ہمارے سماج میں بعض فضول اور نہایت تکیف دہ رسم و رواج آج بھی کسی فرض یا واجب کی طرح نہایت “خشوع و خضوع” سے نبھائے جارہے ہیں، لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ہم کسی فضول رسم یا رواج کے نام پر ہونے والے غیرانسانی رویّے کے خلاف بولنے اور اسے مسترد کرنے کے لیے تیّار نہیں ہیں۔
سرسیّد احمد خان نے اپنے ایک مضمون میں اس حوالے سے لکھا ہے، ” طریقِ تمدن و معاشرت روز بروز انسانوں میں ترقی پاتا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ ہماری رسمیں اور عادتیں جو بہ ضرورتِ تمدن و معاشرت رائج ہوئی تھیں، ان میں بھی روز بروز ترقی ہوتی جائے۔ اگر ہم ان ہی رسم و عادتوں کے پابند رہیں اور کچھ ترقی نہ کریں تو بلاشبہ بمقابل ان قوموں کے جنہوں نے ترقی کی ہے ہم ذلیل و خوار ہوں گے۔”
اور یقیناً آج بھی دنیا کی ترقی یافتہ اقوام کی نظر میں ہم پست اور کم تر درجے کے لوگ ہیں اور ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔ کوئی بھی معاشرہ اور قوم صرف اپنے شان دار ماضی کے گیت گاتے ہوئے اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتی بلکہ اسے اپنے حال پر نظر رکھتے ہوئے اپنی غلطیوں، کوتاہیوں اور غفلت کا اعتراف بھی کرنا پڑتا ہے اور اسے بدلنے کی کوشش کرنی پڑتی ہے۔
پاکستانی معاشرہ آج بھی توہم پرستی اور ایسے امتیازی رویّوں کا بھی شکار ہے جو ہماری ذہنی پستی کو ظاہر کرتے ہیں اور نہایت تکلیف دہ بھی ہیں۔ اس کی ایک مثال وہ صنفی امتیاز ہے جس میں آج بھی بیٹے کو بیٹی پر ترجیح دی جاتی ہے۔ان کے درمیان پیدائش کے بعد ہی سے جس طرح تفریق کی جاتی ہے، اسے صنفی دقیانوسیت کہنا غلط نہ ہو گا۔
پاکستان میں پسماندہ علاقوں کے ناخواندہ افراد ہی نہیں ملک کے بڑے شہروں کے تعلیم یافتہ گھرانوں میں بھی بیٹا اور بیٹی کی اہمیت اوربرابری کے پیمانے یکسر جدا ہیں۔ بیٹے کی پیدائش پر ہم کیسے خوشیاں مناتے ہیں، اس کا مشاہدہ آپ نے بھی کیا ہو گا جب کہ بیٹی کے دنیا میں آنے پر کوئی خاص اہتمام یا کسی رسم کو خوشی سے نبھانے والے کم ہی ہیں۔ صنف کی بنیاد پر بچّیوں کے ساتھ یہ ناانصافی اور حق تلفی تو عام ہی ہے، لیکن اس کی ایک بھونڈی شکل گزشتہ دنوں میرے سامنے آئی اور ستم ظریفی یہ کہ ایسا میں نے اپنے ہی گھر کے اندر دیکھا۔ خیبر پختون خوا کی بات کریں تو یہاں لوگ مہمان نواز، بڑے دل والے، جفاکش اور محنتی بھی ہیں اور یہاں کے خوب صورت مقامات، خوش رنگ میلے اور مخصوص رسم و رواج بھی اس کی پہچان ہیں، لیکن اس خطّے کی بعض فرسودہ روایات اور صنفی امتیاز پر مبنی رسم و رواج کو بھی بدلنے کی ضرورت ہے۔
اب میں اس قصّے کی طرف بڑھتی ہوں جس نے مجھے ذہنی اذیت اور تکلیف سے دوچار کیا۔ چند ہفتے قبل میری ایک کزن کے ہاں جڑواں اولاد ہوئی۔ قدرت نے اسے ایک بیٹے اور ایک بیٹی سے نوازا۔ ڈاکٹر نے کہہ دیا تھا کہ کچھ پیچیدگیاں ہیں اور آپریشن کے دوران کسی کی بھی جان کو خطرہ ہوسکتا ہے۔ گھر والے پریشان تھے اور زچہ و بچّہ کی خیر و عافیت کے لیے دعائیں کررہے تھے جو اللہ نے قبول کرلیں۔ وہ اپنے جڑواں بچّوں کے ساتھ اسپتال سے گھر آگئی۔ تیسرے دن جڑواں بچّوں کی پھپھو بھی انھیں دیکھنے کے لیے آئیں اور اس موقع پر جو رسم ادا کی گئی، اس نے مجھے دکھ اور تکلیف میں مبتلا کر دیا۔ پھپھو نے میری کزن کے بیٹے کو سونے کی انگوٹھی پہنائی اور بدلے میں انہیں سونے کا لاکٹ دیا گیا۔ لیکن بُرا ہو اس رسم کا، جس میں بیٹی کے حصّے میں فقط کپڑے کے دو جوڑے آئے۔
پھپھو رخصت ہوئیں تو میں نے اپنی اس اعلیٰ تعلیم یافتہ کزن سے کہا، “تمہارے دل نے یہ تحائف کیسے قبول کر لیے؟ صنف کی بنیاد پر خوشی اور اس کے اظہار کے لیے تحائف کی یہ تقسیم بھلا کیسے قبول کی جا سکتی ہے؟ سونے کی انگوٹھی اگر اس موقع پر لازمی تھی تو دونوں کو دی جاتی، ورنہ نہ دیتے، اس رسم کا یوں نبھانا کوئی فرض یا واجب تو نہیں تھا؟ یہ کیا بات ہوئی کہ بیٹے کو تو سونا چڑھا دیا جائے، ڈھول باجے اور پٹاخے چھوڑے جائیں، مٹھائیاں تقسیم کی جائیں، کیا یہ آسمان سے کسی مقدس دیوتا کی صورت نازل ہوتے ہیں؟ اور بیٹی کسی کھنبی کی طرح زمین پر اگتی ہے؟ ماں تو ایک جیسی تکلیف دونوں کے لیے سہتی ہے۔ تو پھر ان کے آنے پر خوشیوں میں تفریق کیسی؟” کزن چپ رہی وہ بولتی بھی کیا…! لیکن میرے دل کو ایک آگ سی لگ گئی کہ یہ سب ہُوا، لیکن گھر میں سے کوئی بندہ بشر اس پرکیوں نہ بولا۔ اس سوال کا جواب میرے پاس نہیں تھا۔
میں ابّا جی سے بھی خفا تھی، کیوں کہ انھوں نے ہمیشہ اس امتیازی رویے اور سلوک پر اپنی ایک رائے رکھی، لیکن آج اس موقع پر خاموش رہے۔ بس ایک شکوہ تھا اور بے پناہ تھا۔ ایک گھٹن تھی کہ بڑھتی جارہی تھی۔ اور اک رات تھی کہ بہت طویل تھی، لیکن گزر گئی۔
اگلے دن ہمارے گھر میں سکوت کی حد تک خاموشی طاری تھی۔ ابّا جی گھر پر نہیں تھے۔ وہ صبح سویرے کہاں گئے، گھر کے کسی فرد کو علم نہ تھا۔ میں بوجھل دل کے ساتھ چائے بنانے لگی کہ ابّا جی گھر میں داخل ہوئے۔ انتہائی پُرجوش آواز میں مجھے پکارا۔ ہم سب ٹی وی لاؤنج کی طرف گئے، تو ابّا جی نے ایک گولڈن مخملی ڈبیا میرے ہاتھ پر دھر دی۔ میں نے سوالیہ نظروں سے انھیں دیکھا تو آنکھوں سے اشارتاً اُسے کھولنے کا حکم دیا…! ڈبیا کو کھولا تو اندر سے ایک انتہائی خوب صورت سونے کی انگوٹھی نکلی جس میں ایک چھوٹا سا سرخ رنگ کا نگینہ جڑا ہوا تھا۔ ڈبیا کو مٹھی میں دبا کر جب ابّاجی کو نم ناک نظروں سے دیکھا، تو وہ مسکراتے ہوئے بولے: “ہم ایسی کسی رسم کو نہیں مانتے جو بیٹا اور بیٹی میں صرف بیٹے کو بَرتر سمجھتے ہوئے ادا کی جائے۔ میرے نزدیک دونوں برابر ہیں تو انھیں دیے جانے والے تحائف بھی صنف کی بنیاد پر نہیں ہونے چاہییں۔”
گویا یہ اس بات کا اعتراف تھا کہ کم از کم اپنے گھر کی حد تک ہم ایسی کسی رسم کو نہیں مانتے جو بیٹے اور بیٹی کے درمیان خاص معنوں میں تفریق کی جڑیں مضبوط کرتی ہے۔ یوں ایک رسم جو میرے دل پر بوجھ بنی، ہمارے گھر کی حد تک ہمیشہ کے لیے دفن ہو چکی تھی۔ لیکن یہ ریت رواج اور ایسی رسم جو ہمارے خطّے اور علاقوں میں پروان چڑھ رہی ہے، پھر ہمارے گھروں میں جوان ہوتی ہے، اس پر ہر گھر کے اندر سوال اٹھنا چاہیے۔ کسی خاص دن، اور خاص موقع پر سڑکوں پر اکٹھا ہو کر نعرے لگانے سے ایسے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ گھروں میں افرادِ خانہ کو اس پر مکالمہ کرنا ہو گا اور بڑوں کو اپنے بچّوں کے سامنے ان رسم و رواج پر بات کرنا ہو گی۔
بدقسمتی یہ ہے کہ ہم بات نہیں کرتے۔ حالانکہ ہمارے سماجی مسائل کی فصل گھر کے اندر پکتی ہے اور پھر اسے پورا سماج کاٹتا ہے۔ ہمیں سب سے پہلے تو اپنے گھر میں ہونے والے معاملات پر غور کرنا چاہیے، اس کی خبر لینا چاہیے، تب بات بنے گی۔ پوچھنا چاہیے کہ بیٹے کی پیدائش پر تو ٹوکرے بھر بھر کے مٹھائیاں بانٹی جاتی ہیں، دیگیں چڑھائی جاتی ہیں، لیکن بیٹی کی آمد کے بعد ایک سیر چاول پکا کر بھی اس کی صحّت و سلامتی، عزّت اور درازیٔ عمر ی دعا کیوں نہیں کی جاتی؟ اگر ہر ذی فہم اور باشعور فرد یہ سوال کرنا شروع کر دے تو خوشیوں کی یہ جو بندر بانٹ ہوتی ہے، ختم نہ سہی، کم ضرور ہو سکتی ہے۔
escort
ataşehir escort
kadıköy escort
göztepe escort
şerifali escort
göztepe escort
kartal escort
maltepe escort
pendik eskort
anadolu yakası escort