ماہرین اور مبصرین کانفرنس آف پارٹیز کوپ 27 میں ہونے والی پیشرفت پر ردعمل ظاہر کر رہے ہیں اور اس سال کے تباہ کن سیلاب سے کیا سبق حاصل کیا جا سکتا ہے۔
اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی کی سربراہی کانفرنس، سی او پی 27، گزشتہ ماہ موسمیاتی خطرات سے دوچار ممالک کے لیے ضرر اور نقصان کے حوالے سے مالی امداد فراہم کرنے کے ایک اہم معاہدے کے ساتھ ختم ہوئی۔ اگرچہ بہت سے مبصرین اسے ایک سنگ میل کے طور پر دیکھتے ہیں، جب کہ دوسرے مبصرین نے کمزور ممالک کو اپنے مالی وسائل تلاش کرنے، حکمرانی کے بہتر ماڈل اور فطرت پر مبنی حل تلاش کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
پاکستانی وفد نے ضرر اور نقصان کے معاملے کو کوپ 27 کے لائحہ عمل کے مطابق صحیح طور پر پیش کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ لیکن مستقبل کے حوالے سے صورتحال بہت زیادہ غیر یقینی ہے کہ آگے پاکستان کے لیے کیا ہوگا جو کہ دنیا میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کی وجہ سے سب سے زیادہ خطرے میں ہے۔
انہی مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے دی تھرڈ پول نے 16 نومبر کو کانفرنس کے دوران ٹوئیٹر اسپیسز پر ایک گفتگو کا اہتمام کیا۔ یہاں اس گفتگو کے اقتباسات پیش کیے جا رہے ہیں جن کو واضح کرنے کے لیے ترمیم کی گئی ہے۔
سی او پی 27 کی پا کستان کے لیے کیا اہمیت ہے؟
ماؤنٹین اینڈ گلیشیئر پروٹیکشن آرگنائزیشن اور سول سوسائٹی کولیشن فار کلائمیٹ چینج کی چیف ایگزیکٹو عائشہ خان: سی او پی 27 نے اس بات کا اعادہ کیا کہ پاکستان کے ضرر اور نقصان کا معاملہ، جس کے اثرات بڑے پیمانے پر محسوس کیے گئے، صرف پاکستان تک محدود نہیں رہے گا۔ کانفرنس میں موجودہ دوسرے ممالک نے بھی اس بات کی بھرپور تائید کی ہے۔
عافیہ سلام، ماحولیاتی صحافی اور پاکستان کلائمیٹ چینج کونسل کی رکن: گزشتہ چند کوپ میں ضرر اور نقصان کے بارے میں بات کی جا رہی تھی لیکن حقیقتاً اس کو کسی بڑی بحث کے طور پر مرکوز نہیں کیا جا رہا تھا۔ پاکستان نے اپنی موجودہ تباہی کو جو کہ اب بھی جاری ہے بھرپور طریقے سے اجاگر کیا۔ اور یہ بھی خبردار کیا کہ اس قسم کی تباہی ملک کی سرحدوں کے باہر بھی اپنا اثر دکھائے گی۔
چونکہ ضرر اور نقصان اب ایجنڈے کا ایک نکتہ بن چکا ہے لہٰذا امید ہے کہ اس میں کچھ تیزی آئے گی۔ ہم اسے اگلے چند سالوں میں ایک مناسب مالیاتی طریقہ کار میں مرکزی دھارے میں شامل ہوتے دیکھیں گے۔ اس وقت تک، یہ ممالک، گروہوں، مذاکرات کاروں اور لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ اس کا بھی وہی انجام نہ ہو جو موافقت فنڈ کا ہوا۔
یہ ایک ایسی گفتگو ہے جس میں ہمیں کمزور نہیں پڑنا چاہیے۔ در حقیقت ہمیں اس مسئلے کی اہمیت کو مزید اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔
خان: موسمیاتی خطرات کے خلاف گلوبل شیلڈ ایک مشترکہ قدم ہے جو موسمیاتی انشورنس اور ڈیزاسٹر فنڈنگ کے لیے کوپ 27 میں G7 اور V20( موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے سب سے زیادہ خطرے میں رہنے والے ممالک کا گروپ) کی طرف سے شروع کیا گیا ہے ۔ پاکستان گلوبل شیلڈ سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ لیکن ان پر عزم نتائج کو حاصل کرنے کے لیے ہمیں سنجیدہ سیاسی مذاکرات شروع کرنے کی ضرورت ہے۔
اس سال کے سیلاب سے حاصل ہونے والے اسباق
فضلدہ نبیل، لیونگ انڈس انیشی ایٹو کی صوبائی کوآرڈینیٹر اور فطرت پر مبنی حل کی ماہر: 2022 کے سیلاب نے ہمیں دکھایا کہ پانی کی کوئی کمی نہیں تھی لیکن پانی صحیح وقت پر اور صحیح جگہ پر نہیں تھا۔ ہمارے پاس سیلاب سے نمٹنے کے لیے پانی زمین میں جذب کرنے کی صلاحیت نہیں تھی کیونکہ دریائی جنگلات کی تیزی سے کٹائی کی وجہ سے ہمارے جنگلات تنزلی کا شکار ہو چکے تھے۔
ہمیں فطرت پر مبنی حل کی طرف واپس جانے کی ضرورت ہے اور اس کی ایک بہت اچھی مثال مینگرووز ہیں’ جو نہ صرف مچھلیوں کے لیے رہائش فراہم کرتے ہیں، بلکہ یہ کمیونٹیز کے لیے طوفانوں سے تحفظ بھی فراہم کرتے ہیں۔ وہ پانی کو فلٹر کرتے ہیں، خوراک اور لکڑی مہیا کرتے ہیں، یہ سب کچھ وہ کاربن کی بڑی مقدار کو ذخیرہ کرتے ہوئے کرتے ہیں۔ سندھ میں انڈس ڈیلٹا میں موجود مینگرو کے جنگلات کو دنیا میں خشک آب و ہوا والے مینگرووز کا سب سے بڑا رقبہ سمجھا جاتا ہے۔ ہمیں ان ماحولیاتی نظاموں کی حفاظت اور پرورش کرنی چاہیے۔
پاکستان میں ہمیں اسموگ، شہر کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت ، ہوا کا بگڑتا ہوا معیار، آلودگی اور شہری سیلاب کا سامنا ہے۔ شہری جنگلات ان میں سے ہر ایک مسئلے کا مناسب حل بن سکتے ہیں۔ کراچی میں کلفٹن اربن فاریسٹ، لاہور میں میاواکی فاریسٹ اور درخت لگانے کی مہم جیسے اقدامات کے امید افزا نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ دنیا کے دیگر ممالک جیسے کہ چین نے اس سے بھی آگے بڑھ کر موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو برداشت کرنے کے لیے ’سپنج سٹیز‘ بنائے ہیں۔ مثال کے طور پر، ہاربن شہر میں سڑکیں مسام دار اسفالٹ سے بنائی گئی ہیں تاکہ وہ بارش کا پانی جذب کر سکیں۔
خان: ہم نے بہت سے سبق سیکھے ہیں۔ ہم نے سیکھا ہے کہ ہم انتہائی غیر یقینی دور میں جی رہے ہیں اور مستقبل انتہائی غیر متوقع ہے۔ ہم نے سیکھا ہے کہ ہمیں اپنے مقامی مسائل کو حل کرنے کے لیے مکمل طور پر بیرونی مالیات پر انحصار نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں مستقبل کی حکمت عملیوں کی تشکیل نو کے لیے اپنی ماضی کی پالیسیوں پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنی مقامی زبانوں میں موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے شعور بیدار کرنے کے لیے مواصلات کی حکمت عملیوں کی ضرورت ہے۔
سلام: پاکستان میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے حوالے سے جو اہم ابتدائی اقدامات کیے جانے چاہیے تھے وہ ابھی تک زیر التواء ہیں۔ پاکستان کے محکمہ موسمیات نے خبردار کیا تھا کہ اس سال مون سون بارشوں سے زیادہ ہوگی، لیکن کوئی بھی اندازہ نہیں لگا سکا کہ اس سطح کی بارش اور تباہی ہو گی۔
دوسرے ممالک میں مسلح افواج کو یہ مینڈیٹ حاصل ہے کہ وہ اس طرح کی آفات میں دوسرے اداروں کی مدد کرنے میں پہل کریں۔ جیسا کہ امریکہ میں جہاں کترینہ سمندری طوفان کے دوران نیشنل گارڈ کو بلایا گیا تھا۔ پاکستان میں، ہمارے پاس قومی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی اور صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی ہے، لیکن ایک موثر ضلعی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نہیں ہے۔
آفات کے جواب میں پہل کرنے والوں کو اپنے علاقے کے بارے میں تمام معلومات ہونی چاہئیں اور ان کے پاس آفات سے نمٹنے کے لیے وسائل ہونے چاہئیں۔ اگر کوئی آفت کسی خاص علاقے میں آتی ہے، تو وہ نکاسی آب کے نظام کو سنبھالنے اور لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔
پاکستان کو ایک بار پھر نچلی سطح سے مقامی طرز حکمرانی کی تنظیم نو کرنی ہوگی، محفوظ پناہ گاہیں بنانا ہوں گی، اور تباہی اور خطرات کا نقشہ بنانا ہوگا۔ ہمیں بنگلہ دیش کی طرح ایک موثر انتباہی نظام تیار کرنے کی ضرورت ہے جس سے لوگوں کو تیزی سے انخلاء میں مدد ملے۔
‘ہمارے دریاؤں کی حفاظت ہونی چاہیے’
نبیل: ایک ملک کے طور پر ہم سندھ پر انحصار کرتے ہیں۔ ہماری معیشت، ہماری ماحولیات اور ہماری آبادی اسی سے قائم ہے۔ پھر بھی ان سب کو خطرہ ہے کیونکہ سندھ بھی دنیا کے سب سے زیادہ کمزور قدرتی ماحولیاتی نظاموں میں سے ایک ہے۔
لیونگ انڈس انیشی ایٹو کو آنے میں تقریباً ایک سال لگا، جس میں ثالثی کے 25 نکات کی فہرست ہے جن میں سے زیادہ تر فطرت پر مبنی ہیں۔ لیونگ انڈس انیشی ایٹو ایک بحالی کی حکمت عملی ہے جو کہتی ہے کہ ہمارے دریاؤں کی حفاظت ہونی چاہیے اور ہمیں اس کے گردونواح میں تعمیرات کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ انڈس پروٹیکشن ایکٹ تجویز کیا گیا ہے، جو دریا کو قانونی شخصیت کے حقوق دیتا ہے تاکہ ہم آنے والی نسلوں کے لیے اس اہم وسائل کو برقرار رکھ سکیں۔
مالیات میں اب کھربوں کی ضرورت ہے
خان: سیلاب پاکستان کے لیے ایک بہت بھاری نقصان ہے۔ عالمی بینک کا تخمینہ ہے کہ بحالی کے لیے چالیس ارب امریکی ڈالر کی ضرورت ہے۔ پاکستان جیسے ملک کے لیے، جو پہلے ہی قرضوں کی تنظیم نو کے لیے بات چیت کر رہا ہے، اس قسم کی رقم کو بحالی میں لگانا ناممکن ہے۔
اس سال کے سیلاب نے لاکھوں نوجوانوں کے مستقبل کو داؤ پر لگا دیا ہے کیونکہ ان سیلابوں کے نقصانات اگلی نسلوں تک منتقل ہونگے۔ ہمیں مالی امداد کی مد میں ابھی کھربوں کے بارے میں بات کرنے کی ضرورت ہے ان نقصانات کے مقابلے میں جو اب تک ہم نے اٹھائے ہیں اور مستقبل میں بھی ہمیں جن سے واسطہ پڑے گا۔
نبیل: گرین کلائمیٹ فنڈ کے تحت کچھ اقدامات کو وسعت دینے کی ضرورت ہے، مثال کے طور پر ایسی زراعت جو موسمیاتی لحاظ سے لچکدار ( ماحولیاتی تبدیلیوں کے برے اثرات سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت) ہو۔
کوئی فوری حل موجود نہیں
خان: ہمیں یہ ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ دریائے سندھ ایک عبوری دریا ہے۔ مشترکہ بیسن مینجمنٹ کی طرف بڑھنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں پالیسیوں کی اجتماعی ملکیت کے لیے ہم آہنگی کے طریقوں اور ذرائع کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے، اور اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس مسئلے پر بھی اسی طرح نظر ثانی کرنی ہوگی جس طرح ہم نے اپنی ترقی کی رفتار کی منصوبہ بندی کی ہے۔
سلام: ایسا کوئی جادوئی حل موجود نہیں جو صدیوں پرانی استحصالی اور غیر منصفانہ ذہنیت کو بدل سکے۔ ترقی یافتہ ممالک کا یہ رویہ ترقی پذیر ممالک کے حوالے سے کچھ نیا نہیں ہے اور یہ مختلف سطحوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ ہمیں اس قسم کی استحصالی رکاوٹوں کو توڑنے میں تیزی لانے کی ضرورت ہے۔
ہمارے یہاں قدرتی وسائل بھی بہت منظم طور پر بدانتظامی کا شکار ہیں۔ کوئی فوری حل نہیں ہے، لیکن ہمیں پرانی ساخت کے بارے میں بات کرنے کی ضرورت ہے اور ان میں دوبارہ تخفیف کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم عملی اقدام، عدالتی کاروائی، تعلیم اور آگاہی کے ساتھ اس مسئلے سے نمٹ سکتے ہیں۔
(یہ تحریر دی تھرڈ پول پر شایع ہوئی تھی جس کا لنک یہاں دیا جارہا ہے، اس کی مصنّف فرح ناز زاہدی ہیں، جبکہ اردو ترجمہ عشرت انصاری نے کیا ہے، فرح ناز زاہدی معظم دی تھرڈ پول، پاکستان کی ایڈیٹر ہیں)