بھارت کو نجانے کب یہ غلط فہمی ہوگئی کہ وہ خطّے میں اپنی بالادستی قائم کرتے ہوئے پاکستان اور چین کو بھی اپنی برتری تسلیم کرنے پر مجبور کر دے گا ۔ وہ کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن جیسے جنگی نظریہ پر بھی یقین رکھتا ہے جس کا مقصد کئی محاذوں پر غیر متوقع یلغار اور ایسے حملوں کے لیے بھارتی افواج کو ہر وقت مسلح اور ہر دَم تیّار رکھنا ہے۔ تاہم پاکستان کی افواج نے ہر بار اس کا منہ توڑ جواب دیا ہے۔
بھارت کے جنگی معاملات کے ماہرین کو یہ گمان بھی ہے کہ وہ کولڈ اسٹارٹ سے پاک فوج کو آٹھ محاذوں پر مصروف رکھتے ہوئے پاکستان کو ایٹمی آپشن کے استعمال سے روک سکتے ہیں۔ کولڈ اسٹارٹ دراصل ایک ایسا مفروضہ ہے جس کے مطابق پاکستان کو اچانک حملہ کر کے روایتی جنگ میں الجھا دیا جائے۔ تاہم سنہ 2004 میں ہی اس کے جواب میں پاکستان کے آرمی چیف نے بھارت کو کہا تھا کہ ہم تیّار ہیں۔ سرحدوں پر ہمہ وقت چوکنا اور ہر دم تیّار افواجِ پاکستان کی مستعدی اور کسی بھی جارحیت کا جواب دینے کی فوری صلاحیت کا دشمن کو خوب اندازہ بھی ہے۔ بھارت کو پاکستان نے ہمیشہ زمین پر، فضا میں اور گہرے پانیوں میں دندان شکن جواب دیا ہے۔
پاکستانی فضائیہ کے آپریشن سویفٹ ریٹارٹ نے بھارتی فضائیہ کے ہوش اڑا دیے تھے جب کہ پاکستان کی جانب سے مسلسل کام یاب بیلسٹک اور کروز میزائل کے تجربات بھارت کو یہ جواب دے رہے ہیں کہ ہم زمانۂ امن میں بھی اپنی پیشہ ورانہ تربیت کے مطابق اپنی آزمائش اور دفاعی ضروریات سے غافل نہیں بلکہ ہر طرح خود کو جنگ کے لیے تیّار رکھتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ پاکستانی بحریہ کی اپنے سمندروں کی مسلسل اور کڑی نگرانی کی وجہ سے بھارتی آبدوزیں بھی اکثر نشانے پر آتی رہی ہیں جس نے ہمیشہ دشمن کا پاکستانی بحریہ پر آپریشنل برتری رکھنے کا دعویٰ سمندر برد ہی کیا ہے۔
مشہور ہے کہ روم کے جرنیل جولیس سیزر نے پُر خطر راستوں سے گزر کر پہاڑوں میں گھرے زیلہ کے مضبوط قلعے کو صرف چار گھنٹوں میں فتح کرلیا تھا اور تب اس نے لاطینی زبان میں جن الفاظ میں اپنی برق رفتاری اور فتح کو بیان کیا، وہ لازوال ثابت ہوئے۔ اس نے کہا تھا، ’’میں آیا، میں نے دیکھا اور میں چھا گیا۔‘‘
سیزر کے یہ الفاظ جنگی میدان میں ‘برق رفتار اور حتمی’ جیت کا اشارہ سمجھے جاتے ہیں۔ بھارت کے کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن کے پس منظر میں دیکھیں تو پاکستانی افواج کی اسٹریٹجک پالسیی سے صاف نظر آتا ہے کہ انھوں نے ہر موقع پر اسی تصوّر اور جذبے کے تحت دشمن کو بڑھ کر پسپا کیا ہے۔
اب ذرا بھارتی آبدوزوں پر بات کرتے ہیں، جو اکثر پاکستان کی سمندری حدود میں جاسوسی کے لیے داخل ہوتی ہیں، لیکن پاکستانی بحریہ کے اینٹی میرین سب یونٹ کی کڑی نگرانی کے باعث انھیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
آبدوز پانی میں گہرائی میں سفر کرنے والی وہ جنگی کشتی ہوتی ہے جو سمندری حدود کی نگرانی کے مخصوص نظام سے اوجھل رہتے ہوئے پانی کے اندر سفر کرتے کرتے کسی بھی بحری جہاز اور اپنے ہدف کو نشانے پر لے کر اڑا سکتی ہے۔ آبدوز کا کام ہی یہی ہے کہ کسی کی نظروں میں آئے بغیر اپنا مشن مکمل کرے جب کہ آبدوز کی سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ اسے سمندر کی گہرائیوں میں ڈھونڈنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے کسی سوئی کو ڈھونڈنا۔ واضح رہے کہ آبدوز کو صرف بیٹری ختم ہونے کی صورت میں ہی سمندری سطح پر آکر چارج کرنا ہوتا ہے۔
یہ بات تو طے ہے کہ پاکستان میں امن اور سلامتی تو بھارت کو کسی طور قبول نہیں، ساتھ ہی اسے پاکستان کا مضبوط دفاع بھی کھٹکتا ہے اور وہ پاکستان کی بڑھتی ہوئی عسکری طاقت سے بھی خوف زدہ ہے۔ یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ جب سے سی پیک منصوبہ شروع ہوا ہے بھارت کی بے چینی بڑھتی جارہی ہے کیونکہ سی پیک منصوبے سے پاکستان کا سمندر میں اثر و رسوخ بڑھے گا جسے بھارت قبول کرنے کے لیے تیّار نہیں ہے۔
بھارتی آبدوزیں گزشتہ چند سال سے پاکستانی سمندری حدود میں گھسنے کی ناکام کوششیں کررہی ہیں اور ہر بار انہیں پاکستانی بحریہ کے اینٹی سب میرین لانگ رینج سروائلنس جنگی طیاروں نے پکڑ لیا۔ یاد رہے کہ یہ جنگی طیارے پاکستانی بحریہ کے اینٹی میرین سب یونٹ کا حصّہ پی تھری اورین ہیں جو پاکستانی سمندری علاقوں کی نگرانی کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان کی جانب سے تیّار کردہ سسٹم اور ہیلی کاپٹر سے منسلک جدید اسنار سسٹم بھی نگرانی میں مددگار ہوتا ہے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق یکم مارچ 2022 کو پاک بحریہ نے اپنے سمندری زون میں ایک جاسوس بھارتی جدید ترین آبدوز کلوری کو قبل از وقت روکا، ٹریک کیا اور نقل و حرکت محدود بنا دی۔ پاک بحریہ کے اینٹی سب میرین وار فئیر یونٹ نے بھارتی آبدوز کا سراغ لگایا تھا۔
یہ ایسے وقت میں ہوا جب پاک بحریہ کی نیول مشق سی اسپارک -22 جاری تھی۔ بھارتی آبدوز پاکستان کی سمندری حدود میں جاسوسی اور مشق سے متعلق معلومات اکٹھی کرنے کے لئے آئی تھی۔ بھارتی آبدوز جدید اسلحہ اور ٹیکنالوجی سے لیس تھی۔ پاک نیوی نے آبدوز کا مسلسل تعاقب کیا اور اُسے پاکستانی سمندری حدود سے دور دھکیل دیا۔
واضح رہے کہ جب کوئی ملک سمندر میں لائیو ہتھیاروں کے ساتھ فائرنگ کا ارادہ رکھتا ہے، تو اس کے لیے عالمی سطح پر نوٹس جاری کرنا لازمی ہوتا ہے۔ ان نوٹسز میں علاقے کوآرڈینیٹ، ہتھیاروں کی اقسام اور ان کے اثرات کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔ یہ نوٹس بحری جہازوں کو اپنے راستوں کی منصوبہ بندی کرنے کے لیے کافی وقت فراہم کرتے ہیں تاکہ فائرنگ کی حدود کے قریب جانے سے بچ سکیں۔ اسی عالمی سطح پر تسلیم شدہ پروٹوکول کی پابندی پاکستان بحریہ نے فوری طور پر کی تھی۔
اس کے باوجود بھارتی بحریہ کی جانب سے زیر زمین آبدوز کی اس طرح کی غیر ذمہ دارانہ موجودگی اور خطرناک طور پر لائیو ہتھیاروں سے فائرنگ کی مشقوں کے دوران اس علاقے کے قریب ہونا، جاسوسی کی کوشش کرنا، یہ ثابت کرتا ہے کہ بھارتی بحریہ کی جانب سے کوئی بھی غلط اقدام کسی بڑے تنازعے کا سبب بن سکتا ہے اور اس کا خطّے کے امن و امان پر گہرا اثر پڑسکتا ہے۔
شمالی بحیرۂ عرب میں بھارتی آبدوزوں کا سراغ لگانا کوئی نئی بات نہیں۔ پاک بحریہ کا فضائی بازو یعنی پاکستان اینٹی میرین سب یونٹ ان ناکام بھارتی مہم جوئیوں کا عادی ہوچکا ہے۔
اس کے باوجود، سمندر میں غیر اعلانیہ مقابلوں کے لیے کوئی تحفظات نہ رکھنے والے فوجی آپریشنل اصولوں کو یکسر نظر انداز کرنا، سمندری حدود رکھنے والے ممالک کے لیے ہمیشہ ایک سنگین معاملہ رہا ہے۔ اس سے سمندر میں فوجی کارروائیوں کا محفوظ انعقاد اور آبی حیات کو سخت خطرہ ہے۔
بھارتی بحریہ کا پاکستان کے سمندروں میں یہ ایڈونچر غیر ضروری اور ان کی نان پروفیشنل اسٹریٹجک اپروچ کی نشاندہی کرتا ہے۔ ایسے واقعات واضح طور پر بھارتی بحریہ کے آپریشنل صلاحیتوں کے فقدان کی نشان دہی بھی کرتے ہیں۔
اس وقت بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگی محاذ پر خاموشی اور استحکام نظر آتا ہے جس کا مطلب ہے کہ دونوں ممالک کی جانب سے یہ کوشش ہے کہ ایک دوسرے کو کوئی ایسا موقع فراہم نہ کریں جس سے جنگ کی طرف بڑھنے کی نوبت آئے۔ تاہم پاکستان کے ساحل کے قریب آبدوزوں کی تعیناتی اور پھر پاکستان کی سمندری حدود میں جاسوسی کا عمل اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ بھارت یہاں امن کو اپنے جنون اور غیر ذمہ داری کے ہاتھوں کسی بحران سے دوچار کر دینا چاہتا ہے۔
پاکستان بھارت کے درمیان سیز فائر معاہدہ موجود ہے۔ آبدوز کا علم ہونے کے باوجود پاکستان نے تکنیکی طور پر اسے پاکستانی سمندر سے دھکیلا اور جارحانہ رویّہ اپنانے سے گریز کیا۔
پاکستان نے نہ صرف اس بار بلکہ اس سے پہلے بھی تحمّل کا مظاہرہ کیا اور ہر موقع پر کسی بھی بھارتی کشتی کو نشانہ نہیں بنایا۔
آئی ایس پی آر کے مطابق بھارت کی جانب سے پانچ سال میں چار مرتبہ پاکستان کی سمندری حدود میں داخل ہونے کی کوشش کی گئی جسے ہر بار پاکستانی بحریہ نے ناکام بنا دیا۔ یہ واقعات کچھ اس طرح ہیں۔
نومبر 2016
روسی ساختہ بھارتی 209 کلاس آبدوز کا پتہ 14 نومبر 2016 کو پاکستانی نیول ایوی ایشن نے لگایا تھا۔ اس آبدوز کی رفتار اٹھارہ ناٹس بتائی جاتی ہے۔ بھارت کی جانب سے اس کی تردید کی گئی تھی۔ تاہم پاکستان نے اس آبدوز کا سراغ لگانے کی ویڈیو ریکارڈنگ میڈیا کو دکھائی تھی۔
مارچ 2019
4 مارچ 2019 کو بھارت کی فرانسیسی اسکارپین (کلواری) کلاس آبدوز کا سراغ گوادر سے چھیاسی ناٹیکل دور پی سی اورین نے لگایا تھا۔ خبر کے مطابق اس فاصلے سے یہ آبدوز گوادر، پسنی، اورماڑہ پر میزائل حملہ کر سکتی تھی۔ بھارت نے روایت کے مطابق اسے بھارتی آبدوز تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔
اکتوبر 2021
اس سال پاکستانی ساحل سے کلوری کلاس کی ایک اور آبدوز کا سراغ لگایا گیا۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ جب بھارت کی آبدوز یا سب میرین کی نشان دہی کر لی گئی تو پاکستانی بحریہ نے اس کو بحیرۂ عرب میں پاکستان کی سمندری حدود میں داخل ہونے نہیں دیا تھا۔ اس آبدوز کی نشان دہی پاکستانی بحریہ کے لانگ رینج سمندری گشتی یونٹ نے کی تھی۔
یکم مارچ 2022
رواں سال چوتھی مرتبہ، ایک اور کلوری آبدوز کا پاکستانی سمندری علاقے کے اندر سراغ لگایا گیا۔ اس وقت پاک بحریہ کی بحری مشقیں، SEASPARK، جاری تھیں، اور توقع کی جارہی تھی کہ بھارتی بحریہ کی جانب سے اس طرح کا مس ایڈونچر کیا جاسکتا ہے۔ بھارتی آبدوزوں کا پتا لگانا اور ان کا پاکستانی بحریہ کے ٹارگٹ پر ہونا دراصل پاکستانی فوج کے پروفیشنل ازم اور انجینیئروں کی پیشہ وارانہ مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
9 مارچ 2022 کو پاکستانی حدود میں کروز میزائل فائر کرنے کے واقعے کے پیشِ نظر بھارت کا اپنے جنگی ہتھیاروں کی حفاظت اور ان کو سنبھالنے پر بھی ایک بڑا سوالیہ نشان تاحال موجود ہے۔
دوسری جانب بھارت سے جوہری مواد کی چوری معمول کے مطابق ہوتی رہتی ہے۔ SASSI کے مطابق، 1994-2021 کے درمیان، جوہری مواد کی چوری اور گمشدگی کے 18 واقعات ہوئے جس کی مقدار 200 کلو گرام یورینیم ہے۔
ماضی قریب میں کئی بھارتی آبدوزوں اور بحری جہازوں کے حادثات ہو چکے ہیں۔ بھارتی بحری جہاز Betwa ایک گودی (dock) کے اندر گرا، بھارتی آبدوز اریہانت تقریباً بندرگاہ کے اندر ڈوب گئی اور بھارتی آبدوز سندھو رکشک میں جہاز پر بڑی آگ لگی، اور دو سال بعد ڈوب گئی۔ 2014 میں بھارتی بحریہ کی ایک اور کلو کلاس آبدوز سندھو رتنا (Sindhuratna) پر آگ لگنے کا حادثہ پیش آیا جس میں بھارتی بحریہ کے دو سیلرز دَم گھٹنے سے ہلاک ہوئے۔
بھارتی نیوی کے بحری جہاز میں دھماکے میں بھی تین اہل کار ہلاک اور متعدد زخمی ہونے کی اطلاعات سامنے آئی تھیں جب آئی این ایس رنویر نامی یہ جہاز ممبئی میں بندرگاہ پر لنگرانداز تھا۔ بھارتی بحریہ کی جانب سے دھماکے کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی۔
جنگی ہتھیاروں کے بارے میں اس قدر غفلت اور غیر ذمہ داری اور معمول کی دیکھ بھال کے اتنے خوف ناک ریکارڈ کے ساتھ کوئی پوچھ سکتا ہے کہ ‘جنگ کو کون ترغیب دے رہا ہے’، اس کا واضح جواب ہوگا، بھارت۔
بھارتی بحریہ اپنے طویل مدت سے اسٹریٹیجک مسائل کو نظر انداز کر کے اس غلط فہمی کا شکار ہے کہ وہ پاکستانی بحریہ پر برتری رکھتی ہے جب کہ واقعات اور ان کی حقیقت کچھ اور ہی بتا رہی ہے۔ دوسری جانب پاکستانی بحریہ نے اپنے ستّر سال کے سفر میں نہ صرف اپنی سمندری حدود کا بھرپور دفاع کیا ہے بلکہ میری ٹائم سیکیورٹی چیلنجز جن میں تجارتی راہداریوں کو محفوظ بنانا، ریسکیو آپریشنز انجام دینا، سمندر کے راستے دہشت گردی، اسمگلنگ اور قزاقی کے واقعات کی روک تھام میں بھی نہایت ذمہ دار ثابت کیا ہے اور اس کا کردار قابلِ ستائش ہے۔