے مطابق یہ 4.5 نہیں بلکہ 2.1 ہے۔

پاکستان میں‌ مختلف پیڑ پودے اور جڑی بوٹیاں جنگلات میں پائی جاتی ہیں۔ یہاں مینگرووز سے لے کر الپائن فاریسٹ اور دیو دار تک قسم ہا قسم کے درخت پائے جاتے ہیں۔

وسیع رقبے پر موجود یہی قسم ہا قسم کے درخت جنگلی حیات کا مسکن اور ان کی پناہ گاہ ہوتے ہیں۔ پاکستان میں جنگلی حیات کی بات کریں تو یہ اپنی نسل کی افزائش اور بقا کے لیے سازگار ماحول اور جغرافیائی اعتبار سے موزوں مقامات پر جنگلات میں پائی جاتی ہے۔

ہمارے پاس گرین ٹرٹل اور اسنو لیپرڈ ہے، مار خور کی مختلف اقسام ہیں، چیتن وائٹ گوٹ ہے اور اسی طرح دیگر جنگلی حیات کی سیکڑوں انواع پائی جاتی ہے۔ ان میں مختلف پرندے بھی ہیں جن کی حفاظت کرنا ہم سب کا فرض ہے۔

اسی سوال کے جواب میں معروف صحافی اور ماہرِ ماحولیات عافیہ سلام کا کہنا تھا کہ پاکستان میں جنگلات کی صورتِ حال بالکل بھی تسلی بخش نہیں ہے، قدرتی ماحول اور جنگلات کے تحفظ سے متعلق عالمی ادارے کے مطابق کسی بھی ملک میں‌ پچیس فیصد رقبے پر جنگلات ہونا چاہییں، ہمارے ہاں دو مختلف فگرز دیے جاتے ہیں، ایک کہتے ہیں کہ پانچ فیصد جنگلات کا ایریا ہے، لیکن وہ ایریا ہے جب کہ دو سال پہلے FAO کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے جنگلات صرف 2.1 فیصد ہیں تو یہ تو بالکل تسلی بخش نہیں ہیں۔

جنگلات میں آگ لگنے کی وجوہات کیا ہیں اور یہ اتنی خطرناک کیوں ہے؟

جنگلات میں آگ لگنے کی وجوہات میں خشک موسم گرمی کی شدت اور انسانی غفلت شامل ہیں۔

اس سوال کے جواب میں ورلڈ وائڈ فنڈ فار وائلڈ لائف (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے ریجنل ڈائریکٹر طاہر رشید نے کہا کہ دنیا بھر میں جنگلات میں لگنے والی آگ کو دیکھیں تو اس میں زیادہ تر انسانی کوتاہی نظر آتی ہے۔ لیکن اس کے علاوہ بہت سے قدرتی عوامل بھی ہیں جس کی وجہ سے جنگلات میں آگ لگتی ہے جیسے بجلی کا گرنا، سورج کی شدت جس کی وجہ سے جنگلات میں آگ لگ جاتی ہے اور بے قابو ہوجاتی ہے جس سے لاکھوں ایکڑ جنگلات ہر سال دنیا میں جل جاتے ہیں۔ جس کی مثال آسٹریلیا کے جنگلات میں لگنے والی آگ اور کیلی فورنیا امریکہ میں تواتر کے ساتھ لگنے والی آگ ہے۔

پاکستان میں کسی بھی جنگل میں لگنے والی یہ سب سے بڑی آگ ہے جو شیرانی اور موسی خیل کے اضلاع ہیں وہاں پر لگی تھی، شکر ہے کہ اس پر قابو پالیا گیا، زیادہ تر یہی کہا جارہا ہے کہ آسمانی بجلی گری تھی، اس سے آگ لگی۔ بدقسمتی سے وہ جنگل بہت سے لوگوں کو روزگار بھی دیتا ہے جس میں چلغوزے کا جنگل سرفہرست ہے تو بعض دفعہ باہمی اختلافات کی وجہ سے بھی آگ لگائی جاسکتی ہے لیکن یہ فی الحال ایک قیاس ہے۔

جنگلات میں لگنے والی آگ سے ماحول پر بہت ہی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں جب بھی آگ لگتی ہے تو فضا بھی آلودہ ہوتی ہے۔

چلغوزے ہمیں سب سے زیادہ موسیٰ خیل اور شیرانی کے جنگلات سے ہی ملتے تھے، اس کا بھی ہمیں مالی طور پر شدید نقصان ہوا ہے۔

ماہرِ ماحولیات عافیہ سلام نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا ویسے بھی خشک موسم ہے تو گرمی کے موسم میں برسات سے پہلے جنگلات بہت خشک ہوتے ہیں۔ وہاں اگر پکنک کے لیے لوگ جاکر آگ جلاتے ہیں تو وہ بھڑک اٹھتی ہے، لوگ پوری طرح سے اس کو بجھا کر نہیں جاتے، کوئی چنگاری بھی رہ جاتی ہے تو آگ لگ جاتی ہے۔ جس کی مثال ہر سال مارگلہ ہلز میں آگ لگتی ہے کئی مرتبہ لگتی ہے یہ لاپرواہی نہیں جرم ہے۔

اس آگ سے جنگلی حیات بری طرح متاثر ہوتی ہے، ان کا اپنا ایکو سسٹم ہوتا habitat ہوتا ہے اور جب آگ لگتی ہے تو ان کے پاس کہیں باہر نکلنے کا راستہ نہیں ہوتا کہ جہاں پانی ہو وہاں پہنچ سکیں، وہ جھلس کر مرجاتے ہیں۔

یہ المیہ آسٹریلیا کے جنگلات میں لگی آگ میں بھی دیکھا گیا تھا اور اس کے اثرات اور نقصانات تو سالوں تک نہیں جاتے۔

جنگلات کے تحفظ کے لیے قانون سازی کی کیا صورت حال ہے اور کیا اقدامات تسلی بخش ہیں؟

طاہر رشید سے یہ سوال کیا گیا تو انہوں‌ نے کہا، قانون سازی تو بہت اچھی ہے، بدقسمتی سے اس پر عمل درآمد کرنے میں ہم بہت پیچھے ہیں اور اس کو ہم نافذ نہیں کرنا چاہتے، ہم under capacitated ہیں۔ ہمارے پاس equipment کی کمی ہے، ہماری جو اپروچ ہوتی ہے وہ ری ایکٹو ہوتی ہے، بجائے یہ کہ ہم پہلے سے اس کے لیے تیار ہوں، well equipped ہوں اور ہمیں پتہ ہو اگر آگ لگی ہو اس کے کون سے طریقہ کار ہیں۔

آگ بجھانے کے لیے کس آدمی کا کیا رول ہو اور کس طریقے سے ہم اس آگ کو بجھائیں گے، چونکہ ہم پر جب پڑتی ہے تو تب ہم ری ایکٹ کرتے ہیں، تب تک نقصان زیادہ ہوجاتا ہے۔

ہمارے پاس آگ بجھانے کا موثر نظام اس لیے نہیں ہے، یہ ہماری priority نہیں ہے، اسی وجہ سے جب Resource Allocation ہوتی ہے وہ بھی خاطر خواہ نہیں ہوتی۔ پاکستان میں ایسا سسٹم موجود نہیں جس سے ہم یہ آگ بجھا سکتے۔ ہمیں اس کی اشد ضرورت ہے یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے اور ہمیں جاگنا چاہیے، اس کے لیے اپنے اسٹاف کو باقاعدہ ٹریننگ دینا چاہیے، پی ڈی ایم اے کے محکمے میں پراپر cadre ہونا چاہیے تاکہ جنگلات میں لگنے والی آگ کو بجھایا جاسکے۔

اسی سوال پر عافیہ سلام نے کہا کہ قانون تو موجود ہے لیکن اس کا اطلاق اور اس پر عمل کتنا ہوتا ہے؟ ہمارے جنگلات کے تحفظ کے لیے عملہ انتہائی ناکافی ہے، کرمنلز اور مافیا تو ہمیشہ سے جو تحفظ دینے والے لوگ ہیں ان سے کہیں زیادہ طاقتور ہوتے ہیں تو ہمیں اس طرف بھی توجہ دینی ہوگی۔ جو ادارے اس کام کے لیے مختص ہیں، ان کی capacity بڑھانا ہے، انہیں محفوظ بنانا ان کو وسائل دینے کی ضرورت ہے تبھی ہم کام کرسکیں گے۔

