The news is by your side.

کیا آصف زرداری کی ایک تیر سے دو شکار کی کوشش ناکام ہوگئی؟

پاکستان مسلم لیگ (ن) نے صوبۂ پنجاب اور اپنے سیاسی گڑھ لاہور میں ضمنی الیکشن میں بدترین شکست کا سامنا کیا اور پھر تختِ پنجاب بھی ان کے ہاتھ سے نکل گیا۔ موجودہ سیاسی صورتِ حال میں‌ تو وفاق میں بھی حکم رانوں کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوتا نظر آرہا ہے۔

انتخابی نتائج اور شکست کے بعد مسلم لیگ ن کی صفوں‌ میں اختلافات اور انتشار واضح ہوتا جارہا ہے۔ سربراہ عوامی لیگ شیخ رشید کے دعوؤں کے مطابق تو ن لیگ میں سے شین اور میم نہیں‌ نکل سکیں، لیکن ایسے ہی حالات رہے تو کہیں مسلم لیگ ن بھی لندن اور پاکستان کے نام سے دو گروہوں‌ میں نہ تقسیم ہوجائے جس طرح متحدہ قومی موومنٹ کو آج ایم کیو ایم پاکستان اور ایم کیو ایم لندن کے ناموں سے شناخت کیا جاتا ہے۔

ن لیگ جو ایک ملک گیر سیاسی جماعت ہے اور مخلتف ادوار میں وفاق اور صوبۂ پنجاب کی حکم راں رہی ہے، آج سیاسی میدان میں اس حال کو کیسے پہنچی؟ اس کی مختلف وجوہ ہوسکتی ہیں جن میں بعض سیاسی کمزریوں اور تنظیمی معاملات میں کوتاہیوں کے علاوہ لالچ اور بے صبری جیسے عناصر کو بھی نظرانداز نہیں‌ کیا جاسکتا۔ بعض سنجیدہ اور باشعور حلقوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر یہ کہا جارہا ہے کہ آصف علی زرداری نے ن لیگ کو حکومت کا لالچ دے کر وہاں پہنچا دیا ہے جہاں اسے صرف اور صرف مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

شکار کرنا انسان کی سرشت میں شامل ہے۔ سیاست وہ میدان ہے جس میں شکار ایک لیکن شکاری بہت سے ہوتے ہیں، لیکن یہاں وہی کام یاب ہوتا ہے جو انتہائی زیرک ہو اور اسے شکار کو پھنسانے کے لیے بہترین چارہ استعمال کرنا بخوبی آتا ہو۔

پنجاب میں وزارتِ اعلیٰ‌ کے منصب کے لیے سیاسی کھینچا تانی اور حکومت کی تبدیلی کے بعد اب ملک میں سیاسی ماحول خاصا گرم ہوچکا ہے اور تلخی بھی بڑھتی جارہی ہے۔ شہباز شریف کی اتحادی حکومت ساڑھے تین ماہ میں ہی اس دوراہے پر آ کھڑی ہوئی ہے جہاں ایک طرف کنواں ہے تو دوسری طرف کھائی۔ دورِ عمران سے شریف تک پہنچنے میں ملک میں کیا کچھ ہوا یہ سب نے اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھا۔ تحریک عدم اعتماد عمران خان حکومت کے خاتمے کی بڑی وجہ بنی اور سیاسی مبصرین کے مطابق اس تحریک کی سرخیل ایک ہی جماعت پیپلز پارٹی تھی اور اس کے پیچھے صرف سابق صدر آصف علی زرداری کی ذہانت کار فرما تھی۔

ایک وقت تھا جب آصف علی زرداری مسٹر ٹین پرسنٹ کے نام سے مشہور تھے اور بینظیر بھٹو شہید کے شوہر کی حیثیت سے سیاست کے میدان میں اترے تھے، لیکن بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد “ایک زرداری سب پر بھاری” کے مقبول نعرے نے ان کا یہ منفی تأثر زائل کر دیا۔ اس کے بعد وہ اپنے سیاسی رابطوں‌ اور فیصلوں کی وجہ سے سیاست کے میدان میں مفاہمت کے بادشاہ مشہور ہوئے اور ان کی یہ شہرت تاحال برقرار ہے۔

صوبۂ پنجاب آبادی کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ اسی لیے اسے سیاست میں انتہائی اہمیت حاصل ہے۔ قومی اسمبلی کے ممبران کی کل تعداد کا 50 فیصد سے زائد صوبہ پنجاب سے منتخب ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ پنجاب نے ہمیشہ حکومت سازی میں اہم کردار ادا کیا ہے اور یہاں سے اکثریت حاصل کرنے والی جماعت وفاق میں اقتدار میں آئی ہے۔ یوں مرکز میں‌ حکومت بنانے کے لیے کسی بھی سیاسی جماعت کا پنجاب میں‌ انتخابی فتح حاصل کرنا لازمی ہے۔

ماضی میں پنجاب سے پیپلز پارٹی بھی اکثریت حاصل کرتی رہی ہے۔ یہیں پیپلز پارٹی کی بنیاد ڈالی گئی تھی اور 1972، 1988، 1993 کے انتخابات میں پنجاب کا میدان مارنے پر ہی پیپلز پارٹی کو حکومت بنانے کا موقع ملا تھا۔ لیکن پھر اس جماعت کی سیاست نظریات سے نکل کر مفادات کے گرد طواف کرنے لگی اور جب نظریاتی کارکن بددل ہوکر پارٹی سے دور ہوگئے تو پیپلز پارٹی کی پنجاب پر گرفت بھی کمزور ہوگئی۔ سیاسی میدان میں اس کا بڑا فائدہ ن لیگ نے اٹھایا اور پھر گزشتہ انتخابات کے نتائج دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ پی پی پی کے خلا کو بالخصوص جنوبی پنجاب میں پی ٹی آئی نے پُر کیا ہے۔

1972، 1988، 1993 اور 2008 میں وفاق پر حکومت کرنے والی جماعت کا حال یہ ہوا ہے کہ 1996 کے انتخابات میں پی پی پی ملک بھر میں قومی اسمبلی کی صرف 18 نشستیں ہی حاصل کرسکی تھی۔ اس میں پی پی پی کو پنجاب سے ایک بھی قومی اسمبلی کی نشست پر فتح نہیں ملی تھی۔ 2002 کے الیکشن میں اس کے حصے میں 16 نشستیں آئی تھیں۔ 2008 کے الیکشن میں پی پی پی نے پنجاب سے قومی اسمبلی کی 45 نشستوں پر کام یابی حاصل کی تھی لیکن یہ الیکشن محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے فوری بعد ہوئے تھے اور عمومی رائے یہ ہے کہ اس وقت پی پی پی کو ہمدردی کا ووٹ پڑا تھا۔ 2013 کے الیکشن میں پی پی پی پنجاب سے قومی اسمبلی کی 141 نشستوں میں سے صرف 3 پر ہی کام یابی حاصل کر پائی۔ 2018 کے انتخابات میں بھی یہاں سے بھٹو کی پارٹی کی نشستوں کی تعداد صرف 6 رہی۔

اب اگر ان نتائج پر کوئی یہ رائے رکھتا ہے کہ مقتدر حلقوں کے آشیر باد کے بغیر کوئی اقتدار میں نہیں آتا اور پی پی پی کو جان بوجھ کر ان الیکشن میں کمزور کیا گیا تو اس کا سادہ سا جواب تو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ملک کے غیر جانب دار حلقے 1970 کے الیکشن کے علاوہ تمام الیکشن کو کم یا زیادہ جھرلو ہی کہتے ہیں۔ اگر مندرجہ بالا اعداد وشمار جھرلو الیکشن کا نتیجہ ہیں تو جن ادوار میں پی پی پی اقتدار میں رہی وہ اقتدار بھی تو انہی جھرلو انتخابات کی مرہون منت ہیں۔

پیپلز پارٹی صدر مملکت، وزارت عظمیٰ سے لے کر اقتدار اعلیٰ کے تمام عہدوں کا لطف اٹھا چکی ہے۔ مگر اقتدار نشہ ایسا ہے کہ جس کے منہ کو لگ جائے، وہ اس کے سرور میں رہنا پسند کرتا ہے۔ بات وہیں آجاتی ہے کہ اقتدار کی مسند تک پہنچنا ہے تو پنجاب کو فتح کرنا ہے، لیکن پنجاب پر اس وقت پی ٹی آئی اور ن لیگ کا غلبہ ہے۔ یہاں فی الحال پی پی پی کی دال گلتی نظر نہیں آرہی تھی، لیکن آصف علی زرداری نے اپنے سیاسی تدبّر اور قیاس آرائیوں کے مطابق “آشیر باد” سے ایک ایسا “کھیل رچایا” جس میں ان کی کام یابی کے امکانات کئی گنا بڑھ سکتے تھے۔

پیپلز پارٹی کو اس کے لیے بیک وقت دو محاذ سر کرنے تھے۔ یعنی پنجاب سے پی ٹی آئی اور ن لیگ کا صفایا۔ پی ٹی آئی کو اقتدار سے ہٹانا اور پھر ن لیگ کو وقتی طور پر اقتدار میں لانا اسی کھیل کا حصہ تھا۔ یہ تو واضح ہے کہ صرف پی ٹی آئی کے اقتدار کا خاتمہ پی پی پی کی منزل نہیں تھی کیونکہ اس کا متبادل پنجاب میں ن لیگ اور اس کا ووٹ بینک تھا۔ اس طرح دیکھا جائے تو یہ کہنا غلط نہیں‌ ہو گا کہ پی پی پی کی قیادت کی خواہش رہی کہ اس بھاری ووٹ بینک کو اگر ختم نہیں تو اس حد تک کم کردیا جائے کہ پی پی پی کا راستہ صاف ہوسکے۔ دوسری طرف گزشتہ حکومت کو درپیش سخت معاشی چیلنجز کا سامنا تھا جب کہ ملک میں آسمان سے باتیں کرتی مہنگائی، بیروزگاری عوام کو مارے ڈال رہی تھی۔ یہ وہ حالات تھے جس میں حکومت کی تبدیلی آسان تو تھی لیکن متبادل حکومت کے لیے ملک چلانا آسان ہرگز نہ تھا۔ آصف علی زرداری جانتے تھے کہ ان حالات میں کسی بھی سیاسی جماعت کا اقتدار میں آکر حکومت کرنا آسان نہیں ہوگا، بلکہ بدترین معاشی حالات اور بڑھتی مہنگائی سے اس کی سیاسی مقبولیت ختم نہیں‌ تو اس کا گراف تیزی سے نیچے ضرور جاسکتا ہے۔ یہ وقت سیاسی چال چلنے کے لیے انتہائی مناسب تھا۔

واقفانِ حال کہتے ہیں کہ پہلے ن لیگ کی مدد سے عمران خان کو اقتدار سے ہٹایا گیا اور پھر اسمبلی کی باقی مدت کی تکمیل تک پی پی پی نے اتحادی رہتےہوئے اقتدار نواز لیگ کے حوالے کر دیا تاکہ ڈیڑھ سال میں عوام پہلے سے زیادہ مصیبت جھیل کر ن لیگ سے بھی متنفر ہوجائیں جس کے بعد اگلے عام انتخابات میں پی پی پی کو میدان صاف ملے۔

وزارت عظمیٰ کی کرسی ہر سیاست دان کی معراج ہوتی ہے اور جب یہ یوں تھال میں رکھ کر پیش کی جائے تو کون اس پر براجمان ہونے سے انکار کرے۔ اب ن لیگ اسے نومبر میں کسی اہم تعیناتی کا خوف کہیں یا کچھ اور بہرحال اس معاشی بحران میں حکومتی ڈھول انہوں نے اپنی بھرپور رضامندی سے گلے میں ڈالا ہے اور ایک طرف جب ن لیگ کو مہنگائی اور مسائل پر عوام کے شدید غم و غصے کا سامنا ہے، وہاں مخالف سیاسی جماعتوں کے کیمپ میں شادیانے بج رہے ہیں۔

اقتدار میں آنے کے بعد کئی بار ن لیگ کی صفوں‌ میں سے ہی فوری انتخابات کرانے کی آوازیں اٹھیں بلکہ لندن سے بھی جلد از جلد نئے الیکشن کی طرف جانے کا پیغام آیا۔ شہباز حکومت کے اقتدار میں آتے ہی اسمبلیاں توڑنے کا فیصلہ شاید ن لیگ کے لیے زیادہ نقصان دہ نہیں ثابت ہوتا لیکن حکومت کو مدت پوری کرنے پر قائل کرلیا گیا جس کا نتیجہ آج ساڑھے تین ماہ میں ہی سب کے سامنے ہے۔

آج مسلم لیگ ن کے جو حالات ہیں ان میں‌ بظاہر پی پی پی کا راستہ صاف ہوتا نظر آتا ہے، لیکن اس کھیل میں سب کچھ ن لیگ کی مخالف جماعت کی مرضی کے مطابق نہ ہوسکا۔ اس صورت حال میں پی پی پی کی قیادت کو تشویش بھی ہوگی۔ جب عمران خان کی حکومت کو گرایا گیا تو پی پی پی کی قیادت کیا خود عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو بھی یہ گمان نہیں ہوگا کہ وہ ملک کی سیاسی تاریخ میں اقتدار کھونے کے بعد مقبولیت کی معراج پر پہنچ جائیں گے۔

اقتدار کے ایوانوں کی خبر رکھنے والے بتاتے ہیں کہ پی پی پی کی قیادت چاہتی تھی کہ ن لیگ کی مشکلات بڑھنے کے بعد اگلے الیکشن میں ق لیگ سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر کے اپنے اقتدار کو یقینی بنایا جائے اور بلاول بھٹو زرداری کو وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز کرایا جائے۔ لیکن سیاست میں‌ جہاں‌ بروقت فیصلے کام یابی کے امکانات روشن کرتے ہیں‌، وہیں یہ قسمت کا بھی کھیل ہے۔

عمران خان اس معاملے میں قسمت کے دھنی نکلے ہیں اور ان کی روز بروز بڑھتی ہوئی مقبولیت نے سیاست کے میدان میں‌ فتح کے کسی بھی منصوبے کو فی الحال تو دفن کر دیا ہے۔ اگر ان حالات میں الیکشن ہوئے تو پی ٹی آئی کے بیانیے کی جیت کے امکانات روشن ہیں اور مخالفین کا ہر خواب چکنا چور ہوتا نظر آتا ہے، لیکن یہ بھی درست ہے کہ وقت کبھی بھی بدل سکتا ہے اور سیاست میں‌ بالخصوص پاکستانی سیاست میں کوئی بات حرفِ آخر نہیں ہوتی۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں