The news is by your side.

ایم کیو ایم کی پھر قلابازی، کیا حکومت کا جانا ٹھہر گیا ہے؟

بالآخر وفاق میں پی ٹی آئی حکومت کی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے اپنا حتمی فیصلہ سنا دیا۔

جب سے عدم اعتماد کی بازگشت شروع ہوئی، ہر روز آج نہیں کل اور کل نہیں پرسوں کہہ کر ٹالنے والی ایم کیو ایم نے تحریک عدم اعتماد پر قومی اسمبلی میں بحث سے ایک روز قبل حکومت کو الوداع کہنے اور اپوزیشن سے دوستی کا باضابطہ اعلان کر دیا۔

گو کہ اس اعلان سے ایک دو روز قبل ہی ایم کیو ایم کی ہوائیں اپوزیشن رخ پر چلنا شروع ہوگئی تھیں جس کا عندیہ دونوں طرف کے لوگ دے رہے تھے، وفاقی وزیر امین الحق نے کہا تھا حکومت کا رہنا یا جانا ہمارے ہاتھ میں ہے جب کہ اپوزیشن کے بیانیے تو لڈی ڈالنے کے مترادف ہی تھے، تاہم اس حتمی اعلان کے ساتھ ہی حکومت کو دھچکا لگا۔ نمبر گیم کی بات کی جائے تو عدم اعتماد کی جیت میں تو اپوزیشن مطلوبہ نمبر گیم سے بھی آگے نکلتی نظر آرہی ہے۔ متحدہ اپوزیشن کے ساتھ پریس کانفرنس میں ایم کیو ایم نے بھی وزیراعظم عمران خان کو مستعفی ہونے کا مشورہ دیا ہے جب کہ اپوزیشن لیڈر اور ن لیگ کے قائد شہباز شریف بھی یہی بات کہتے نظر آتے۔

ایم کیو ایم کا متحدہ اپوزیشن سے 27 نکات پر مبنی معاہدہ ہوا ہے جس میں شہری سندھ سے متعلق تمام مسائل کا احاطہ کیا گیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایم کیو ایم کا ان نکات پر مبنی پہلی بار معاہدہ ہے؟ کیا یہ ن لیگ سے پہلی بار معاہدہ ہے؟ کیا پی پی پی سے ایم کیو ایم کا پہلی بار معاہدہ ہے؟ تو ان تمام سوالوں کا جواب نفی میں ہے۔ ایم کیو ایم ن لیگ اور پیپلز پارٹی سے 1988 سے 2013 کے دوران تین تین بار معاہدے کرکے وفاق اور صوبائی حکومتوں میں شامل ہوتی رہی ہے اور تقریباْ ہر بار ہی کچھ وقت بعد اپنے کیمپ بدلتی رہی ہے۔
17 اگست 1987 کو صدر جنرل ضیا الحق کی طیارہ حادثے میں ہلاکت کے بعد 16 نومبر 1988 کو جب بہت طویل مارشل لا کے بعد ملک میں جماعتی بنیادوں پر عام انتخابات ہوئے تو ایم کیو ایم کو پہلی بار پارلیمانی طاقت تسلیم کیا گیا۔ اور کراچی و حیدرآباد سمیت سندھ کے شہری علاقوں سے قومی اسمبلی کی 13 اور سندھ اسمبلی کی 25 نشستیں جیت کر ملک کی ’تیسری بڑی سیاسی جماعت‘ بن کر اُبھری۔ ان انتخابات میں ملک بھر میں سب سے زیادہ نشستیں جیتنے والی پیپلز پارٹی نے حکومت بنانے کے لیے ایم کیو ایم سے شراکت اقتدار کا معاہدہ کیا اور یوں ایم کیو ایم بھی پہلی بار کسی سیاسی اتحاد کا حصہ بنی۔

ایم کیو ایم نے 1988 میں پی پی پی سے شہری سندھ کے مسائل پر مبنی مطالبات پر معاہدہ کیا لیکن صرف دو سال سے بھی کم عرصے میں یہ حکومت ختم کردی گئی جب کہ اس دوران بھی ایم کیو ایم، پی پی پی کے رویے سے شاکی رہی اور پی پی پی پر معاہدوں سے انحراف کا الزام عائد کرتے ہوئے اس وقت کی اپوزیشن اسلامی جمہوری اتحاد کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ بعد ازاں 6 اگست 1990 کو صدر غلام اسحٰق خان کی جانب سے پی پی حکومت کو امن و امان کی خراب صورت حال اور دیگر الزامات پر برطرف کردیا گیا۔ قبل از وقت حکومت ختم کیے جانے کے نتیجے میں 24 اکتوبر 1990 کو پھر عام انتخابات ہوئے جس میں اسلامی جمہوری اتحاد کی حکومت بنی اور نواز شریف نے پہلی بار اسلام آباد میں اقتدار سنبھالا اور اسلامی جمہوری اتحاد تحلیل ہونے کے بعد مسلم لیگ ن کا وجود عمل میں آیا۔ ان انتخابات میں ایم کیو ایم نے قومی اسمبلی کی 15 اور سندھ اسمبلی کی 28 نشستیں حاصل کیں اور 1990 میں نواز شریف کی حکومت میں شامل ہوگئی لیکن پھر 19 جون 1992 کو کراچی آپریشن کلین اپ کا سلسلہ شروع ہوا جس کے نتیجے میں ایم کیو ایم نے نواز شریف کو الوداع کہہ دیا۔

18 اپریل 1993 کو وزیراعظم سے اختلافات پر صدر غلام اسحٰق خان نے پھر 58 ٹو بی ترمیم کا حق استعمال کرتے ہوئے نواز حکومت سے جان چھڑائی۔ گو کہ 26 مئی 1993 کو سپریم کورٹ نے نواز شریف حکومت بحال کر دیا لیکن مگر 18 جولائی 1993 کو صدر اسحٰق اور وزیراعظم شریف دونوں ہی کو مستعٰفی ہونا پڑا۔

دو حکومتیں قبل از وقت ختم ہونے کے بعد ضیا دور کے بعد کی جمہوریت کے پانچویں سال میں 6 اکتوبر 1993 کو تیسرے عام انتخابات ہوئے لیکن ایم کیو ایم نے کراچی میں جاری آپریشن کے باعث قومی اسمبلی کا بائیکاٹ کیا مگر صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں سندھ کی 28 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔

1988 سے تاحال یہ پہلا دور تھا جب ایم کیو ایم کسی وفاقی یا صوبائی حکومت کا حصہ نہیں بنی۔ پی پی کے اس دور حکومت میں کراچی میں ماورائے عدالت اور پولیس کے ہاتھوں ہلاکتوں کا سلسلہ اپنے عروج پر رہا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ اس وقت کی وزیراعظم بینظیر بھٹو کے بھائی اور ایم پی اے میر مرتضی بھٹّو 20 ستمبر 1996 کو پولیس سے ایک مدبھیڑ میں جان کی بازی ہار گئے۔ ان حالات میں خود پیپلز پارٹی کے مقرر کردہ اور بینظیر کے قریبی ساتھی صدر فاروق احمد خان لغاری نے پانچ نومبر 1996 کو بینظیر بھٹّو کی حکومت کو لاقانونیت اور بدعنوانی کے الزامات میں برطرف کر دیا اور قومی و صوبائی اسمبلی بھی تحلیل کر دی گئی۔

90 کی دہائی کے تیسرے عام انتخابات 3 فروری 1997 کو ہوئے اور ایم کیو ایم نے قومی اسمبلی کی 12 نشستیں حاصل کیں جب کہ نواز شریف کی مسلم لیگ ن دو تہائی اکثریت لے کر کامیاب ہوئی۔ 1997 میں نواز شریف ایک بار پھر وزیر اعظم منتخب ہوئے تو ایم کیو ایم ایک بار پھر اتحادی بن کر نواز شریف کی حکومت میں شامل ہو گئی۔ لیاقت جتوئی ایم کیو ایم کی مدد سے سندھ کے وزیر اعلیٰ مقرر ہوئے تاہم یہ اتحاد صرف ڈیڑھ سال ہی قائم رہا اور 17 اکتوبر 1998 اس وقت کے گورنر سندھ حکیم محمد سعید کو قتل کر دیا گیا اور وزیراعظم کی جانب سے اپنی ہی اتحادی جماعت ایم کیو ایم پر اس قتل کا مبینہ الزام عائد کرنے پر ایم کیو ایم پھر حکومت سے علیحدہ ہوگئی۔

12 اکتوبر 1999 کو پرویز مشرف کے نواز شریف کا تختہ الٹنے اور اقتدار پر قبضہ کرنے کے 3 سال بعد 10 اکتوبر 2002 کو پھر انتخابات ہوئے اور ایم کیو ایم نے قومی اسمبلی کی 19 اور صوبائی اسمبلی کی 51 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ اس الیکشن کے نتیجے میں میر ظفر اللہ خان جمالی وزیر اعظم اور صوبہ سندھ میں پہلے علی محمد مہر اور پھر ارباب غلام رحیم وزیر اعلیٰ بنے۔ ایم کیو ایم وفاق اور صوبے میں ایک بار پھر حکومت میں شامل ہوئی اور دسمبر 2007 تک حکومت کی مدت مکمل ہونے تک اقتدار میں شریک رہی۔

18 فروری 2008 کے انتخابات ایم کیو ایم نے 18 عام اور مخصوص نشستوں سمیت قومی اسمبلی کی کل 25 اور صوبائی اسمبلی کی 42 نشستیں حاصل کیں۔ مرکز میں پیپلز پارٹی نے حکومت بنائی۔ یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنے۔ اس الیکشن میں ایم کیو ایم نے 18 عام اور مخصوص نشستوں سمیت قومی اسمبلی کی کل 25 اور صوبائی اسمبلی کی 42 نشستیں حاصل کیں۔ سندھ میں پی پی پی نے حکومت بنائی۔ اور پھر ایم کیو ایم وفاق اور سندھ میں حکومت کا حصہ بنی لیکن 2013 کے عام انتخابات سے ڈیڑھ دو ماہ قبل ہی پی پی حکومت سے علیحدگی اختیار کر لی۔

11 مئی 2013 میں انتخابات میں ایم کیو ایم نے قومی اسمبلی کی کل 25 اور سندھ اسمبلی کی 51 نشستیں حاصل کیں۔ وفاق میں حکومت ن لیگ کی بنی لیکن سندھ میں پیپلز پارٹی نے حکومت بنائی اور ایم کیو ایم اس وقت کارکنوں کے ریفرنڈم کے فیصلے پر صوبائی حکومت میں شامل نہیں ہوئی لیکن تقریباْ ایک سال بعد ہی نہ جانے کیا ہوا کہ مئی 2014 میں اچانک ایم کیو ایم پیپلز پارٹی کے ساتھ مخلوط حکومت میں شامل ہوگئی اور فقط ساڑھے چار ماہ ہی میں اس حکومت سے بھی نکل آئی۔

25 جولائی 2018 کے الیکشن میں پی ٹی آئی پہلی بار اتنی نشستیں لینے میں کامیاب ہوئی کہ ق لیگ، بی اے پی اور ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر وفاق میں حکومت بنائی، ایم کیو ایم نے اس الیکشن میں پہلی بار ہزیمت اٹھائی اور صرف قومی اسمبلی کی 7 نشستیں ہی حاصل کرسکی۔ تاہم ایم کیو ایم اس حکومت میں ہنستے کھیلتے شامل ہوئی اور شکوے شکایات کرتے چار سال گزارے۔ اب یہ اتحاد تقریباً 4 سال بعد 30 مارچ 2022 کو ٹوٹ گیا ہے اور ایم کیو ایم ایک بار پھر آزمودہ سیاسی کیمپوں میں جانے کا اعلان کرچکی ہے۔

اب جب کہ ایم کیو ایم کی یہ سیاسی شراکت بھی قبل از وقت ہی ختم ہوگئی ہے، ایم کیو ایم کے ووٹرز اور سپورٹرز سوشل میڈیا پر یہ سوال کر رہے ہیں کہ کیا ن لیگ اور پی پی پی ایم کیو ایم کے لیے اتنی قابل اعتماد ہوچکی ہیں کہ وہ کاغذی وعدوں اور عہد و پیماں پر اپنے پَر کھول کر ان کی جانب اڑان بھر چکی ہے۔ کیا اس سے شہری سندھ اور ایم کیو ایم کے ووٹرز کو کچھ فائدہ ہو گا اور کراچی کے دیرینہ مسائل حل ہوسکیں گے؟ ووٹروں اور سپورٹروں کی جانب سے یہ بھی پوچھا جارہا ہے کہ کیا یہ واقعی ملک اور قوم کے مفاد میں فیصلہ ہے یا پھر اس میں ذاتی مفادات شامل ہیں؟

ایم کیو ایم کے اس فیصلے کے ثمرات اور مضمرات کا تو آنے والے وقت میں ہی پتہ چلے گا لیکن وفاق سے خبریں ہیں کہ وزیراعظم نے مستعفی نہ ہونے کا فیصلہ کیا ہے اور کہا ہے کہ آخری وقت تک لڑوں گا۔

اسی سیاسی ہنگامے میں دھمکی آمیز خط کا بھی خوب چرچا ہورہا ہے۔ اب فیصلے کے چند دن رہ گئے ہیں۔ شکست کس کی اور جیت کس کی، جلد پتہ چل جائے گا۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں