ملک میں جاری سیاسی افراتفری اور اقتدار کی رسہ کشی میں بعض خبریں ایسی ہیں جنھیں شہ سرخیوں میں جگہ ملنی چاہیے تھی اور ملکی میڈیا میں موضوعِ بحث ہونا چاہیے تھا، لیکن اس سیاسی گورکھ دھندے میں یہ خبریں کہیں پیچھے رہ گئی ہیں۔
گزشتہ دنوں بھارتی میزائل غلطی سے پاکستان کی حدود میں گرنے کا واقعہ پیش آیا تھا اور اسی دن سے دفاعی حلقوں کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ بھارت کو اپنے دفاعی نظام کو کڑے آپریشنز اور دیکھ بھال کے ساتھ معائنے کے آپریٹنگ طریقۂ کار کا بھی جائزہ لینا چاہیے جب کہ ہتھیاروں کے نظام کی حفاظت اور سیکیورٹی کے بارے میں بھی کئی سنجیدہ سوال بھی اٹھائے گئے تھے۔
یہ سوال بھی بنتا ہے کہ کیا بھارتی میزائل سسٹم واقعی محفوظ ہے، کیا اس کے لیے حفاظتی طریقۂ کار اور پروٹوکول اعلیٰ سطح کے ہیں؟
اکثر میزائل تجربات کے دوران بھارت کی ناکامی کی خبریں بھی آتی رہتی ہیں۔ کسی بھی ملک کی دفاعی صلاحیتوں کو جانچنے کے لیے یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس ملک کی میزائل ٹیکنالوجی کتنی مضبوط اور مستحکم ہے، کیونکہ میزائل ٹیکنالوجی کسی بھی ملک کے لیے وہی حیثیت رکھتی ہے جو جسم میں ریڑھ کی ہڈی کی ہوتی ہے۔
سال 1970ء میں تمام تر مشکلات اور چیلینجز کے باوجود پاکستان نے اپنا جوہری پروگرام شروع کیا جو مسلسل کام یابی اور ترقی کی منازل طے کررہا ہے جب کہ بین الاقوامی سیکیورٹی کے معیار پر بھی پورا اترتا ہے۔ فخر کے ساتھ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان نہ صرف دنیا میں ایک قابلِ بھروسا اور ذمہ دار جوہری طاقت کا حامل ملک ہے بلکہ ہمارے میزائل دنیا کے بہترین میزائل مانے جاتے ہیں۔
بلاشبہ یہ پاکستانی سائنسدانوں، انجنئیروں اور ٹیکنیشنز کی دن رات کی محنت اور لگن کی وجہ سے ممکن ہوا ہے اور میزائل ٹیکنالوجی میں پاکستان آج اپنے روایتی حریف بھارت پر برتری رکھتا ہے۔ پاکستان کے میزائل ٹیکنالوجی پروگرام نے کئی اتار چڑھاؤ دیکھے اور اندرونی اور بیرونی چیلنجوں کے ساتھ اس نے سیکیورٹی خدشات کا بھی سامنا کیا، لیکن آج میزائل ٹیکنالوجی میں پاکستان نے اپنے حریف کو کہیں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
سال 2017 میں پاکستان کے نام وَر سائنسدان نے فخر کے ساتھ یہ کہا تھا کہ پاکستان کے پاس ایک ایسا میزائل ہے جو امریکہ کے پاس بھی نہیں ہے جب کہ پاکستان کی میزائل ٹینکنالوجی امریکہ اور روس کے ہم پلّہ ہے۔
پاکستان اپنے میزائل پروگرام کو وسعت دینے کے لیے کسی بھی ملک کا محتاج نہیں ہے۔
’’بلیٹن آف دی اٹامک سائنسٹس‘‘ (Bulletin Of The Atomic Scientists) کی 9 ستمبر 2021 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے پاس 2025 تک 200 وار ہیڈ ہوں گے۔ امریکی سائنسدانوں کی فیڈریشن میں نیوکلیئر انفارمیشن پروجیکٹ کے ڈائریکٹر ہنس ایم کرسٹینسن اور این آئی پی کے ریسرچ ایسوسی ایٹ میٹ کورڈا نے کہا کہ ’ہمارا اندازہ ہے کہ اگر موجودہ رجحان جاری رہا تو 2025 تک پاکستان کا ایٹمی ذخیرہ 200 وار ہیڈ تک بڑھ سکتا ہے۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے پاس جوہری ہتھیاروں کا ذخیرہ تقریبا 165 وار ہیڈ ہے۔
اب نظر ڈالتے ہیں پاکستان کے کچھ اہم بلیسٹک اور کروز میزائل پر:
ابدالی (حتف II)
سال 2013 میں حتف دوّم ابدالی کا کام یاب تجربہ کیا گیا۔ یہ میزائل زمین سے زمین پر مار کرتا ہے۔ یہ شارٹ رینج میزائل ہے جس کی رینج 180 تا 200 کلومیٹر ہے اور یہ 250 تا 450 کلو گرام جوہری وار ہیڈ لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
غزنوی (حتف III)
یہ پاکستانی شارٹ رینج بیلسٹک میزائل ہے۔ اس کی رینج 300 کلومیٹر ہے۔ حتف تھری ایٹمی وار ہیڈ اور روایتی ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ایک ہی وار ہیڈ کو 700 کلو گرام تک 290 تا 300 کلومیٹر تک لے جا سکتا ہے۔
شاہین 1 (حتف IV)
اس شارٹ رینج بیلسٹک میزائل کی رینج 750 کلومیٹر تک ہے۔ یہ ہر طرح کا وار ہیڈ لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس میزائل سے پاکستان کی دفاعی مزاحمتی قوّت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
شاہین 2 (حتف VI)
درمیانے فاصلے تک مار کرنے والا یہ بیلسٹک میزائل ہر قسم کے ایٹمی اور روایتی وار ہیڈ لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ 1500 کلو میٹر تک اپنے ہدف کو باآسانی نشانہ بنا سکتا ہے۔
شاہین 3
یہ وہ بیلسٹک میزائل ہے جو سطح سے سطح تک ہر قسم کا وار ہیڈ لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور جس کی رینج 2،750 کلو میٹر ہے۔
شاہین تھری پاکستان کے اسٹریٹیجک ہتھیاروں میں سب سے لمبی رینج کا میزائل ہے۔
غوری (حتف V)
یہ درمیانے فاصلے کا بیلسٹک میزائل ہے۔ غوری بیلسٹک میزائل مائع ایندھن کا حامل ایک ایسا میزائل ہے، جو روایتی اور جوہری، ہر دو طرح کے وار ہیڈز کو 1300 کلو میٹر کے فاصلے تک لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
نصر (حتف IX)
اس ملٹی ٹیوب شارٹ رینج بیلسٹک میزائل کی رینج 60 تا 70 کلومیٹر ہے۔ یہ بھی جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت کا حامل ہے۔
ابابیل
ابابیل ’’زمین سے زمین تک مار کرنے والا بیلسٹک میزائل ہے جس سے 2200 کلو میٹر تک ہدف کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔‘‘ یہ میزائل ایک سے زائد اور جوہری اور دیگر ہتھیاروں سے لیس کیا جا سکتا ہے اور یہ میزائل کام یابی سے اپنے ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
اس میزائل کی خاص بات اس میں استعمال ہونے والی ایم آئی آر وی ٹیکنالوجی ہے جو ایک سے زیادہ اہداف کو بیک وقت نشانہ بنا سکتی ہے۔
درحقیقت یہ بھارتی دفاعی بیلسٹک نظام کا توڑ ہے۔ پاکستان نے نئے میزائل نظام میں ’’ملٹی پل، انڈیپنڈنٹ، ری انٹری وہیکل‘‘ ٹیکنالوجی استعمال کی ہے۔ سادہ ترین الفاظ میں اس ٹیکنالوجی کی یہ تشریح کی جاتی ہے کہ ایک ہی میزائل پر متعدد وار ہیڈ نصب کیے جاتے ہیں جو میزائل کے ایک مقررہ فاصلے پر پہنچنے کے بعد خود کار طریقہ سے، ایک یا ایک سے زائد اہداف کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔
بابر (حتف VII)
یہ اسٹیلتھ فیچر کروز میزائل 700 کلومیٹر دور تک اپنے ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ بابر ویپن سسٹم ون (بی) میں ایڈوانسڈ ایرو ڈائنامک اور ایوی یونک فنکشنز شامل ہیں جس کی بنا پر یہ میزائل پانی اور خشکی دونوں پر اپنے ہدف کو کام یابی کے ساتھ نشانہ بنا سکتا ہے۔ یہ کروز میزائل نچلی پرواز کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور ہر قسم کا وار ہیڈ اپنے ساتھ لے جاسکتا ہے۔
رعد (حتف VIII)
کروز میزائل رعد 350 کلو میٹر تک ہدف کو زمین اور سمندر میں نشانہ بنا سکتا ہے۔ میزائل نظروں سے اوجھل رہنے کی ٹیکنالوجی (اسٹیلتھ) سے لیس ہے اور ریڈار پر نظر نہیں آسکتا۔ 350 کلو میٹر تک مار کرنے کی صلاحیت رکھنے والا یہ رعد کروز میزائل ہر قسم کے جوہری اور روایتی ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ رعد کروز میزائل لڑاکا طیاروں ایف سولہ اور جے ایف 17 تھنڈر سے فائر کیا جا سکتا ہے، یہ زمین اور سمندر میں اپنے اہداف کو کام یابی سے نشانہ بنانے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔
حتف IX (نصر)
یہ پاکستانی شارٹ رینج بیلسٹک میزائل ہے۔ ’حتف نہم‘ سیریز کا نصر میزائل 60 کلومیٹر تک اپنے ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ یہ میزائل جوہری وار ہیڈز کو کام یابی کے ساتھ لے جانے کی بھی صلاحیت رکھتا ہے۔ نصر زمین سے زمین پر کم فاصلے تک ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔
حال ہی میں پاکستانی بحریہ کا تیار کردہ فاسٹ اٹیک کرافٹ میزائل پی این ایس ہیبت پہلا لینڈ مارک پروجیکٹ ہے، جسے میری ٹائم ٹیکنالوجیز کمپلیکس نے مقامی طور پر ڈیزائن کیا ہے، اسے میری ٹائم ٹیکنالوجیز کمپلیکس اور کراچی شپ یارڈ نے بغیر کسی غیر ملکی تکنیکی مدد کے بنایا ہے۔
اس سے پہلے میری ٹائم مشق سی سپارک 22 کے سی فیز کے اختتام پر پاک بحریہ کے فلیٹ یونٹس نے فائر پاور کے شان دار مظاہرے کے دوران شمالی بحیرۂ عرب میں اینٹی شپ میزائلوں اور تارپیڈو کی فائرنگ کے ذریعے حربی تیاری اور جنگی صلاحیت کا مظاہرہ کیا تھا اور ایئر پاور کے مظاہرے کے دوران پاک بحریہ کے سمندری جہاز، ہوائی جہاز اور آبدوز نے کام یابی سے اپنے اہداف کو نشانہ بنایا تھا۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ پاکستان کا میزائل پروگرام دنیا کے چند بہترین میزائل پروگراموں میں سے ایک ہے۔ پاکستان کے میزائل نہ اپنا ہدف بھولتے ہیں،نہ نشانہ، لیکن اس سے بھی بڑھ کر یہ بات اہمیت رکھتی ہے کہ پاکستانی افواج کے انجینیئر اور ٹیکنیشنز فرض شناس اور نہایت ذمہ دار ہیں جو اپنے ملک کی سرحدوں کا دفاع یقینی بنانے کے ساتھ اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ انھیں کس قدر حسّاس اور نازک ترین کام سونپا گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں جوہری ہتھیاروں اور میزائلوں کی آزمائش، دیکھ بھال اور حفاظت کا نظام کسی بھی قسم کی غفلت اور کوتاہی سے پاک ہے۔ پاکستانی فوج کے سائنسدان اور انجینئرز بھارت کی طرح اس لاپروائی کا تصوّر بھی نہیں کرسکتے کہ معمول کی دیکھ بھال کے دوران ایک میزائل پڑوسی ملک کی حدود پار کرجائے اور خطّے میں کشیدگی یا تصادم کا باعث بنے۔