The news is by your side.

پی این ایس ہیبت: پاکستان نیوی کا خود انحصاری اور مضبوط دفاع کی جانب ایک اورقدم

پاکستان کا مقامی سطح پر ڈیزائن کردہ میزائل بوٹ لانچ کرنا بلاشبہ میری ٹائم انڈسٹری کی جیت ہے۔“ یہ جنوب ایشیائی دفاعی صنعت کے معروف مبصر Miguel Miranda کا تبصرہ ہے جو انھوں نے پاکستان نیوی کے مقامی طور پر تیار کردہ فاسٹ اٹیک کرافٹ میزائل پی این ایس ہیبت کی کمیشننگ پر کیا۔ وہ 1st Century Asian Arms Race کے بانی بھی ہیں اور ان کا یہ ادارہ ڈیفنس انڈسٹری سے متعلق آن لائن وسائل کی فراہمی کے لیے مشہور ہے۔

پی این ایس ہیبت پاکستان کی پہلی میزائل بوٹ ہے جو پاکستان نیوی پاکستان میری ٹائم ٹیکنالوجی اور کراچی شپ یارڈ کی مشترکہ کوششوں سے تیار کی گئی ہے۔ پی این ایس ہیبت عظمت کلاس سیریز کی فاسٹ بوٹ ہے۔ عظمت کلاس کی پہلی بوٹ 24 اپریل 2012 میں پاکستان نیوی میں کمیشن کی گئی تھی۔ یہ بوٹ چین اسٹیٹ شپ بلڈنگ کارپوریشن اور شن گانگ (Xingang) شپ یارڈ چین میں تیار کی گئی تھی۔ عظمت کلاس سیریز کی دوسری بوٹ پی این ایس دہشت 12 جون 2014 میں پاکستان نیوی میں کمیشن کی گئی۔ یہ بوٹ کراچی شپ یارڈ میں تیار ہوئی تھی اور تیسری بوٹ پی این ایس ہمّت تھی جو 29 جولائی 2017 میں پاکستان نیوی میں کمیشن کی گئی۔ اسے بھی کراچی شپ یارڈ میں تیار کیا گیا تھا۔

31 مارچ کو پاکستان نیوی میں کمیشن کی گئی عظمت کلاس سیریز کی پی این ایس ہیبت کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ میری ٹائم ٹیکنالوجی میں تیار کی گئی ہے۔ اس کا مجموعی وزن 630 ٹن ہے اور اس کی اسپیڈ 30 ناٹس ہے۔ پی این ایس ہیبت ایک ایسی میزائل بوٹ ہے جس پر نصب کیا گیا میزائل سسٹم بھی پاکستان میں مقامی ساختہ حتف سیریز کا میزائل ہے۔ اس پر 76 ایم ایم گنز نصب کی گئی ہیں۔ اس کی ایک اور خاص بات مقامی ساختہ ایںٹی شپ حربہ میزائل کا لانچ ہے جو سب سانک کروز میزائل ہے۔ یہ نہ صرف سمندر بلکہ سطح سے بھی اپنا ٹارگٹ لے سکتا ہے جس کی رینج 280 کلو میٹر اور اسپیڈ 0.6 میک تا 0.8 میک ہے۔

پی این ایس ہیبت کو پاکستان کے سمندری چلینجوں اور موسم کو دیکھتے ہوئے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ اس فاسٹ اٹیک کرافٹ میزائل بوٹ میں لانگ رینج ریڈار ایئر ڈیفنس سسٹم اور ایئر گن بھی موجود ہے۔

اس کی دفاعی استعداد پر تبصرہ کرتے ہوئے بھارتی دفاعی تجزیہ کار ابھیجیت آئیر مترا کا کہنا ہے کہ بحری صلاحیتوں کے لحاظ سے پی این ایس ہیبت کا ڈیزائن اور اینٹی گریٹڈ سسٹم مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

پی این ایس ہیبت سے متعلق گلوبل ڈیفنس انسائٹ کے ایڈیٹر عمیر اسلم کا کہنا ہے کہ پاکستان نیوی کا ڈیزائن کردہ یہ جہاز دفاعی صلاحیتوں میں اضافہ کرے گا اور مقامی ساختہ حربہ اینٹی شپ اور لینڈ اٹیک کروز میزائلوں سے لیس یہ فاسٹ کرافٹ سمندری حدود کے دفاع میں اہم کردار ادا کرے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ موجودہ پاکستان اپنی بحری صلاحیتوں میں اضافہ کرنے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ چین اسے نئے فریگیٹس فراہم کررہا ہے۔ ترکی ملجیم کلاس کارویٹ اور دیگر بحری جہاز بھی فراہم کرتا رہا ہے۔ پی این ایس ہیبت کی بدولت پاکستان نیوی مستقبل میں فریگیٹس اور کارویٹس جیسے مزید جدید پروگراموں کو آگے بڑھانے قابل ہوگی۔

لیکن کیا پاکستان نیوی کا دفاع کے شعبے میں خود انحصاری کی جانب قدم بڑھانا اتنا آسان تھا؟ اس سلسلے میں ماہرِ‌ بحری امور، ریٹائرڈ کموڈور سیّد محمد عبیداللہ نے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نیوی کا Indigenous development یعنی خود انحصاری کا جو پروگرام شروع ہوا وہ 1965 کی جنگ کے فوری بعد شروع ہوا۔ کیوں کہ اس جنگ میں ہم امریکہ کے حلیف تھے لیکن امریکہ نے اس جنگ کے نتیجے میں پاکستان پر پابندیاں لگا دی تھیں اور اس وقت سے پاکستان نے مغرب کے ساتھ مشرق کی طرف بھی دیکھنا شروع کر دیا تھا۔

ستّر کے اوائل کے شروع میں ہی بلکہ 68 یا 69 میں ہی پاکستان نیوی نے سب سے پہلے اپنی سب میرین کی ری بلڈ شروع کی۔ یہ پاکستان کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج تھا اور اس چیلنج کو پاکستان نیوی نے بڑی خوش اسلوبی سے نبھایا۔ آج پچاس سال ہوگئے کہ سب میرین کی ری بلڈ پاکستان کے اندر، پاکستان نیوی ڈاکیارڈ کے اندر پچھلے پچاس سال سے جاری ہے۔ اور یہ ری بلڈ ہوائی جہاز اور ٹینک کے ری بلڈ سے سو گنا زیادہ مشکل اور پیچیدہ ہے۔

اللہ کا شکر ہے کہ ہم کام یابی سے اپنی سب میرینز کو یہیں پاکستان میں ری فٹ کرتے رہے اور انتہائی کامیابی سے یہ کام جاری رہا اور اس کے بعد ایک اسٹیج آئی کہ ہم نے سب میرین کی کنسٹرکشن بھی پاکستان نیوی میں شپ یارڈ کی مدد سے کی اور پی این ڈاکیارڈ کی مدد سے کی اور اب اس کام یابی کو بھی بیس سال سے زیادہ ہوگئے ہیں۔

انھوں نے مزید بتایا کہ کسی بھی نیوی کا مین اسٹیک ہوتا ہے، وہ اس کے جہاز ہوتے ہیں تو پاکستان نیوی نے شپ یارڈ اور ڈاکیارڈ کی مدد سے نئے جہاز بنانا شروع کیے اور یہ جہاز وہی تھے جو چین کے ساتھ ٹرانسفر آف ٹیکنالوجی کی بدولت یہاں بنے۔

ہیبت میزائل بوٹ کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ہیبت فاسٹ کرافٹ بوٹ جو بنائی گئی ہے یہ بہترین مثال ہے اس با ت کی کہ ہم نے پچھلے بیس تیس سال میں خود انحصاری کی طرف کتنا بڑا قدم اٹھایا اور جب بھی کسی سے کوئی چیز باہر سے خریدی چاہے وہ ترکی ہو چاہے چین یا کوئی اور ملک ہو، اس میں ٹرانسفر آف ٹیکنالوجی کو ہم نے ضرور مدنظر رکھا اور اس کو contractual obligation میں رکھا۔

اب یہ وقت آیا کہ ہم نے میزائل بوٹ ہیبت کو خود ہی ڈیزائن بھی کیا، اس کو خود ہی ریٹرو فٹ کیا، اس کو خود ہی ویپن اور سنسر کو خود ہی integrate کیا ہے۔ انھوں نے مزید بتایا کہ پی این ایس ہیبت میں ویپن اور سنسر باہر سے آکر لگنا تھے تاہم کووڈ کی وجہ سے ماہرین نہیں آسکے اور یہ چیلینج شپ یارڈ کو ملا اور انھوں نے لبیک کہتے ہوئے سارے وہ کام کیے جو پہلے نہیں کیے تھے اور ہیبت میزائل بوٹ کو تیار کیا۔

ہیبت میں جو میزائل لگے ہوئے ہیں یہ ہمارے پرانے میزائلز سے کہیں زیادہ رینج کے میزائل ہیں، انھیں میری ٹائم ٹیکنالوجیکل نے ڈیزائن کیا ہے جو پاکستان نیوی کا حصّہ ہے جب کہ اس کی کام یاب فائرنگ نے یہ ثابت کردیا کہ یہ میزائل بوٹ جو ہے، یہ خود انحصاری کے ہمارے ہدف کا ایک شاہکار ہے۔ اںھوں نے پاکستان نیوی کے مستقبل کے منصوبوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نیوی نے پاکستان نیوی نے آٹھ سب میرینز کانٹریکٹ کی ہیں۔ کئی سال سے چین کے ساتھ ہماری سب میرین کنسٹرکشن ہورہی ہے، ان میں سے پہلی دو سب میرینز کنسٹرکشن کے بڑے ایڈوانس اسٹیج پر آگئی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ چار سب میرینز چین میں بننی ہیں اور چار جو ہیں، کراچی شپ یارڈ میں بننی ہیں، ان میں سے پہلی سب میرین کی اسٹیل کٹنگ ہوچکی ہے، اس کا سنگ بنیاد رکھا جاچکا ہے۔ یہ پاکستان کے لیے بہت بڑا بریک تھرو ہے اور یہ سب میرینز بہت ہی ماڈرن equipment کے ساتھ ہوں گی اور یہ ہر طرح کے میزائل فائر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہوں گی۔

انھوں نے پی این ایس ہیبت کے مستقبل کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ نہ صرف پاکستان نیوی کے لیے بلکہ ہمارے لیے یہ ایک بہترین موقع ہے کہ ہم اسے ایکسپورٹ بھی کرسکتے ہیں۔ کیونکہ یہ اسٹیٹ آف دی آرٹ ہے اور دنیا میں کہیں بھی اس طرح کی کنسٹرکشن جو ایسے میزائل بوٹ کی ہوئی ہے اس کے ٹکر کی ہے اور عالمی سطح کی ہے تو میں یہ دیکھتا ہوں کہ یہ ایکسپورٹ کے لیے بھی تیار ہوسکتی ہے۔

خطے کی مختلف نیویز کی اسٹریٹجی پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ چاہے رشین بلاک والے ہوں یا امریکی بلاک والے ہوں سب نے سبق سیکھ لیا ہے کہ جب تک وہ خود انحصاری کی طرف نہیں بڑھیں گے، اپنا دفاعی ساز و سامان خود تیار نہیں کریں گے تو ظاہر ہے دوسرے کے رحم و کرم پر اور ان کے محتاج رہیں گے۔

اگر بیرونی امداد یا تعاون کا سلسلہ کسی بھی وجہ سے کسی بھی وقت بند ہوجائے جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں پاکستان میں، ہم نے لیز پر لیے ہوئے تھے، ہم پر پریسلر ترمیم لگی تو ہماری فلیٹ کے ساٹھ فیصد جہاز واپس لے لیے گئے جس سے بہت بڑا دھچکا لگا تھا۔ مگر اس سے ہم نے سبق حاصل کیا اور اس کے بعد ہم نے diversification بھی کی اپنے سورس پر اور ساتھ ساتھ خود انحصاری کی جانب قدم بڑھاتے جارہے ہیں۔ ہماری تینوں افواج وار مشینری کو بنانے میں خود کفیل ہوتے جارہی ہیں اور اللہ کا کرم ہے کہ ہم نے جو اپنی خود انحصاری کا ٹارگٹ رکھتے ہوئے جو کامیابیاں حاصل کی ہیں وہ دنیا کی بہترین کامیابیوں میں سے ایک ہے جن میں ہمارے اداروں نے بھرپور شرکت کی ہے اور بہترین نتائج برآمد کیے۔ انھوں نے سیکنڈ اسٹرائیک(سمندر سے ایٹمی میزائل داغنے کی صلاحیت) کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم دنیا کے ٹاپ سات ملکوں میں شامل ہیں جن کے پاس سیکنڈ اسٹرائک صلاحیت موجود ہے اور ہم کو اس پر فخر ہے۔

پاکستان نیوی کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ہم خاموشی سے اپنا کام مکمل سو فیصدی پروفیشنل طریقے سے کرتے ہیں اور ہماری جو صلاحیت ہے اس میں ہم کسی سے کم نہیں ہیں۔

یہ بات ٹھیک ہے کہ عددی لحاظ سے ہمارے دشمن بھارت کو ہم پر برتری ہے، ابھی بھی فور از ٹو ون ( ایک سے چار) کا ریشو ہے اگر ہم بھارتی نیوی اور پاکستان نیوی کو دیکھیں اور یہ عددی برتری ان کے پاس آج سے نہیں 1947 سے ہے لیکن یہ بات بھی واضح ہے کہ پاکستان نے کبھی عددی بنیاد پر جنگ نہیں لڑی، پاکستان نے اپنی ٹریننگ سے اپنی پروفیشنلزم سے اور سب سے بڑھ کر اپنے جذبے اور اللہ پر یقین رکھتے ہوئے جنگ لڑی ہے اور پاکستان نیوی ہر محاذ پر سرخرو رہی ہے اور آئندہ بھی پاکستان نیوی قوم کو مایوس نہیں کرے گی۔

ایک جانب پی این ایس ہیبت مقامی ڈیزائن اور تعمیر کے نئے دریچے وا کررہا ہے تو وہیں دوسری جانب سمندری دفاع میں پاکستان نیوی کی صلاحیتوں کو مزید مضبوط کرے گا اور وہیں پی این ایس ہیبت کی مقامی کنسٹرکشن کا ایک اور مثبت پہلو یہ ہے کہ اس کی ایکسپورٹ سے پاکستان کو عالمی میری ٹائم انڈسٹری میں ایک اور بڑا بریک تھرو ملے گا جب کہ زر مبادلہ بھی ملے گا۔

امید ہے کہ مستقبل میں بھی ہمیں پاکستان نیوی کی خود انحصاری پر مبنی دفاعی حکمت عملی کی مزید مثالیں دیکھنے کو ملیں گی۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں