پاکستان کی سیاست میں وقت بدلتے ہی وفاداریاں تبدیل کرنا ایک روایت بن چکا ہے۔ آج ایک جانب مسلم لیگ ن میں دراڑیں گہری ہو رہی ہیں تو دوسری جانب حکومتی اتحاد پی ڈی ایم میں بھی اتحاد کا فقدان آشکار ہو چکا ہے جو مستقبل قریب میں بڑی سیاسی تبدیلیوں کا سبب بنے گا۔
پاکستان کی موجودہ سیاست میں ایک جانب تنہا لیکن بھرپور اپوزیشن جماعت عمران خان کی ہے تو دوسری جانب 12 جماعتوں کا اتحاد پی ڈی ایم ہے اور ن لیگ کے صدر شہباز شریف کی صورت میں ان کی حکم رانی ہے۔ لیکن جب سے یہ حکومت قائم ہوئی ہے تب سے بڑھتی مہنگائی اور سہولیات کی فراہمی میں ناکامی، ذاتی مفاد میں فیصلے اور ریلیف کے حصول کے لیے اقدامات سے اس کی مقبولیت کم ہوئی ہے جس کا ثبوت بعض غیر جانب دار سروے رپورٹس اور ایک سال کے دوران ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج ہیں۔
یوں تو اس وقت پوری پی ڈی ایم ہی عمومی طور پر عوام کی ناراضی کا شکار ہے لیکن سیاسی طور پر اس وقت سب سے نازک صورتحال مسلم لیگ ن کی ہے۔ اتحادی حکومت ہونے کے باوجود تمام فیصلوں کو بوجھ تنہا ن لیگ ہی اٹھا رہی ہے اور اس کا خمیازہ اسے ہر گزرتے دن کے ساتھ عوام میں بڑھتی غیر مقبولیت کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔
گزشتہ سال تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں جب پی ڈی ایم حکومت بنی تو اس کی بڑی اتحادی جماعتوں نے وہ عہدے اور وزارتیں حاصل کیں جن کا عوامی معاملات بالخصوص روزمرہ کے مسائل سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ جیسا کہ پی پی نے اسپیکر قومی اسمبلی کے ساتھ وزات خارجہ، وزارت موسمیاتی تبدیلی اور دیگر عہدے اور وزارتیں حاصل کیں، جب کہ جے یو آئی نے بھی وزارت مواصلات اور دیگر وزارتوں پر ہاتھ صاف کیا جب کہ ن لیگ خزانہ، داخلہ، ترقی و منصوبہ بندی، تجارت جیسی وزارتیں لے کر سب سے خسارے میں یوں رہی کہ مہنگائی ہو یا دہشتگردی یہ سب ن لیگ کے کھاتے میں جا رہا ہے۔
حکومت پہلے ہی اپنے ہر اقدام سے ملنے والے بیک باؤنس سے پریشان تھی اور اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس مشکل صورتحال سے کیسے نمٹا جائے۔ اسی پریشان کُن صورتحال میں اب ن لیگ میں اندرونی اختلافات نے اس کی قیادت کی مشکلات بڑھا دی ہیں۔ مسلم لیگ ن میں اب مریم نواز کی قیادت کو چیلنج اور ہوئے ان کی قیادت میں کام کرنے سے انکار کیا جانے لگا ہے۔
سیاسی حلقوں میں تو پہلے ہی یہ بازگشت ہے کہ شریف خاندان میں دوریاں پیدا ہوچکی ہیں۔ نواز شریف اپنے چھوٹے بھائی شہباز شریف کی کارکردگی سے خوش نہیں ہیں جس کا گاہے گاہے اظہار مریم نواز بھی کرتی رہتی ہیں۔ وزیراعظم کے صاحبزادے اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب کو سیاسی منظر سے غائب کر دیا گیا ہے اور اب یہ اطلاعات ہیں کہ ن لیگ میں تین سوچیں پنپنے لگی ہیں ایک وہ جو نواز شریف اور مریم نواز کے ساتھ ہیں۔ دوسرے وہ جو شہباز شریف کی مفاہمانہ پالیسی کے حامی اور اس وقت حکومت میں موجود ہیں اور تیسرا پارٹی میں موجود سینیئر رہنماؤں کا وہ طبقہ جو مریم نواز کی قیادت کا بھرپور مخالف ہے۔
مریم نواز کو جب سے مسلم لیگ ن کا چیف آرگنائزر اور سینیئر نائب صدر بنایا گیا ہے یہ اختلافات ڈرائنگ روم سے نکل کر عوام کے سامنے آچکے ہیں۔ سب سے پہلے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی جو نواز شریف کے قریبی ساتھی مانے جاتے ہیں نے مریم نواز کو چیف آرگنائزر بنائے جانے پر پارٹی کے سینیئر نائب صدر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ انہوں نے استعفیٰ دینے کے بعد متعدد مواقع پر اس بات کا میڈیا میں برملا اظہار کیا کہ انہیں مریم نواز کی قیادت میں کام کرنا منظور نہیں بلکہ اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر شاہد خاقان عباسی نے مستقبل میں مریم کو ن لیگ کا صدر بنانے پر پارٹی چھوڑنے کا بھی عندیہ دے دیا ہے۔
صرف شاہد خاقان عباسی ہی نہیں ہیں جو مریم نواز کو پارٹی میں قائدانہ پوزیشن ملنے پر ناراض ہیں بلکہ کہا جارہا ہے کہ سینیئر رہنماؤں کی بڑی تعداد ان کی ہم خیال ہے جو وقت آنے پر کھل کر اس کا اظہار کرسکتے ہیں۔ شاہد خاقان کے بعد سینیئر رہنما اور صوبہ خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ ن کے مرکزی نائب صدر سردار مہتاب عباسی بھی خاموش نہیں رہ سکے اور اقرار کر لیا کہ عمران خان کی حکومت کو گرانا اور پی ڈی ایم کے ساتھ مل کر وفاقی حکومت بنانا بڑی غلطی تھی۔ کے پی میں ن لیگ کے خلاف سازش ہوئی۔ سردار مہتاب عباسی نے کہا کہ ن لیگ چند لوگوں تک محدود کر دی گئی ہے۔ پہلے پارٹی فیصلے کرتی تھی اب صرف چند لوگ کرتے ہیں۔ مریم نواز پارٹی کی قائد کی بیٹی ہیں لیکن پارٹی کی مرکزی قیادت کے ساتھ بیٹھ کر اور جماعت کو ساتھ لے کر فیصلے کیے جائیں تو پارٹی کیلئے بھی اچھا ہوگا۔ اس موقع پر انہوں نے یہ سوال بھی اٹھا دیا کہ جس پارٹی میں شخصیات کی بنیاد پر معاملات چلائیں گے وہ ملک کیسے چلائے گی؟
مسلم لیگ ن خیبرپختونخوا میں بھی اندرونی اختلافات کھل کر سامنے آگئے ہیں، مسلم لیگ ن خیبر پختونخوا کے ترجمان اور سابق رکن اسمبلی اختیار ولی نے ن لیگ کے وزرا کو مغرور قرار دیا ہے اور کہا کہ وفاقی وزرا مسلم لیگ ن کو پنجاب کے چند اضلاع تک محدود کرنا چاہتے ہیں۔
نظریاتی اختلافات اب صرف پارٹی کے اندر اور خاندان سے باہر ہی نہیں رہے بلکہ خاندان کے اندر سے بھی آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔ مریم کے شوہر کیپٹن ریٹائرڈ صفدر بھی پارٹی فیصلوں پر اپنی قیادت پر برس پڑے ہیں ۔ انہوں نے ڈھکے چھپے الفاظ میں ن لیگ کے غیر جمہوری رویوں اور پارٹی میں گروہ بندی کی جانب اشارہ کیا ہے۔ جس کے بعد اطلاعات ہیں کہ مریم نواز نے اپنے شوہر سے اظہار ناراضی کرتے ہوئے ان پر پارٹی پالیسی سے متعلق بیانات دینے پر پابندی لگا دی ہے۔
چدہدری نثار جو نواز شریف کے کئی دہائیوں تک دست راست رہے انہوں نے بھی مریم نواز کو پارٹی میں سینیئر لیڈر شپ سے زیادہ اہمیت دینے پر پارٹی سے علیحدگی اختیار کرلی تھی اور کئی سال سے سیاسی خاموشی اختیار کی ہوئی ہے جب کہ حال ہی میں وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کو اپنے خاندانی عزیز اسحاق ڈار کو منصب دینے کے لیے وزارت سے ہٹا کر پارٹی سے بھی سائیڈ لائن کیا گیا وہ پارٹی رہنماؤں میں پیدا ہونے والی بے چینی کی بھرپور عکاسی کر رہا ہے۔
مریم نواز گو کہ شاہد خاقان عباسی کو اپنا بڑا بھائی اور ان کے اختلافات دور کرنے کے لیے بات چیت کرنے کا عندیہ دے چکی ہیں تاہم یہ صرف بیانات اور کارکنوں کو مطمئن کرنے کی زبانی کوشش کہا جا سکتا ہے کیونکہ شاہد خاقان پہلے ہی مریم نواز کی قیادت کو تسلیم نہ کرنے کا واضح اعلان کرچکے ہیں تو ان سے اب کیا بات ہوسکتی ہے۔ دوسری جانب اس ساری صورتحال میں پارٹی کے اصل قائد نواز شریف کی پراسرار خاموشی اور خاقان سے کوئی رابطہ نہ کرنا بھی عیاں کر رہا ہے کہ شاہد خاقان اور پارٹی قیادت کی سوچ الگ الگ ہوچکی ہے۔
ادھر وفاقی حکومت میں موجود 12 جماعتوں کا اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک الائنس (پی ڈی ایم) بھی انتشار کا شکار ہے۔ قومی اسمبلی سے پی ٹی آئی کے اراکین کے استعفوں کی منظوری کے بعد پہلے مرحلے میں 16 مارچ کو ملک بھر کے 33 حلقوں میں ضمنی الیکشن کے اعلان پر پی ڈی ایم سربراہ مولانا فضل الرحمان نے اس میں حصہ نہ لینے کا دوٹوک اعلان کیا تھا۔ تاہم اس اعلان کو ان کے اتحادیوں نے کوئی اہمیت نہیں دی۔
پہلے ایم کیو ایم نے کراچی سے قومی اسمبلی کے 9 حلقوں پر ہونے والے ضمنی الیکشن لڑنے کا اعلان کیا۔ پھر پیپلز پارٹی نے یہ کہتے ہوئے کہ پی پی اپنے فیصلے کرنے میں آزاد ہے، مولانا فضل الرحمان کے اعلان سے انحراف کر گئی۔ حد تو یہ کہ کاغذات نامزدگی جمع ہوئے تو ن لیگ کی جانب سے بھی کاغذات نامزدگی جمع کرا دیے گئے ہیں۔
اس تمام صورتحال کا مجموعی جائزہ لیا جائے تو صاف پتہ چلتا ہے کہ پی ٹی آئی کی مخالفت میں بننے والے اتحاد پی ڈی ایم میں سیاسی اتفاق نہیں ہے اور آئندہ عام انتخابات اب چاہے وہ قبل از وقت ہوں، مقررہ وقت پر یا پھر کچھ تاخیر سے جب بھی نئے الیکشن کا بگل بجے گا پی ڈی ایم خزاں رسیدہ پتوں کی طرح بکھر جائے گا اور آج ہم نوالہ و ہم پیالہ کل ایک دوسرے کے گریبان پکڑ رہے ہوں گے اور ہوسکتا ہے کہ عوام کو پھر ’’پیٹ پھاڑنے، لاڑکانہ کی سڑکوں پر گھسیٹنے، ڈیزل پرمٹ کی آوازیں، کرپشن کے بادشاہوں کی کہانیاں‘‘ سننے کو ملنے لگیں کہ پاکستانی سیاست میں کچھ ناممکن نہیں ہے۔