سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن کے اعلان کردہ شیڈول کے مطابق 15 جنوری یعنی آئندہ اتوار کو ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی اور حیدرآباد میں بلدیاتی الیکشن ہو رہے ہیں تاہم اس مرتبہ انتخابی سیاست کے لیے روایتی گہما گہمی نظر نہیں آرہی ہے۔
بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں گزشتہ سال جون میں اندرون سندھ الیکشن ہوچکے اور دوسرے مرحلے میں کراچی اور حیدرآباد میں گزشتہ سال 24 جولائی کو الیکشن ہونے تھے۔ تاہم طوفانی بارشوں اور سیلاب کے باعث انہیں ملتوی کرکے نئی تاریخ 28 اگست دی گئی اور اس کے بعد پھر متعدد بار الیکشن ملتوی کیے گئے۔ حکومت سندھ کے اس اقدام کے خلاف جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی عدالت گئیں اور عدالتی حکم پر اب 15 جنوری کو الیکشن متوقع ہے۔ لیکن اب بھی ایم کیو ایم کی جانب سے التوا کی درخواست الیکشن کمیشن میں ہے جس پر فیصلہ محفوظ کر لیا گیا ہے اور پیر کے روز سنایا جائے گا۔ اب تک اس فیصلے کو نہ سنائے جانے کے باعث بھی ابہام پیدا ہو رہا ہے۔
کراچی جو کہنے کو تو ملک کا سب سے بڑا شہر معاشی حب ہے جو پاکستان کو 65 فیصد سے زائد ریونیو فراہم کرتا ہے لیکن ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے اس شہر کو ہر دور میں نظر انداز کرتے ہوئے اس کا جائز حق نہیں دیا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روشنیوں کا شہر کراچی آج ان گنت مسائل سے دوچار ہے اور ان تمام مسائل کا تعلق بلدیاتی اداروں سے ہی جڑا ہے۔
گزشتہ بلدیاتی دور ایم کیو ایم کے میئر وسیم اختر کا دور تھا لیکن بدقسمتی سے وہ دور شہر کراچی کی فلاح و بہبود کے لیے موثر اور عملی اقدامات کے بجائے صرف اقتدار اور اختیار نہ ہونے کا رونا روتے ہوئے گزار دیا گیا اور کوئی میگا پراجیکٹ اس شہر کو نہیں دیا گیا اور حیرت کی بات یہ ہے کہ جس جماعت پر شہر کراچی کے حقوق غصب اور بلدیاتی اداروں کو بے اختیار کرنے کا الزام عائد کیا گیا ایم کیو ایم نے گزشتہ سال اسی سیاسی جماعت سے پانچویں بار اتحاد کیا۔
بلدیاتی نمائندوں کی مدت 2020 میں ختم ہوگئی تھی جس کے بعد سے ملک کے سب سے بڑے شہر اور معاشی حب کراچی کو بغیر منتخب نمائندوں کے عارضی بنیادوں ایڈمنسٹریٹرز تعینات کر کے چلایا جا رہا تھا۔ اب جب کہ عدالتی حکم پر الیکشن کے انعقاد میں 7 دن باقی رہ گئے ہیں لیکن لگ ہی نہیں رہا ہے کہ کراچی میں آئندہ ہفتے کوئی بڑا انتخابی معرکہ ہونے جا رہا ہے۔ ایسا غالباً پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار ہو رہا ہے کہ ملک کے سب سے بڑے شہر میں بلدیاتی الیکشن ہونے جا رہے ہوں اور ان میں سات دن سے بھی کم کا وقت ہو لیکن روایتی انتخابی گہما گہمی کہیں نظر نہیں آ رہی ہو۔ اگر کسی حد تک کوئی انتخابی سرگرمیاں نظر آرہی ہیں تو وہ صرف جماعت اسلامی کی ہیں جب کہ شہر کی سب سے بڑی جماعت ہونے کی دعوے دار ایم کیو ایم کی سرگرمیاں صرف الیکشن کے التوا کے لیے کمیشن میں درخواست تک ہیں۔
بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے دوران ہی دو ماہ قبل ایم کیو ایم کے نامزد گورنر سندھ کا عہدہ سنبھالنے والے کامران ٹیسوری سیاسی طور پر بہت سرگرم ہیں اور ان کی تمام کوششیں ایم کیو ایم کے منقسم دھڑوں کو متحد کرنے کے لیے کی جا رہی ہیں۔ یہ سلسلہ گزشتہ سال کے آخر میں شروع ہوا اور اب تک جاری ہے۔ دعویٰ کیا گیا تھا کہ نیا سال شروع ہوتے ہی کراچی کے عوام اس حوالے سے خوشخبری سنیں گے لیکن اب تک رابطوں، ملاقاتوں اور رسمی بیانات کے علاوہ کوئی بڑی پیش رفت نظر نہیں آئی۔
ایک ڈیڑھ ماہ کے دوران گورنر سندھ ایم کیو ایم پاکستان سمیت پی ایس پی، ڈاکٹر فاروق ستار، آفاق احمد سے ملاقاتیں کر چکے ہیں اور گزشتہ کئی سال سے ایک دوسرے کے خلاف ان جماعتوں کے رہنما بھی ایک دوسرے سے ملاقاتیں کر رہے ہیں لیکن جس اتحاد کی بازگشت گزشتہ ماہ سنائی دی تھی اور خوشبری سال شروع ہوتے ہی ملنے کی نوید دی گئی تھی وہ خوشخبری اب تک سنائی نہیں دی ہے۔
شہری سیاست کے واقفان حال کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم اور پی ایس پی کے کچھ رہنما اس ادغام کے خلاف ہیں جو کھل کر سامنے نہیں آ رہے لیکن انہیں ایک بھی نہیں ہونے دے رہے جس کے باعث اب تک کوئی حتمی منظر نامہ سامنے نہیں آیا ہے۔ ادھر مہاجر قومی موومنٹ کے چیئرمین آفاق احمد تو پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ شہری مسائل اور حلقہ بندیوں پر ایم کیو ایم کے ساتھ ہیں لیکن وہ متحدہ قومی موومنٹ کا حصہ نہیں بن رہے ہیں۔ یعنی اتحاد کی بیل ابھی منڈھے چڑھتی نظر نہیں آتی۔
پیپلز پارٹی جو کچھ عرصہ پہلے تک بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سے کترا رہی تھی اور اس حوالے سے سندھ اسمبلی سے قانون سازی سمیت کئی اقدامات بھی کیے اور الیکشن کے التوا کے لیے کمیشن کو خطوط بھی لکھے لیکن اب نہ جانے چند دن میں کیا کایا پلٹ ہوئی کہ وہ مقررہ تاریخ پر الیکشن کرانے کی سب سے بڑی داعی بن کر سامنے آئی ہے اور اس معاملے پر پی پی پی اور ایم کیو ایم میں تلخیاں مزید بڑھتی جا رہی ہیں۔
ایم کیو ایم جس کا کہنا ہے کہ وہ انتخابات سے نہیں بھاگ رہی اور نہ ہی کسی کے لیے میدان خالی چھوڑے گی بلکہ وہ حلقہ بندیوں پر معترض ہے کیونکہ حلقہ بندیاں پی پی کی سندھ حکومت نے اپنے ذاتی سیاسی مفادات کو مدنظر رکھ کر کی ہیں تاکہ الیکشن میں پیپلز پارٹی کو زیادہ سے زیادہ فائدہ ہو۔ ایم کیو ایم کے اس الزام کو اس بات سے بھی تقویت ملتی ہے کہ بلاول بھٹو سمیت کئی یی پی سیاسی رہنما ببانگ دہل یہ اعلان کرچکے ہیں کہ اس بار کراچی کا میئر جیالا ہوگا اگر ایسا ہوا تو یہ کراچی کی تاریخ میں پہلی بار ہوگا۔
نئی حلقہ بندیوں تک بلدیاتی الیکشن کے التوا پر ایم کیو ایم کی درخواست پر الیکشن کمیشن نے فیصلہ محفوظ کر رکھا ہے جب کہ ایم کیو ایم نے 11 جنوری کو اس حوالے سے احتجاج کا اعلان کر رکھا ہے جس میں اس نے شرکت کے لیے پی ایس پی، مہاجر قومی موومنٹ اور جماعت اسلامی کو بھی دعوت دی تاہم پی ایس پی اور مہاجر قومی موومنٹ نے تو شرکت کی یقین دہائی کرائی تاہم جماعت اسلامی نے اس معاملے پر ایم کیو ایم کو ہرا جھنڈا دکھانے کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں متحدہ رہنماؤں کو آئینہ بھی دکھا دیا۔
بلدیاتی انتخابات کے حوالے اب تک جماعت اسلامی ہی متحرک نظر آنے والی ہی واحد سیاسی جماعت نظر آ رہی ہے باقی سب جماعتیں زبانی کلامی باتیں کرتی سنائی اور دکھائی دیتی ہیں۔ جماعت اسلامی کے شہر بھر میں بلدیاتی الیکشن کے لیے سیاسی دفتر کھلے ہوئے ہیں۔ انتخابی مہم بھی جاری ہے۔ اس کے نمائندے عوام سے رابطے بھی کر رہے ہیں جب کہ یہ بلاگ لکھے جانے تک جماعت اسلامی نے شہر قائد کے لیے اعلان کراچی کے نام سے ایجنڈا جاری کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔
اس کے برخلاف گزشتہ عام انتخابات میں کراچی سے ایم کیو ایم کو بڑا نقصان پہنچانے والی پاکستان تحریک انصاف بھی بلدیاتی انتخابات کے لیے اس طرح سرگرم نظر نہیں آتی جس طرح کہ یہ بلدیاتی انتخابات تقاضہ کرتے ہیں۔ پی ٹی آئی کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے لیے عدالت ضرور گئی لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان انتخابات کے لیے اس کے پاس کوئی روڈ میپ نہیں ہے اور اس کی توجہ صرف اعلیٰ ایوانوں کی سیاست پر مرکوز ہے۔
پیپلز پارٹی کے پاس بھی صرف سیاسی دعوے اور بیانات ہیں یا پھر سندھ کی حکومت باقی زمینی حقائق کے مطابق پی پی پی بھی باضابطہ سیاسی طور پر انتخابی سرگرمی شروع نہیں کرسکی ہے۔
ایم کیو ایم جو خود کو شہر کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کہتی رہی ہے اور ماضی کے انتخابی نتائج اٹھا کر دیکھا جائے تو یہ بات 100 فیصد درست بھی ہے لیکن ایم کیو ایم کا حال اب ماضی جیسا قطعی نہیں اور اس کا بھرپور اندازہ اور مشاہدہ خود ایم کیو ایم کو بھی ہے۔ ایم کیو ایم رہنماؤں کی جانب سے کسی بھی امیدوار کے لیے میدان کھلا نہ چھوڑنے کے اعلانات کے باوجود متحدہ قومی موومنٹ کا انتخابی مہم چلانے کے حوالے سے جو خاصہ رہا ہے وہ اس بار کہیں نظر نہیں آ رہا ہے اور اس کا اولین خواہش تو الیکشن کا التوا ہے۔
تحریک لبیک پاکستان جو کراچی کی سیاست میں چند سال سے فعال نظر آ رہی ہے اور سندھ اسمبلی میں بھی اس کے نمائندے موجود ہیں۔ گزشتہ سال قومی اسمبلی کے ایک ضمنی الیکشن میں بھی اس نے ایم کیو ایم کو کافی ٹف ٹائم دیا تھا لیکن اس کیمپ میں بھی ہنوز خاموشی کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ باقی دیگر جماعتیں جس میں پی ایس پی، مہاجر قومی موومنٹ، ڈاکٹر فاروق ستار ودیگر شامل ہیں تو گزشتہ انتخابات میں ان کی کارکردگی دیکھ کر ان کا سرگرم ہونا نہ ہونا برابر محسوس ہوتا ہے۔
دوسری جانب صرف سیاسی جماعتیں ہی نہیں اس بار کراچی کے شہری بھی گم سم لگتے ہیں اور ایسا پہلی بار ہو رہا ہے کہ شہر قائد کے باسی الیکشن کے بارے میں اس قدر لاعلم ہیں کہ انہیں اپنے حلقوں سے کھڑے ہونے والے بلدیاتی نمائندوں کے بارے میں بھی علم نہیں ہے۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ بلدیاتی انتخابات کے کئی بار التوا نے ان کی دلچسپی ختم کر دی لیکن اکثریت کی رائے ہے کہ ہر روز بڑھتی مہنگائی، بیروزگاری نے عوام کو ان معاملات سے دور کر دیا ہے اور جس طرح سے خاص طور پر گزشتہ 8 ماہ میں ملک کے سیاسی معاملات چلائے گئے ہیں اس سے عوام کی اکثریت سیاست اور سیاستدانوں سے بدظن نظر آتی ہے۔
سیانے کہتے ہیں خاموشی کسی طوفان کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ انتخابی میدان میں اس طرح کی خاموشی کیا رنگ لائے گی اس کا نتیجہ تو آئندہ ہفتے 15 جنوری کی شام کو ظاہر ہو گا۔ تاہم شہر قائد کے باسی اب نعروں کے بجائے اپنی اور شہر کی حالت کی بہتری کے لیے عملی اقدامات دیکھنا چاہتے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ عوام اپنے دیرینہ مسائل کے حل کے لیے کس قیادت کا انتخاب کرتے ہیں؟