دوسری بات یہ ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے اور انسانی کوتاہیوں کی وجہ سے دنیا میں مختلف جنگلات میں آگ لگ رہی ہےج یسے آسٹریلیا کی آگ جو دو سال پہلے لگی تھی اور کیلی فورنیا کے جنگلات میں آگ اس کے پیچھے بھی انسانی ہاتھ تھا۔ بعد میں ان دو کم عمر لڑکوں کو پکڑا گیا تھا ان کی نشاندہی ہوگئی تھیجنہوں نے یہ آگ لگائی تھی۔

اسی طرح کہیں ٹک ٹاکرز تھرل کے نام پر کم سن بچے جنگلات میں آگ لگا رہے ہوتے ہیں ان کو احساس ہی نہیں کہ یہ جو شرارت ہے ان کی شرارت نہیں کتنا بڑا جرم ہے اور کتنے بڑے نقصان کا باعث بن رہا ہے ورنہ محافظوں کے پاس اسلحہ بھی ہو تو اس کو روکا نہیں جاسکتا۔

جو ادارے جنگلات کے تحفظ پر مامور ہیں ان کی capacity building بڑھائی جائے ان کو وسائل دیے جائیں اس میں نفری کو بڑھانا بہت ضروری ہے کیونکہ بہت بڑا علاقہ ہوتا ہے جس کو یہ کور نہیں کرپاتے۔

دوسرا آگاہی مہم بہت ضروری ہے کہ جنگلات اتنے اہم کیوں ہیں، یہ تو اسکول کے لیول سے شروع کرنا چاہیے اور سوسائٹی کے اندر اس کو پھیلانا چاہیے کیونکہ ایک طرف کے اقدامات کافی نہیں ہونگے۔

سندھ میں جنگلات کی کیا صورتحال ہے؟
اس سلسلے میں سندھ فاریسٹ ڈپارٹمنٹ کا کہنا ہے کہ سندھ کا جو ٹوٹل رقبہ ہے وہ 34.3 ملین ایکڑز ہے، اس کے دس فیصد پر محکمہ جنگلات کی notified designated ایریا ہے اور وہ نوٹی فائیڈ ایریا دو قسم کی ہے ہمارے پاس ایک ریزرو فاریسٹ اور دوسری پروٹیکٹد فاریسٹ۔

ریزور فاریسٹ میں ہمارے پاس ریورائن فاریسٹ اور پلانٹیشن آجاتی ہیں اور پروٹیکٹڈ فاریسٹ میں مینگرووز فاریسٹ اور رینج لینڈ آجاتی ہیں۔

ان کے بچاؤکے لیے ہمارے پاس فاریسٹ گارڈ موجود ہیں، فاریسٹ ایکٹ 1927 ہے اس میں amendments بھی کی ہیں جبکہ دوسرے بھی جو ایکٹ موجود ہیںوہ بھی ہم لگاتے ہیں۔

کمیونٹی کے ساتھ ان کی مدد سے فاریسٹ کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں سندھ فاریسٹ ڈپارٹمنٹ نے ایک لاکھ ہیکٹر سے زیادہ پلانٹیٹشن کی ہیں اور سارا میکنزم سندھ فاریسٹ کے ہاتھ میں ہے ہم کوشش کررہے ہیں کہ فاریسٹ کو بچاتے رہیں اور اپنے فنڈز سے جہاں فاریسٹ لگتا ہے ہم لگاتے ہیں۔

مینگروز فاریسٹ کے بچاؤکے حوالے سے جو ایشوز ہیں وہ کراچی اور اسکے گرد و نواح کے ہیں جہاں لوگ لکڑی بھی کاٹ رہے ہیں اور زمین کو دوسرے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

خاص طور پر لینڈ مافیا بہت بڑا ایشو ہے ہماری کوشش ہے کہ ان چیزوں کو روکیں اس سلسلے میں ایک کمیٹی بھی بنائی گئی ہے جس میں کے پی ٹی کے ایم سی اور فاریسٹ ڈپارٹمنٹ ہے جن کو ایک پلان بناکر دینا ہے تاکہ مینگرورز کی کٹائی کو روکا جاسکے۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں