The news is by your side.

عمران خان نے سرپرائز دے دیا، کیا نئے الیکشن کی راہ ہموار ہو رہی ہے؟

پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے پنڈی میں بڑے پاور شو میں تمام اسمبلیوں سے نکلنے کا بڑا اعلان کیا جو سب کے لیے سرپرائز ثابت ہوا اور پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت سمیت تمام سیاسی جماعتیں‌ حیران و

پریشان ہیں۔

عمران خان نے ملک میں عام انتخابات کا مطالبہ کرتے ہوئے اکتوبر کے آخر میں لاہور سے حقیقی آزادی مارچ کے نام سے اسلام آباد تک لانگ مارچ شروع کیا تھا تاہم لانگ مارچ کے آغاز کے چند روز بعد ہی وزیر آباد کے ایک مقام پر قاتلانہ حملے میں ان کے زخمی ہونے کے بعد یہ لانگ مارچ مؤخر کردیا گیا۔ پھر پروگرام کو تبدیل کرتے ہوئے لانگ مارچ کے دوسرے مرحلے میں اسے دو مختلف مقامات سے اسد عمر اور شاہ محمود قریشی کی زیر قیادت آگے بڑھایا گیا جس کے شرکا سے عمران خان ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرکے ان کے جذبے کو ممہیز کرتے رہے۔

نومبر شروع ہوا تو شہر اقتدار سمیت ملک بھر میں نظریں پاکستان میں دو اہم تعیناتیوں اور عمران خان کے لانگ مارچ پر لگی ہوئی تھیں۔ جیسے جیسے وقت آگے بڑھ رہا تھا چہ می گوئیاں بھی بڑھتی جا رہی تھیں اور غیر یقینی کی فضا اور صورت حال گھمبیر ہوتی جا رہی تھی۔ ان معاملات بالخصوص فوج میں کمان کی تبدیلی اور افسران کی ترقی کا معاملہ جس طرح میڈیا پر اٹھایا جا رہا تھا اس سے ایسا لگنے لگا تھا کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے اور باقی عوامی مسائل حل ہوچکے ہیں۔

اسی بے یقینی کی فضا میں عمران خان نے 26 نومبر کو راولپنڈی پہنچنے کا اعلان اور وہاں آکر سب کو سرپرائز دینے کا اعلان کیا۔ ایسے وقت میں جب آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کی تقرری کا معاملہ ملک کے سیاسی افق پر چھایا ہوا تھا تو لوگوں کی اکثریت نے اس سرپرائز دینے کے اعلان کو بھی اسی تناظر میں‌ دیکھا جب کہ 24 نومبر کو فوج میں‌ تقرری کے معاملات خوش اسلوبی سے طے پا گئے۔

وزیراعظم شہباز شریف نے اتحادیوں سے طویل مشاورت کے بعد لیفٹیننٹ جنرل سید عاصم منیر کو آرمی چیف اور لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد کو چیئرمین جوائنٹس چیفس آف اسٹاف مقرر کرنے کا فیصلہ کیا اور سمری منظوری کے لیے صدر مملکت کو بھیجی۔ اس موقع پر صدر مملکت کے اچانک لاہور جانے اور عمران خان سے ملاقات نے افواہوں اور بے یقینی کو تقویت بخشی تاہم ملاقات کے بعد صدر کی جانب سے سمریوں پر دستخط سے تمام افواہوں نے دم توڑ دیا اور پھر سب کی نظریں عمران خان کے لانگ مارچ کی جانب مبذول ہوگئیں۔

اگر مگر، دہشتگردی کے خدشات و خطرات، پی ٹی آئی کی سیاسی چالوں اور حکومتی دعوؤں اور لانگ مارچ کو روکنے کے لیے ضروری اقدامات کے باوجود عمران خان 26 نومبر کی شام پنڈی پہنچ گئے جہاں عوام ان کے استقبال کے لیے موجود تھے۔

پنڈی میں جتنا بڑا جلسہ تھا اتنا ہی طویل خطاب بھی تھا۔ عمران خان نے ایک گھنٹے سے زائد خطاب کیا جس میں حسب سابق اپنی حکومت کے خلاف سازشوں کے تانے بانے بننے والوں کو تنقید کا نشانہ بنایا ساتھ ہی اپنی حکومت کے حاصل کردہ اہداف اور موجودہ حکومت کی معاشی ناکامیوں کے اعداد وشمار عوام کے سامنے پیش کیے۔ یہ سب اعداد و شمار لوگوں کے لیے نئے نہیں تھے لیکن ان کے خطاب کے آخری چند منٹ ہی انتہائی اہم تھے جس میں انہوں نے اسلام آباد جانے کا فیصلہ بدلتے ہوئے تمام اسمبلیوں سے نکلنے کا اعلان کر کے سب کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔

عمران خان کے اس سرپرائز اعلان نے صرف مخالف پی ڈی ایم حکومت ہی نہیں بلکہ دیگر حلقوں کے ساتھ اپنے سخت ناقد صحافیوں کو بھی حیران کردیا اور تجزیہ کار یہ کہتے نظر آئے کہ عمران خان نے سیاسی چال سے حکومت کو بیک فٹ پر کر دیا ہے اور حکومت جو کئی ماہ سے نئے الیکشن کے مطالبے پر ان سے پنجاب، خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان کی اسمبلیاں توڑنے کا مطالبہ کرتی تھی اب عمران خان کے اعلان نے اسے امتحان میں ڈال دیا ہے۔

عمران خان کے اس اعلان کے بعد حکومتی نمائندوں کے بیانات اور باڈی لینگویج سے ایسا لگ رہا تھا کہ حکومت کو پنڈی اجتماع میں ایسے کسی اعلان کی توقع نہیں تھی بلکہ سابق وزیراعظم کے پنڈی پہنچنے سے ایک دن قبل تک سوشل میڈیا پر یہ خبریں گردش میں تھیں کہ عمران خان پنڈی میں جلسہ کرکے واپس چلے جائیں گے اور آئندہ چند روز میں قومی اسمبلی میں بھی واپس آجائیں گے جہاں تین فریق آئندہ الیکشن پر مذاکرات کریں گے لیکن بجائے اسمبلی واپس جانے کے پنجاب، کے پی اور گلگت بلتستان اسمبلیوں سے نکلنا یا دوسرے معنوں میں اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان سب کے لیے سرپرائز ثابت ہوا ہے۔ عمران خان نے کہا کہ وہ اپنی پارلیمانی کمیٹی سے مشاورت کے بعد اس بارے میں جلد تاریخ کا اعلان کریں گے۔

حکومت کی پریشانی اور بوکھلاہٹ کا اندازہ حکومتی نمائندوں کے بیانات سے لگایا جاسکتا ہے۔ بلاول بھٹو، رانا ثنا اللہ و دیگر حکومتی وزرا کی جانب ایک بڑے عوامی جلسے کو فلاپ شو قرار دینا اسی پریشانی کی ایک جھلک لگتی ہے۔ ایک جانب رانا ثنا اللہ نے کہا کہ اگر پی ٹی آئی والے اسمبلیوں سے باہر جائیں گے تو ضمنی الیکشن کرا دیے جائیں گے جس کی توثیق بعد ازاں الیکشن کمیشن نے بھی کر دی اور ادارے کے باخبر ذرائع سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اگر اسمبلی کی آئینی مدت ختم ہونے سے قبل استعفے ہوئے تو ضمنی الیکشن ہوں گے کیونکہ آئین کے مطابق نصف اسمبلی بھی خالی ہو تو ضمنی انتخاب ہوگا اور 2 نشستیں بھی اسمبلی میں ہوں تو اسمبلی بحال رہتی ہے۔

آئین کی شق اپنی جگہ لیکن اگر پنجاب، خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان کی اسمبلیاں ہی تحلیل ہو جاتی ہیں یعنی نصف سے زائد پاکستان میں کوئی منتخب ادارے نہیں رہتے تو کیا پھر بھی حکومت کا یہی مؤقف رہے گا کیونکہ ملک بھر کے منتخب نمائندوں کے مجموعی فورم کا 50 فیصد سے زائد حصہ پی ٹی آئی ہے۔ اگر تحریک انصاف کے استعفوں سے ملک کا 50 فیصد حصہ منتخب نمائندوں سے محروم ہوگا تو کیا اتنی زیادہ نشستوں پر ضمنی الیکشن کرانا ممکن رہے گا؟ اگر کرانے کی کوشش کی تو کروڑوں روپے خرچ ہوں گے اور وہ بھی ایسے وقت میں جب آئین کے مطابق اسمبلیوں کی مدت میں صرف چند ماہ ہی باقی رہ جائیں گے۔

پی ٹی آئی کے پی اور گلگت بلتستان میں بلا شرکت غیرے اقتدار میں ہے تاہم پنجاب کا معاملہ مختلف ہے جہاں اکثریتی پارٹی بے شک پی ٹی آئی ہے لیکن حکومت ق لیگ کے چوہدری پرویز الہٰی کی ہے۔ عمران خان کے اعلان کے فوری بعد اس حوالے سے چہ می گوئیاں بھی ہوئیں تاہم مونس الہٰی نے اس پر مثبت ردعمل دے کر ان کا فوری گلا گھونٹ دیا اور اپنے ٹوئٹ میں واضح کر دیا کہ ہم اپنے وعدے پر قائم ہیں عمران خان کا اشارہ ملتے ہی پنجاب اسمبلی تحلیل کر دی جائے گی۔

ماہر قانون کی اکثریت بھی اس بات پر متفق ہے کہ اگر عمران خان اپنے فیصلے پر عمل کرتے ہیں اور پنجاب، کے پی، گلگت بلتستان اسمبلیاں توڑ دی جاتی ہیں اس کے ساتھ ہی سندھ اور بلوچستان اسمبلی سے بھی پی ٹی آئی ایم پی ایز مستعفی ہوجاتے ہیں تو یہ بہت بڑا سیاسی بحران ہوگا۔ اس صورت میں یہ بحران صرف ضمنی الیکشن سے ختم نہیں ہوگا بلکہ لامحالہ نئے عام انتخابات کی طرف جانا پڑے گا۔

پاکستان میں قومی اور گلگت بلتستان سمیت چاروں صوبائی اسمبلیوں کی مجموعی طور پر 859 نشستیں ہیں۔ قومی اسمبلی کی 123 نشستیں پہلے ہی پاکستان تحریک انصاف کے اراکین کے استعفوں کے باعث خالی ہیں۔ اگر صوبائی اسمبلیاں تحلیل بھی نہ ہوں تو پی ٹی آئی ایم پی ایز کے استعفوں سے پنجاب کی 297 نشستیں، کے پی کی 115، سندھ کی 26 اور بلوچستان کی 7 نشستیں خالی ہوں گی جو مجموعی طور پر 567 ہوں گی۔

صرف مریم نواز اور ن لیگ کے دیگر رہنما ہی نہیں بلکہ پی پی سمیت دیگر اتحادی جماعتوں کے رہنما بھی اس سے قبل کئی بار عمران خان کے نئے الیکشن کے مطالبے پر کہتے تھے کہ وہ پہلے اپنی صوبائی حکومتیں توڑیں تو قومی اسمبلی توڑ کر نئے الیکشن کرا دیں گے۔ عمران خان کا یہ ماسٹر اسٹروک بھی حکومت کے لیے امتحان بن گیا ہے۔

ملکی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے کہتے ہیں کہ سابق وزیراعظم نے اپنے پتوں کو بروقت کھیل کر سیاست کے میدان کا شاطر کھلاڑی ہونے کا ثبوت دیا ہے تاہم اسمبلیوں سے نکنے کے اعلان پر فوری عمل کرنے کے بجائے پارٹی کی پارلیمانی کمیٹی سے مشاورت کے بعد تاریخ دینے کے اعلان نے اس پر سوالات بھی اٹھا دیے ہیں۔ ایک رائے یہ بھی سامنے آئی ہے کہ عمران خان کا یہ اعلان اپنے سامنے موجود قوتوں اور مخالفین کو نئے الیکشن کے لیے سنجیدہ اور فیصلہ کن مذاکرات کے لیے سوچنے کا وقت دینے کی ایک اور کوشش ہے۔

اگر پی ڈی ایم حکومتی آپشنز کی جانب نظر دوڑائیں تو اس کے پاس اس بحران سے بچنے کے لیے صرف تین آپشنز بچتے ہیں۔ ایک یہ کہ فوری طور پر پنجاب اور کے پی کے وزرائے اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جائے جو کہ کے پی میں تو یقینی ناکام ہوگی جب کہ پنجاب کے بارے میں ابھی کوئی حتمی رائے نہیں دی جاسکتی اور یہی سب سے بڑا بونس پوائنٹ ہوسکتا ہے۔ اگر دونوں جگہوں پر تحریک عدم اعتماد ناکام رہتی ہیں تو وفاقی حکومت گورنر راج جیسا آپشن بھی استعمال کرسکتی ہے اس کے علاوہ اس کے پاس خالی نشستوں پر ضمنی الیکشن کی چوائس بھی ہے۔

عمران خان نے ایک پر ایک سیاسی چال چلتے ہوئے تُرپ کا پتہ بھی پھینک دیا ہے۔ اگر اس پر سنجیدہ مذاکرات کے بجائے وفاقی حکومت بحران سے نمٹنے کے لیے مذکورہ بندوبست کرتی ہے تو یہ عارضی ہی ثابت ہوں گے۔ ملک پہلے ہی معاشی بدحالی کا شکار اور ماہرین معیشت کے مطابق ڈیفالٹ کی دہلیز پر کھڑا ہے ایسے میں سیاسی بحران سے نمٹنے اور اپنے چند ماہ کے باقی اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے کوئی بھی عارضی اقدام سیاسی تناؤ کو مزید ہوا دے کر بحران کے شعلوں کو مزید بھڑکا سکتا ہے۔

عمران خان نے یہ اعلان کرکے وفاقی حکومت کو نئے انتخابات پر مذاکرات کے لیے راستہ دے دیا ہے۔ صائب مشورہ یہی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اور اسٹیک ہولڈر ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر کر وہ فیصلے کریں کہ جس سے ملک میں جاری ہیجانی کیفیت کا خاتمہ ہو۔ معاشی استحکام آئے اور غریب عوام کی زندگی بہتر ہوسکے۔ اس کے لیے چند ماہ قبل سہی نئے الیکشن کا اعلان کر دینے میں‌ کوئی مضائقہ نہیں اور تاکہ نئی منتخب حکومت پورے اعتماد سے ملک و قوم کی بہتری کے لیے فیصلے کرسکے۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں