ان دنوں پاکستان کی شہرت کا ڈنکا چہار سُو بج رہا ہے۔ دنیا بھر میں میڈیا پر پاکستان کی خبریں جگہ پا رہی ہیں اور یہ سب کسی کارنامے اور نیک نامی کی وجہ سے نہیں بلکہ ملک میں شدید سیاسی اور آئینی بحران، معاشی ابتری، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، کرپشن، ایوان اقتدار میں جاری چوہے بلی کے کھیل اور عوامی کی بدحالی کی خبریں ہیں جس سے پاکستان کا منفی تأثر پختہ ہوتا جا رہا ہے۔
کچھ عرصے سے ہمارے روایتی حریف پڑوسی ملک بھارت کے میڈیا پر تو پاکستان کے سیاسی اور معاشی حوالے سے تسلسل کے ساتھ منفی خبروں کا سلسلہ جاری تھا لیکن جب بحران پر قابو پانے والوں نے اس سے صرفِ نظر کیا تو یہ معاملہ اتنا پھیلا کہ اب امریکا، برطانیہ، یورپ، ایشیا، وسطی ایشیا، مشرق وسطیٰ، افریقہ غرض دنیا کا کون سا ایسا خطہ ہے جہاں پاکستان کے سنگین حالات کا ذکر نہ ہو رہا ہو۔ افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ جو لوگ پاکستان کو ایشین ٹائیگر، ریاست مدینہ، خود مختار اور خودکفیل ملک بنانے کے دعوے کرتے نہیں تھکتے آج ان ہی کے اعمال اور افکار کے باعث دنیا پاکستان کے حالات کو ایتھوپیا، یوگنڈا، سری لنکا جیسی صورتحال کے ساتھ جوڑ رہی ہے۔
اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ غربت، مہنگائی، بے روزگاری کے باعث سسکتی اور دم توڑتی انسانیت ہے لیکن کسی سیاستدان کو سن لیں یا کسی ٹی وی چینل پر نظر ڈالیں تو ملک کا سب سے بڑا مسئلہ یہ نظر آتا ہے کہ الیکشن مئی میں ہوں گے یا اکتوبر میں۔ سنتے تھے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا لیکن ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال دیکھ کر تو لگتا ہے کہ ہماری سیاست دل کے ساتھ دماغی صلاحیتیں بھی کھوچکی ہے۔ سب کا زور الیکشن پر ہے لیکن جس عوام کے ووٹوں کے کاندھوں پر چڑھ کر اقتدار حاصل کرنے کی یہ ساری تگ و دو ہے ان کی کسی کو کوئی پروا نہیں ہے۔
پاکستان یوں تو بانی پاکستان قائداعظم کی وفات کے بعد سے ہی سیاسی محاذ آرائی اور چپقلشوں کا شکار ہو کر حقیقی جمہوریت کی راہ سے دور ہوتا چلا گیا لیکن موجودہ سیاسی صورتحال تو اس قدر گھمبیر ہو چکی ہے کہ سنجیدہ طبقے کے لیے سیاست ایک گالی بنتی جا رہی ہے۔ جو لوگ 90 کی دہائی کی سیاسی چپقلش اور دشمنی پر مبنی انتقامی کارروائیاں بھول گئے تھے انہیں اب وہ بھی اچھی طریقے سے یاد آگئی ہے۔
پی ڈی ایم کی درجن بھر جماعتوں پر مشتمل اس حکومت کو ایک سال ہوگیا ہے۔ اس ایک سال میں بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے گزر چکا ہے جو اپنے ساتھ عوام کی امیدوں، معاشی استحکام، سیاسی برداشت، مساوات اور نہ جانے کیا کچھ بہا کر لے گیا ہے اور اب تو ہر طرف جمہوریت اور سیاست کے نام پر مخالفین پر رکیک اور شرمناک الزام تراشیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔
ملک کی تاریخ میں پہلی بار عوام نے مہنگا اور خونیں رمضان گزارا ہے۔ دنیا نے یہ تماشا دیکھا کہ روزے میں بزرگ مرد و خواتین 10 کلو آٹے کے تھیلے کے لیے ہزاروں کی بھیڑ میں اپنی عزت نفس گنواتے اور جانیں لٹاتے رہے۔ اس سال تو زکوٰۃ کی تقسیم جیسا فریضہ بھی خونریز ثابت ہوا اور کراچی میں ایک مل کے گیٹ پر چند ہزار روپوں کے لیے درجن بھر جانیں قربان ہوگئیں۔
ایک سال میں عوام کا سکھ چین سب ختم ہوگیا لیکن سیاسی خلفشار، عدم اطمینان، بے چینی ختم ہونے کے بجائے بڑھتی گئی۔ حکومت بدلی لیکن 75 برسوں سے وعدوں پر ٹرخائی جانے والی عوام کی قسمت پھر بھی نہ بدل سکی اور اس کی جھولی میں سوائے وعدوں اور نام نہاد دعوؤں پر مبنی سکوں کے کچھ نہیں گرا۔
آج صورتحال یہ ہے کہ مہینوں تک ترلے منتیں کرنے اور سخت شرائط مان کر عوام پر عرصہ حیات تنگ کرنے کے باوجود آئی ایم ایف سے صرف ایک ارب ڈالر قرض کا معاہدہ نہیں ہو پا رہا ہے اور روز نت نئی شرائط عائد کر رہا ہے۔ دوست ممالک لگتا ہے کہ دہائیوں سے ایک ہی ڈرامے کا ری پلے بار بار دیکھ کر اتنے تنگ آچکے ہیں اور وہ بھی کوئی خاص مدد کے لیے آگے نہیں آرہے ہیں۔
اگر ہم اپنے چاروں طرف پڑوسی ممالک اور خطے کے دیگر ملکوں پر نظر دوڑائیں تو ہمارا ازلی دشمن قرار دیے جانے والا بھارت اپنے سیٹلائٹ خلا میں بھیج رہا ہے اور دنیا کی چوتھی بڑی معیشت بن چکا ہے۔ بنگلہ دیش جو کبھی ہمارا ہی حصہ ہوا کرتا تھا آج وہاں ترقی کا یہ عالم ہے کہ وہ ہماری معیشت سے کافی آگے نکل چکا ہے، 20 سال امریکی جنگ سے نبرد آزما افغانستان کی معیشت ایک اعتبار سے ہم سے بہتر ہے۔ ایران مسلسل کئی دہائیوں سے امریکی عتاب کا شکار ہے مگر وہاں خاص سطح پر معاشی استحکام نمایاں ہے جب کہ ہمارا قومی کشکول دراز ہوتا جا رہا ہے۔
اس وقت ملک کی سوئی الیکشن پر اٹکی ہوئی ہے۔ سپریم کورٹ نے دوسری بار واضح حکم دیا کہ پنجاب میں 14 مئی کو الیکشن ہونے ہیں لیکن جنہوں نے اس پر عملدرآمد کرنا ہے وہ اس کو ماننے کو تیار نہیں ہیں بلکہ نئی نئی تاویلیں گھڑ کر لائی جاتی رہی ہیں۔ اب عدالت عظمیٰ میں ملک میں بیک وقت الیکشن کے حوالے سے درخواستیں زیر سماعت ہیں اور عدالت عظمیٰ بحران سے نکلنے کے لیے سیاسی جماعتوں کو مذاکرات کی تجویز دے چکی ہے۔ فریقین کے درمیان مذاکرات کی تین نشستیں کسی تصفیے پر پہنچے بغیر ختم ہوگئیں جس پر حکومت نے ایک بار پھر مذاکرات کا ڈول ڈالتے ہوئے عدالت نے مزید مہلت طلب کی ہے تاہم سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ اگر سیاسی جماعتوں کے مذاکرات کسی نتیجے پر نہیں پہنچے تو عدالت اپنا 14 مئی کا فیصلہ لے کر بیٹھی نہیں رہے گی۔
اب گیند سیاستدانوں کی کورٹ میں ہے لیکن یہاں اناؤں کی بلا اتنی حاوی ہے کہ کوئی جھکنے اور ملک و قوم کی خاطر رویوں میں نرمی لانے پر تیار نہیں ہے۔ سب کی خواہش ہے کہ عوام پر حکمرانی کریں لیکن عوام کو اس کے بدلے میں دینے کے لیے ان کے پاس کچھ بھی نہیں سوائے دلاسوں کے۔
ہمارے سیاستدان شاید اپنی اپنی اناؤں کو ملکی وقار، سلامتی معاملات اور عوامی مفاد سے افضل سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ مذاکرات کے باوجود ایک دوسرے پر الزام تراشی کا سلسلہ جاری ہے اور مذاکرات کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جس پی ڈی ایم سے اپوزیشن پارٹی پی ٹی آئی کے مذاکرات ہو رہے ہیں اس کے سربراہ فضل الرحمان ان مذاکرات کے سخت خلاف اور مذاکراتی عمل سے مکمل طور پر باہر ہیں جب کہ حکومت کو لندن سے کنٹرول کرنے والے نواز شریف بھی ان مذاکرات کے لیے رضامند نہیں ہیں۔
مذاکرات جو اب تک ناکام ہی نظر آتے ہیں اس میں دونوں فریقین کے مطابق قومی اسمبلی توڑنے کی تاریخ پر اتفاق نہیں ہوسکا ہے۔ بہرحال فریقین بے شک ان مذاکرات کے بارے میں کچھ بھی کہیں حقیقت یہ ہے کہ یہ مذاکرات ناکام ہوچکے ہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ خدشات، بے یقینی، بدگمانی کے ساتھ جھوٹی اناؤں کا خول بھی ہے جو تمام معاملات پر حاوی ہے۔
دنیا کا اصول ہے کہ جب بھی کسی گمبھیر مسئلے پر بات چیت کی جاتی ہے تو کچھ دو اور کچھ لو کے اصولوں پر مذاکرات ہوتے ہیں۔ اس سے پہلے فریقین کے درمیان بدگمانی اور بداعتمادی کی فضا دور کی جاتی ہے اور جو صاحب اختیار اور اقتدار ہوتا ہے اس پر زیادہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ یہ ماحول پیدا کرے لیکن یہاں تو معاملات ہی الٹے رہے۔
مذاکرات کے لیے دونوں فریقین نے کمیٹیاں بنائیں لیکن مذاکرات شروع ہوئے تو پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے خلاف آپریشن اور گرفتاریوں کا عمل شروع ہوگیا۔ جب سراج الحق عمران خان سے ملاقات کرکے اور انہیں ملک کو بحران سے نکالنے کے لیے حکومت سے مذاکرات کا مشورہ دے کر آئے تھے تو اس کے فوری بعد پی ٹی آئی سندھ کے صدر علی زیدی کو گرفتار کیا گیا اور جب مذاکرات کی بات آگے کمیٹیوں تک پہنچی تو علی امین گنڈاپور کو حراست میں لے کر ملک بھر میں گھمایا گیا لیکن سب سے تشویشناک صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب رات کی تاریکی میں عدالتی حکم کے برخلاف پی ٹی آئی کے مرکزی صدر اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی کی رہائشگاہ پر چھاپہ بلکہ کئی چھاپے مارے گئے جو صورتحال کو سنبھالنے کے بجائے مزید بگاڑ کی جانب لے گئے۔
وزیراعظم شہباز شریف جب وزیراعلیٰ پنجاب تھے تو خادم اعلیٰ کے ساتھ شہباز اسپیڈ کے نام سے جانے جاتے تھے اور اس کی وجہ ن لیگ کا حلقہ احباب پنجاب میں تیز رفتار ترقیاتی کام بتاتا ہے، لیکن وزیراعظم بننے کے بعد ان کی اسپیڈ دنیا کی سب سے بڑی جہازی سائز کابینہ بنانے اور مخالفین پر مقدمات بنانے میں ہی نظر آتی ہے۔ ان کی 83 رکنی کابینہ نے جہاں دنیا کی سب سے بڑی کابینہ کا اعزاز پایا ہے اسی طرح سابق وزیراعظم پر چند ماہ میں 122 سے زائد مقدمات کا قائم ہونا بھی اپوزیشن رہنما کے خلاف مقدمات کے اندراج کا شاید عالمی ریکارڈ قائم کردے کیونکہ پی ٹی آئی رہنما خدشہ ظاہر کرچکے ہیں کہ حکومت جلد عمران خان کے خلاف مقدمات کی ڈبل سنچری مکمل کرلے گی۔
ملک میں جاری اس پُتلی تماشے کو عوام 75 سالوں سے دیکھ کر رہی ہے۔ پپٹ یعنی پتلیاں بدل جاتی ہیں لیکن کھیل معمولی رد وبدل کے ساتھ جاری رہتا ہے۔ لیکن ایسا کب تک چلے گا کیا جمہوریت میں جمہور کے کچھ حقوق نہیں ہوتے؟ یہ وہ سوال ہے جو آج ملک کا ہر شخص صاحب اختیار و اقتدار کے مستقبل میں ان پر حکمرانی کے سہانے خواب دیکھنے والوں سے پوچھ رہا ہے۔ اگر کسی کو اس جمہور کا خیال ہے تو پھر انا کے خول کس لیے؟ خلیفہ دوم سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو یہ کہہ کر رہتی دنیا تک آنے والے حکمرانوں کے لیے مثال قائم کر گئے کہ ’’اگر دریائے فرات کے کنارے کوئی کتا بھوک سے مر جائے گا تو اس کا ذمے دار عمر ہوگا‘‘ دنیا کے مختلف ممالک کا نظام دیکھ کر لگتا ہے کہ ان کے اس طریقہ حکمرانی کو اغیار نے اپنا لیا لیکن آج ان کے نام لیوا کو کیوں اپنی عوام کی پروا نہیں اور کیوں ان کے ملک میں بھوک، غربت اور بیروزگاری کے باعث خودکشیاں بڑھتی جا رہی ہیں؟ یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے جو باضمیر لوگوں کو ضرور کچوکے لگائے گا لیکن صاحب اختیار اور بااختیار میں ایسے کتنے ہیں؟