The news is by your side.

اقبال کا شاہین، ایم ایم عالم اور 1965ء کی جنگ

اگر اقبال کے شاہین کا تذکرہ ہو، چٹانوں سے پرے اُس کی بے انت پرواز کا ذکر چھڑ جائے، اس کا جھپٹنا، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا زیرِ بحث آئے، تو ارضِ پاک کے طول و عرض میں بسنے والوں کے ذہن کے پردے پر کس کی تصویر ابھرے گی؟ کیا کوئی ایسا فرد ہے، جو اقبال کے تصور شاہین کی عملی تصویر ہو؟

اگرچہ ہمہ وقت بدلتی اس برق رفتار دنیا میں ماضی کی کئی درخشاں یادیں گم ہوچکی ہیں، اور نسلِ نو اُن اوراقِ گزشتہ سے ناواقف ہے، مگر ہر زندہ قوم کی طرح پاکستان کا بچّہ بچّہ اپنے مجاہدوں اور ان جوانوں کو ضرور یاد رکھتا ہے جو اقبال کے تصورِ حیات کی مثال بنے۔ آج بھی ایک نسل ہے جس کے ذہن میں اقبال کے اشعار کے ساتھ ایم ایم عالم کی تصویر ابھرتی ہے۔ ایک نڈر سپاہی، ایک جنگجو، جس کے عزم نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔

علامہ اقبال کے احسانات کی فہرست طویل ہے۔ پہلا احسان تو اُنھوں نے اردو زبان پر کیا۔ اُن کی لفظیات اور متنوع موضوعات نے اردو شاعری کو نیا ذائقہ عطا کیا، اسے اعتبار بخشا، مگر اقبال کی فکر اور ان کی شاعری کے کئی رخ ہیں، بہت سے پہلو ہیں جن کا احاطہ کرنے کو دفتر درکار ہو گا جب کہ انھوں‌ نے اپنی فکر اور شاعری سے قوم کو جو تصورِ حیات دیا، اس نے سماج پر گہرے اثرات مرتب کیے۔

اقبال جرمن فلسفی نطشے سے متاثر تھے۔ ماہرینِ اقبالیات کے مطابق جرمنی سے لوٹنے کے بعد اقبال کی شاعری میں نطشے کا اثر واضح محسوس ہونے لگا۔ ان کا خودی اور مردِ مومن کا تصور نطشے کے فوقُ البشر کے قریب تر محسوس ہوتا ہے۔ اس دور کی سیاسی و سماجی صورت حال کے پیش نظر اقبال کا یہ تصور اس وقت کا تقاضا تھا۔ مغلیہ دور کے خاتمے کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کے لیے کڑا اور کٹھن وقت شروع ہوگیا تھا، اور وہ اپنے خول میں بند ہوگئے تھے۔ ابتری اور افراتفری کے زمانے میں مسلمان تعلیمی میدان میں بھی پیچھے رہ گئے۔ انگریز راج میں سرکاری ملازمتوں میں ان کی شرح بہت کم تھی، مسلمانوں کے برعکس ہندوؤں کو ترقی کے زیادہ موقع میسر آرہے تھے۔ شکست و ریخت یقینی تھی، جس سے نبرد آزما ہونے کے لیے سر سید جیسے مصلح میدان میں اترے۔ اقبال بھی مصلحین کی اُسی روشن روایت کی کڑی تھے، مگر اپنے قد کاٹھ اور دیرپا اثرات کی وجہ سے وہ ایک کڑی سے بلند ہوتے ہوئے اپنی فکر سے مسلمانوں‌ کے لیے آہنی زنجیر بن گئے، جن کے اشعار اور تصورات نے خطّے کے مسلمانوں کو ایک لڑی میں پرو دیا۔ پاکستان تو بن گیا، البتہ ان کے تصور شاہین کی عملی تصویر کے لیے ہمیں کچھ انتطار کرنا پڑا۔

جس شاہین کے جھپٹنے، پلٹنے، پلٹ کر جھپٹنے کا تصورعلّامہ اقبال نے اپنے تخیل سے شاعری میں باندھا تھا، وہ 7 ستمبر 1965 کو اسکوارڈن لیڈر ایم ایم عالم کی تاریخ ساز پرواز کے طفیل ہمارے سامنے آیا۔ وہ ایک پائلٹ تھے۔ تربیت اور مشق دورانِ پرواز انھیں جنگی طیارے سے یوں جوڑ دیتی، جیسے کوئی شہسوار میدانِ جنگ میں اپنے گھوڑے کے وجود کا حصّہ بن جاتا ہے۔

آئیے، تاریخ کے اوراق پلٹتے ہیں۔ وہ صبح ناقابل یقین واقعات کے لیے سازگار تھی۔ دشمن کی پیش قدمی روکنے کے لیے پاک فضائیہ حرکت میں آچکی تھی۔ فضا میں جنگی طیارے چنگھاڑ رہے تھے۔ دشمن اس بات سے بے خبر فضائی حدود کی خلاف ورزی کرچکا تھا کہ اسے اپنی اس ناپاک کوشش کی بھاری قیمت بھی چکانا پڑے گی۔ دشمن کو پاک فضاؤں میں‌ اقبال کے جن شاہینوں‌ کا سامنا کرنا پڑا، ان میں اسکواڈرن لیڈر ایم ایم عالم بھی شامل تھے۔ انھوں نے کلمۂ طیبہ پڑھ کر اڑان بھری اور سرگودھا کے محاذ پر ایک منٹ میں پانچ بھارتی ہنٹر طیاروں کو زمین بوس کر دیا۔ ان میں سے چار طیارے محض تیس سیکنڈ کے مختصرعرصے میں ایم ایم عالم کے نشانے پر آئے اور یہ ان کی تربیت و مشق، پیشہ ورانہ مہارت کا ثبوت بھی تھا۔ اس کاری وار سے دشمن کے پاؤں اکھڑ گئے اور اس کا غرور خاک ہوا۔

اب محمد محمود عالم المعروف ایم ایم عالم کے حالاتِ زندگی پر ایک نظرڈالتےہیں!
6 جولائی 1935 کو محمد محمود عالم کولکتہ کے ایک تعلیم یافتہ گھرانے میں پیدا ہوئے۔ یوں تو ان کے دیگر بھائیوں نے بھی اپنے اپنے شعبوں میں نام کمایا، مگر جو اساطیری شہرت ایم ایم عالم کے حصے میں آئی، پاکستان کی گزشتہ تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ مستقبل میں ایک ہیرو کے طور پر یاد رکھے جانے والے عالم نے ابتدائی تعلیم ڈھاکا سے حاصل کی تھی۔ سن 1952 میں وہ پاک فضائیہ کا حصہ بنے۔ اکتوبر 1953 میں کمیشنڈ عہدے پر فائز ہوئے۔

افسران کو یقین تھا کہ وہ بڑے کارنامے انجام دینے کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔ فلسفۂ خودی سے متاثر ایم ایم عالم کی نظر آسمانوں پر تھی۔ آخر 1965 کی جنگ چھڑی اور پاک فضائیہ کے اس ہیرو کے سینئرز کی پیش گوئی درست ثابت ہوئی۔ اس روز وہ ایف 86 سیبر طیارہ اڑا رہے تھے، جو دشمن کے ہنٹر طیارے جتنا برق رفتار نہیں تھا، مگر ان کی عقابی نگاہ اور برق رفتاری اپنی مثال آپ تھی۔ 7 ستمبر کو جو معرکہ انجام پایا، وہ آج تاریخ کا حصہ ہے۔ اور اس لائق ہے کہ اسے ہر سال دہرایا جائے۔ فضائیہ کے شاہینوں کی بہادری اور ایم ایم عالم کے کارنامے پر ڈاکومنٹری فلمیں بنیں اور اس پر ناول لکھے جائیں۔

جنگ ستمبر میں دشمن کو اس کے ناپاک عزائم کے ساتھ بیک جنبشِ انگشت مٹا کر رکھ دینے والے ایم ایم عالم کو ان کے کار ہائے نمایاں پر ستارۂ جرأت سے نواز گیا۔ لاہور کے علاقے گلبرک کی ایک سڑک نے یہ اعزاز اپنے نام کیا کہ اسے فضائیہ کے اس شاہین کے نام سے پہچانا جائے۔ اسکواڈرن لیڈر زاہد یعقوب عامر نے ایم ایم عالم کی سوانح عمری قلم بند کی، جس میں انھیں شان دار الفاظ میں خراج تحسین بھی پیش کیا گیا۔ البتہ اصل اعزاز وہ احترام، وہ محبت تھی، جو 1965 سے 2022 تک، کسی چٹان کی مانند قائم و دائم ہے اور ہمیشہ رہے گا۔

ایم ایم عالم نے طویل عمر پائی۔ وہ 1982 میں ریٹائرڈ ہوگئے تھے۔ سادہ زندگی بسر کرنے والے ایم ایم عالم مذہبی رجحان رکھنے والے ایک ہم درد اور خوب صورت انسان تھے۔ وہ کراچی کے میس میں قیام پذیر رہے۔ طویل علالت کے بعد 18 مارچ 2013 کو کراچی میں ان انتقال ہوا۔

گو کئی عشرے گزر گئے، لیکن آج بھی جب سنہ 65 کی جنگ کا تذکرہ چھڑتا ہے، ذہن کے پردے پر فضاؤں کو چیرتے جنگی طیاروں کی تصویر ابھرتی ہے، تو ان کے درمیان کہیں اقبال کا شاہین سانس لیتا دکھائی دیتا ہے۔ شاہین، جس نے چٹانوں پر بسیرا کیا، نئے آسمان تلاش کیے اور اپنی خودی کی بلندی پر پہنچ گیا۔ اور یہ شاہین ایم ایم عالم ہے۔

bostancı escort bayan
ümraniye escort bayan
ümraniye escort
anadolu yakası escort bayan
göztepe escort bayan
şerifali escort
maltepe escort
maltepe escort bayan
tuzla escort
kurtköy escort
kurtköy escort bayan

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں