The news is by your side.

عمران خان کی حکومت عوام میں غیر مقبول ہورہی تھی، لیکن پھر ۔۔۔؟

پاکستان تحریک انصاف نے حکومت جانے کے بعد تین کامیاب عوامی جلسوں کی ہیٹ ٹرک مکمل کرلی ہے۔

پشاور اور کراچی کے بعد پی ٹی آئی کی سخت سیاسی حریف ن لیگ کے گڑھ لاہور میں ہونیوالے جلسے میں بھرپور پاور شو نے ایوان اقتدار میں تھرتھلی مچا دی ہے، کیونکہ یہ جلسے پی ٹی آئی کی حکومت جانے کے بعد کیے گئے ہیں اس لیے کوئی یہ شور بھی نہیں کرسکتا کہ اسکے لیے ریاستی مشینری کا بے دریغ استعمال کیا گیا ہے۔

ملک میں جب 2022 کا سورج طلوع ہوا تو غربت اور مہنگائی کے مارے عوام کیلیے امید کی کوئی نئی کرن اس نئے سال کے سورج میں نہیں تھی، عوام بدستور بدترین مہنگائی کا عذاب سہہ رہی تھی، اشیائے خورونوش غریب عوام کی دسترس سے دور ہوتی جارہی تھیں آئے دن بجلی، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ مہنگائی کے پروں کو انرجی فراہم کرتا تھا، یہ حالات تھے کہ اس وقت کی عمران خان حکومت کے وزرا بھی بڑھتی مہنگائی سے پریشان ہوچلے تھے اور کابینہ اجلاسوں میں برملا اس بات کا اظہار کیا جاتا تھا کہ مہنگائی اپنی تمام حدیں کراس کرچکی ہے عوام کا جینا دوبھر ہوگیا ہے اور اگر یہی حالات رہے تو آئندہ الیکشن میں ان کا اپنے حلقوں میں عوام کے درمیان جانا مشکل ہوجائے گا اور پی ٹی آئی کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔

اس وقت سیاسی منظر نامے پر آج کل کی طرح سیاسی ہلچل نہیں تھی۔ پی ڈی ایم گوکہ اپوزیشن کر رہی تھی اور اس نے مہنگائی کے بیانیے کو بھی اپنایا تھا لیکن عوام نے اس کے بیانیے کو مسترد تو نہیں کیا لیکن لبیک کہہ کر اپوزیشن کی صفوں میں بھی شامل نہیں ہوئی۔

بڑھتی مہنگائی اور اس پر سابق وزیراعظم کے چند قریبی وزرا کے زخموں پر نمک چھڑکتے بیانات نے خاموش عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز کرنا شروع کر دیا تھا اور عام محافل، پبلک ٹرانسپورٹ، بسوں، ٹرینوں، ہوٹلوں، دکانوں، بازاروں، دوست یاروں کی بیٹھکوں میں صرف ایک ہی مسئلہ مہنگائی زیر بحث ہوتا تھا اور لوگ ملبہ ڈال رہے تھے عمران خان کی نااہلی اور کابینہ پر۔

ان بیٹھکوں اور غیر رسمی باتوں میں پریشان حال عوام پی ٹی آئی حکومت پر تبرا بھی بھیجتی رہی اور نالاں بھی رہی کہ عمران خان جو وعدے کرکے اقتدار میں آئے وہ پورے نہیں ہورہے بلکہ عوام جو پہلے ہی غربت ومہنگائی کے مارے تھے ان کو مزید مہنگائی کی دلدل میں اتار کر بے سہارا چھوڑ دیا گیا ہے۔

یہ سب ایسے ہی چل رہا تھا اور شاید کچھ وقت تک چلتا رہتا اور آئندہ سال ہونے والے انتخابات میں پی ٹی آئی اس عوامی بے اعتنائی کا خمیازہ اس وقت کے حالات کے مطابق آئندہ الیکشن میں متوقع ناکامی کی صورت میں چکھ بھی لیتی لیکن پھر ایسا ہوا کہ اپوزیشن حلقوں میں یوٹرن خان کے نام سے مشہور عمران خان کی غیر مقبولیت کو یوٹرن مل گیا اور آج عمران خان صرف ملکی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر مقبولیت کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔

تحریک عدم اعتماد کے نام پر ماضی کی دشمن نما حریف سیاسی جماعتوں کا اکٹھ ہوا تو عوام نے یہ مناظر دیکھے کہ ماضی میں ایک دوسرے کیلیے گالیاں نکالنے والے، سڑکوں پر گھسیٹنے اور پیٹ پھاڑ کر کرپشن کا پیسہ نکالنے، ایک دوسرے کو کرپشن کا بادشاہ کہنے والے ایک دوسرے کو درویش صفت کہتے ہوئے آپس میں بغلگیر بھی ہوئے، جب ایک شخص کے خلاف تمام سیاسی دشمنوں کو اکٹھا ہوتے دیکھا تو عمران خان حکومت سے بیزار عوام کی سوچ میں بھی تبدیلی آنے لگی اور یہ تبدیلی کا ہی مظہر ہے کہ آج عمران خان ملک بھر میں بھرپور پاور شو کررہے ہیں۔

پاکستان میں جمہوری حکومتوں کے قبل از وقت خاتمے کی طویل تاریخ ہے لیکن یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ یہاں حکومت کے جانے پر مٹھائیاں بانٹی گئی ہیں اور اگر احتجاج بھی ہوا تو محدود پیمانے پر لیکن عمران حکومت کے خاتمے پر چشم فلک نے یہ نظارہ دیکھا کہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے ان ممالک میں جہاں پاکستانی بستے ہیں وہاں عوام نکلی اور خوب نکلی۔

عمران خان نے عوام کے جوش وجذبے کو دیکھتے ہوئے عوامی رابطہ مہم کا اعلان کیا اور ‘امپورٹڈ حکومت نامنظور’ کا نعرہ مستانہ لگاتے ہوئے پہلے مرحلے میں پشاور، کراچی اور لاہور میں جلسوں کا اعلان کیا اور اس بلاگ کے لکھے جانے تک تینوں جلسے ہوچکے اور بھرپور انداز میں ہوئے۔ شاید عمران خان اور پی ٹی آئی کے دیگر رہنماؤں کی توقعات سے زیادہ کامیاب ہوئے ہیں جس کا اظہار وہ اپنے بیانات میں بھی کر رہے ہیں۔

پی ٹی آئی کے جلسوں کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حکومتی کیمپ میں سے کسی نے اب تک اسے حسب سابق جلسی یا ناکام جلسہ نہیں کہا بلکہ بیان آیا بھی ہے تو یہ کہ عمران خان عوام کو بیوقوف بنا رہے ہیں۔

عمران خان اپنے جلسوں میں ایک ہی مطالبہ لے کر چلے ہیں کہ فوری طور پر نئے الیکشن کا اعلان کیا جائے اور لاہور میں انہوں نے عوام کو تیار رہنے کی ہدایت کی ہے کہ وہ اب اسلام آباد جانے کی کال دیں گے اگر ایسا ہوا تو کیا پھر 2014 کی تاریخ دہرائی جائیگی؟

بہرحال عمران خان کے جلسوں کی کامیابی اور ملک و بیرون ملک پذیرائی دیکھ کر حکومت جو کہ خود بھی قبل از وقت الیکشن کی خواہاں ہے لیکن اس کیلیے پریشانی کا سبب اس وقت کسی بھی سیاسی لیڈر کے مقابلے میں عمران خان کی آسمان کو چھوتی مقبولیت ہے اور حکومتی حلقوں میں یہ سوچ موجود ہے کہ موجودہ حالات میں اگر الیکشن کا اعلان ہوتا ہے تو شاید پی ٹی آئی پہلے سے زیادہ بھرپور طاقت کے ساتھ اقتدار میں آجائے اس لیے حکومت دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر عمل کرنا چاہتی ہے اور سمجھتی ہے کہ وقت کے ساتھ عوامی جذبات جھاگ کی طرح بیٹھ جائیں گے، اب یہ وقت ہی بتائے گا کہ یہ عوامی جذبات حقیقی ثابت ہوتے ہیں یا صابن کے جھاگ کی طرح وقتی اس کیلیے ہمیں اور آپ کو بھی انتظار کرنا ہوگا۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں