The news is by your side.

ریاست اور فوج مخالف ٹرینڈز اور ففتھ جنریشن وار فیئر

سوشل میڈیا پر ریاست اور پاکستانی فوج کے خلاف ٹرینڈز اور پروپیگنڈہ مہم ملک دشمن عناصر اور مفاد پرست گروہوں کی جانب سے چلائی جاتی رہی ہے جس کی باشعور عوام اور ہر محب وطن شہری کی جانب سے مذمت کی جاتی رہی ہے۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ اب سوشل میڈیا کو استعمال کر کے کسی بھی قوم کی نظریاتی اساس کو کمزور اور اسے مسلکی اور لسانی طور پر تقسیم کر کے ریاست اور اس کے اداروں کے سامنے کھڑا کرنا اس جنگ کا حصّہ ہے جس میں دشمن فوج اور گولہ بارود کی ضرورت نہیں‌ ہوتی۔

اس جنگ کے ہتھیار یا پراکسیز ٹی وی، ریڈیو، پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا جس کے صارفین کی اکثریت کو علم ہی نہیں‌ ہوتا کہ وہ کسی پروپیگنڈہ مہم کا حصّہ بن رہے ہیں۔ یوں شہری اپنی ریاست اور ملک کے خلاف ہی استعمال ہونے لگتے ہیں۔ اس جنگ کا خطرناک پہلو یہ ہے کہ اس سے شہریوں میں ذہنی خلفشار اور احساسِ عدم تحفظ پیدا کیا جاتا ہے۔

کہا جاسکتا ہے کہ کسی بھی مقصد کے تحت ایک قوم پر نفسیاتی برتری حاصل کرکے اس کی ذہن سازی کی یہ ایسی جنگ ہے جس میں دشمن اپنی طاقت کے تمام تر ممکنہ ذرائع استعمال کر کے حملہ آور ہوتا ہے لیکن اپنی عسکری طاقت کا استعمال محدود رکھتا ہے۔ اس جنگ میں دشمن نظریاتی، ثقافتی اور ہر اعتبار سے میڈیا کو استعمال کر کے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کی کوشش کرتا ہے۔

جامعہ کراچی میں ہونے والے خود کش حملہ کی ذمہ دار شاری بلوچ اس کی ایک مثال ہے جو مسلسل پروپیگنڈہ اور برین واشنگ کی وجہ سے ہی اس نہج پر پہنچ گئی تھی جہاں اس نے اپنی جان دینے کو اپنے بیانیے کی جیت سمجھا۔

اس خطرناک جنگ کو ففتھ جنریشن وار فیئر یا ہائبرڈ وار فیئر کہا جاتا ہے۔ لیکن اس سے پہلے کہ ہم بیانیے کی اس جنگ پر بات کریں مختصراً فرسٹ جنریشن وار فیئر سے فورتھ جنریشن وار فیئر پر نظر ڈال لیتے ہیں۔

فرسٹ جنریشن وار فیئر کو دورِ حرب و عضب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ انسان کی جنگی تاریخ بھی اس کی پیدائش کے ساتھ ہی شروع ہوتی ہے۔ انسان نے سب سے پہلا ہتھیار اپنے مضبوط جسم کو بنایا اور اسے حملے یا اپنے دفاع کے لیے استعمال کیا۔

اپنی جسمانی طاقت کو بڑھانے کے لیے انسان نے پتھر (اینٹ، کنکر) دھات (چھری، چاقو، تلوار اور تیر کمان) سے کام لینا شروع کیا۔ انسان کو جنگ لڑنے میں مدد دینے اور اسے طاقت ور بنانے میں گھوڑے اور ہاتھی بھی شامل ہوگئے۔ اس فرسٹ جنریشن وار فیئر میں انسانی طاقت اور فوجی دستوں کی عددی برتری کو کام یابی کا اصول سمجھا جاتا تھا۔

جیسے جیسے انسانی ترقی کا سفر ہوتا رہا ویسے ویسے جنگی ماڈل بھی تبدیل ہوتے رہے۔ انسانی طاقت اور فوجی دستوں کے ساتھ کام یابی کے لیے طاقت ور ہتھیاروں کا استعمال شروع کیا گیا جن میں گولہ بارود، توپ، رائفل اور مشین گن وغیرہ شامل تھے۔ عددی طاقت کے بجائے ہتھیاروں کی طاقت پر لڑنے والی ان جنگوں کو ٹیکنالوجی کی جنگ جب کہ سیکنڈ جنریشن وار فیئر کہا جاتا ہے۔

امریکی پروفیسر رابرٹ جے بنکر نے اپنے تحقیقی مقالے میں تھرڈ جنریشن وار فیئر کے بارے میں لکھا کہ یہ وار فیئر جنگی آئیڈیاز یا پھر جنگی چالوں کی بنیاد پر شروع کی گئی۔ اس ماڈل میں دشمن کو اپنی مختلف حکمت عملی اور چالوں سے چابک دستی سے مات کیا جاتا ہے اور یہی وہ جنریشن ہے جس میں ایئر کرافٹس کا استعمال بھی شروع ہوا۔

تھرڈ جنریشن وار فیئر بنیادی طور پر جہاز کی ایجاد کے بعد شروع کی گئی جس میں جہاز کی مدد سے افواج نے ایک دوسرے کے خلاف دور دراز تک حملے کی صلاحیت حاصل کی اور اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ دور جدید میں افواج کے پاس بہترین جنگی جہازوں کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔ جب کہ دور جدید کی جنگوں کے لیے فورتھ جنریشن وار فیئر کی اصطلاح کا استعمال کیا جاتا ہے۔

فورتھ جنریشن وار فیئر دور جدید کی وہ وار فیئر ہے جس میں دشمن اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے مختلف گروہوں کا استعمال کر کے ملک میں انارکی پھیلاتا ہے۔

پاکستان میں مختلف تنظیمیں دشمنوں کی آلۂ کار بن کر ملک کی سلامتی اور استحکام کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ ان کو فنڈنگ کہاں سے ہوتی ہے اور ان کے ماسٹر مائنڈز کو کہاں کہاں کس نے پناہ دے رکھی ہے، پاکستان نے سب ثبوت دنیا کے سامنے رکھے ہیں۔

اب بات کرتے ہیں ہائبرڈ وار فیئر کی ’ہائبرڈ وار فیئر‘ کی اصطلاح 21 ویں صدی کے اوائل میں اسٹریٹجک لغت میں داخل ہوئی حالانکہ اس سے پہلے بھی یہ وار فیئر ایک طویل عرصے سے مختلف ارتقائی شکلوں میں رائج تھی۔ ہائبرڈ وار فیئر میں اسٹریٹجک مقاصد کے حصول کے لیے غلط معلومات پھیلانا، پروپیگنڈہ، معاشی جبر، پراکسی ملیشیا کی پشت پناہی اور سائبر حملوں کا وسیع استعمال شامل ہے۔

آسان زبان میں اسے یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ اس جنگ میں دشمن تضادات کو ہوا دے کر کسی قوم کی صفوں میں بدنظمی اور غلط فہمیاں پیدا کرتے ہوئے ان کو اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کرنے میں‌ کام یاب ہو جاتا ہے۔ ففتھ جنریشن وار فیئر میں سب سے پہلے ملک میں خانہ جنگی یا پھر داخلی انتشار کی فضا قائم کی جاتی ہے۔ پھر اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔

جدید دور میں طاقتیں اپنے مخالفوں کو غیر مستحکم کرنے، ان کے حوصلے پست کرنے اور منتشر کرنے کے لیے ہائبرڈ جنگ میں مصروف ہیں۔ پاکستان کا سب سے بڑا دشمن بھارت تقسیم کے بعد سے مسلسل پاکستان کے خلاف ہائبرڈ وار فیئر میں مصروف ہے اور اس کا نشانہ پاکستان کی افواج اور ملک کی سلامتی ہے۔

پاکستان کے خلاف اس ہائبرڈ وار فیئر کے لیے بھارت کی جانب سے بھرپور فنڈنگ کی جاتی ہے۔ جب کہ پاکستان کا اٹامک پروگرام پاکستان کی افواج اور پاکستان کی سلامتی اس ہائبرڈ وار فیئر کا خصوصی ٹارگٹ ہیں۔ سوشل میڈیا پر پاکستان کے خلاف چلنے والے ٹرینڈز میں اکثریت کے تانے بانے بھارتی سرزمین سے ہی جاکر ملتے ہیں جس کی بدترین مثال میں ڈس انفو لیب کی طرف سے پاکستان مخالف بھارتی ڈس انفارمیشن مہم کا پردہ چاک کیا گیا تھا۔

دوسری جانب بھارت سفارتی سطح پر تخریب کاری کے ذریعے مسلسل اس کوشش میں ہے کہ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف گرے لسٹ سے نکال کر بلیک لسٹ میں ڈال سکے۔ تاہم پاکستان کے خلاف بھارت کی ہائبرڈ جنگ جنوبی ایشیا کے استحکام کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔

جب پاکستان کے خلاف ہائبرڈ وار فیئر کی بات آتی ہے تو بھارت کا بنیادی مقصد پاکستان کو سیاسی اور معاشی طور پر غیر مستحکم رکھنا ہے۔ تاکہ مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کی طاقت کو بڑھنے سے روکا جاسکے جب کہ سیاچن اور سر کریک جیسے مسائل پر بھارت کی شرائط پر تصفیہ کرنے کے لیے پاکستان پر دباؤ ڈالا جاسکے۔

حقیقت ہے کہ بھارت نے مختلف سطحوں پر پاکستان کے خلاف ہائبرڈ وار فیئر کے لیے اپنا ہر ممکن ہتھیار استعمال کیا ہے اور کر رہا ہے۔ بھارت بالخصوص بھارتی مسلمانوں اور کشمیریوں میں یہ بیانیہ عام کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ پاکستان ایک ناکام ریاست ہے اور برصغیر پاک و ہند کی تقسیم بہت بڑی غلطی تھی۔ وہ یہ امیج بھی بنانے کی کوشش کررہا ہے کہ بھارتی مسلمان پاکستانیوں اور یہاں تک کہ بنگلہ دیشیوں سے بھی برتر ہیں۔ جب کہ اصل حالات یہ ہیں کہ وہاں مسلم اقلیت کو انتہا سے زیادہ تعصب کا سامنا ہے۔ چاہے وہ مسلمان بچیوں کے حجاب کا معاملہ ہو یا نماز کا یا پھر نوکریوں کا۔ مسلمانوں کو ہر جگہ سے اس معاشرے سے علیحدہ کیا جا رہا ہے۔

پاکستان کے خلاف ہائبرڈ وار بھارت کی سیاست کو بھی بہت سوٹ کرتی ہے بالخصوص انتخابات کے موقع پر یہاں تک کہ ہندوتوا کے نشے میں دھت بی جے پی بھی اسی حکمت عملی سے کام لے کر اقتدار میں آئی جس کی مثال پلوامہ فالس فلیگ آپریشن ہے۔

بھارت نے یہ بیانیہ بھی عام کیا ہے کہ اس نے پاکستان سے ہمیشہ اچھے تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی لیکن پاکستانی فوج تعلقات کو معمول پر نہیں آنے دیتی۔ اس کے علاوہ یہ پاکستانی فوج ہی ہے جو تنازع کشمیر کے حل کے لیے کوششوں کی اجازت نہیں دے رہی ہے کیونکہ جب پاکستان اور بھارت صدر مشرف کے چار نکاتی فارمولے کی بنیاد پر حل نکالنے کے لیے بیک چینل ڈپلومیسی میں مصروف تھے تو یہ پاکستانی فوج ہی تھی۔ 2008 کا ممبئی حملہ کروایا گیا، اس کی حمایت اور فنڈنگ کی گئی جو کہ جھوٹ اور پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ ہے۔

اس طرح جب پاکستان کی بات آتی ہے تو پاک فوج کو ایک بڑے مسئلے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ بھارتی میڈیا میں پاکستان کے دفاعی اخراجات کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے جو کہ بھارت کے جنگی جنون کو دیکھتے ہوئے قطعی غیر منطقی ہے۔

بھارت پاکستان کی فالٹ لائنز یعنی بلوچستان اور سی پیک کا بھی فائدہ اٹھا رہا ہے۔ بھارت بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو طالبان کا حامی بتاتا ہے۔ یقیناً بھارت کا اصل مقصد ملک کے اندر بے چینی، تقسیم اور عدم استحکام پیدا کرکے پاکستان کو کمزور کرنا ہے۔

اس ہائبرڈ وار فیئر کے خلاف پاکستان کو ایک اچھی مربوط، مضبوط حکمت عملی کی ضرورت ہے تاکہ ہر پلیٹ فارم پر بھارت کا مقابلہ کیا جائے۔ پاکستان کو ملک میں سماجی اور سیاسی ہم آہنگی پر توجہ دیتے ہوئے اپنے خلاف جاری ہائبرڈ وار کی نوعیت کو سمجھنا ہوگا جو وقت کی اہم ضرورت ہے۔ خاص طور پر جب ایک بار پھر پاکستان میں دہشت گردی سر اٹھا رہی ہے اور اسی کے ساتھ عوام اور ریاستی اداروں کے درمیان ایک ان دیکھی خلیج پیدا کی جارہی ہے جو پاکستان کی سلامتی کے لیے مضر ہے۔

ہم ڈیجٹل دنیا میں رہتے ہیں جہاں معلومات تیزی سے پھیل جاتی ہیں۔ لہٰذا، ہمیں بھارت کے بیانیے کے جواب کی ضرورت ہے کہ ’مذاکرات اور دہشت گردی ایک ساتھ نہیں چل سکتے‘ لیکن بدقسمتی سے پاکستان ہمیشہ معذرت خواہانہ انداز میں کام کرتا ہے۔

میڈیا ممکنہ طور پر کسی بھی ریاست کا چہرہ ہو سکتا ہے لیکن پاکستان کے معاملے میں میڈیا کو کوئی پروا نہیں ہے اور میڈیا اور حکومت کے درمیان کوئی پالیسی پر مبنی بات چیت نہیں ہوتی جب کہ پاکستان کے پاس اتنے انگریزی نیوز چینلز نہیں ہیں کہ وہ پاکستان کی مثبت تصویر پیش کر سکیں۔

اس جنگ کا مقابلہ اکیلی ریاست یا افواج نہیں کرسکتیں۔ اس کے لیے عوام کی حمایت بھی بہت ضروری ہے۔ پاکستان کو درپیش اندرونی اور بیرونی چیلنجوں کو اب بہت سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے۔عوام کی محرومیوں کو ہمدردی سے سننا چاہیے، ان کو یہ اعتماد دینا چاہیے کہ ریاست یا حکومت ان کی مخالف نہیں ہے۔ میڈیا، سول سوسائٹی اور تعلیمی اداروں سمیت ہر فرد کو پاکستان کے خلاف بھارتی ہائبرڈ وار فیئر کا اجتماعی طور پر جواب دینا چاہیے۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں