The news is by your side.

بلدیاتی ایوان کو قائد کاانتظار، عوام مسائل کے حل کے لیے پُرامید

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں کئی سال کی تاخیر کے بعد سپریم کورٹ کے حکم پر سالِ رواں میں بلدیاتی الیکشن ہوئے تھے جو چند دن قبل ضمنی انتخاب کے ساتھ ہی مکمل ہوگئے ہیں اب مرحلہ ہے شہر قائد پر کے میئر کے انتخاب کا!

میئر کراچی کے لیے بالخصوص سندھ پر 15 سال سے مسلسل حکم رانی کرنے والی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی اور تین بار کراچی میں اپنا ناظم و میئر لانے والی جماعتِ اسلامی سرگرم نظر آرہی ہیں۔ اس حوالے سے دونوں طرف سے سیاسی کوششوں کے ساتھ ایک دوسرے کے خلاف لفظی گولہ باری اور روایتی الزامات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
الیکشن کمیشن نے بلدیاتی الیکشن میں پارٹی پوزیشن کا جو نوٹیفکیشن جاری کیا ہے اس کے مطابق پیپلز پارٹی شہر قائد کی سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی ہے اور کراچی کی 246 یونین کمیٹیوں میں سے 104 پر کامیاب ہوئی ہے۔ جماعت اسلامی 87 یوسیز جیت کر دوسرے نمبر پر ہے جب کہ پی ٹی آئی 42 یوسی پر فتح حاصل کر پائی اور تیسرے بڑی پارٹی قرار پائی۔ ن لیگ 8، جے یو آئی (ف) 3 جب کہ ٹی ایل پی ایک نشست جیتنے میں کامیاب رہی۔

کراچی میں نئے بلدیاتی ڈھانچے کے مطابق کے ایم سی کا ایوان 367 ارکان پر مشتمل ہے جس میں 246 ارکان براہ راست منتخب کیے گئے یوسی چیئرمین ہیں جب کہ 121 ارکان مخصوص نشستوں پر پارٹی نمائندگی کی بنیاد پر منتخب ہوں گے۔ ایوان میں خواتین کی 81، مزدوروں، اقلیتوں اور نوجوانوں کی 12، 12 اور خواجہ سرا اور خصوصی ارکان کے لیے 2، 2 نشستیں ہیں۔

الیکشن کے نتائج یقینی طور پر حیران کن ہیں، کیونکہ پاکستان اور پیپلز پارٹی کی سیاسی تاریخ میں کبھی اس شہر کے ووٹروں نے پیپلز پارٹی کو قبولیت کی اتنی بھاری سند نہیں دی ہے۔ ان نتائج پر جہاں شہری انگشت بدنداں ہیں وہیں جماعت اسلامی، پی ٹی آئی سمیت دیگر جماعتوں حتیٰ کہ وفاق میں اتحادی جے یو آئی ف نے بھی پیپلز پارٹی پر دھاندلی کے الزامات عائد کیے اور پھر ووٹنگ کے وقت کی جو ویڈیوز ملکی ذرایع ابلاغ پر دکھائی گئیں اور سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں ان کو دیکھتے ہوئے تو یہ الزامات غلط بھی نظر نہیں آتے۔

چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری تو بلدیاتی الیکشن سے قبل ہی اپنا کراچی میئر لانے کے دعوے کرتے تھے۔ وہ واضح سادہ اکثریت تو نہ لاسکے لیکن پی پی سب سے بڑی پارٹی بن کر ضرور سامنے آئی ہے ، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ یہ کہہ چکے تھے کہ کراچی سمیت سندھ بھر میں پیپلز پارٹی کے میئر منتخب ہوں گے یعنی عملی طور پر پی پی کا راج نچلی سطح تک ہوگا۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت تن تنہا اپنا میئر لانے کی پوزیشن میں نہیں ہے کیونکہ کسی بھی جماعت کو اپنا میئر لانے کے لیے 184 ووٹوں کی ضرورت ہوگی۔ پیپلز پارٹی گو کہ سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی ہے اور اس نے شہر قائد کے میئر کے لیے مرتضیٰ وہاب کو نامزد کیا ہے تاہم اگر وہ اپنی وفاق میں اتحادی ن لیگ، جے یو آئی ف کے علاوہ ٹی ایل پی کی ایک سیٹ کو بھی ساتھ ملا لے تب بھی اپنا میئر لانے کی پوزیشن میں نہیں جب تک کہ مخالف پارٹی میں اکھاڑ پچھاڑ کر کے اپنی منشا پوری نہ کی جائے جس میں 9 مئی کے بعد پی ٹی آئی کی موجودہ صورتحال کی وجہ سے کوئی مشکل بھی نظر نہیں آتی۔

دوسری جانب جماعت اسلامی جس کی جانب سے میئر کے امیدوار حافظ محمد نعیم ہیں وہ اگر پی ٹی آئی سے اتحاد کر لیتے ہیں تو ان کا ناظم باآسانی آسکتا ہے جیسا کہ میڈیا میں خبریں بھی آ رہی ہیں کہ دونوں جماعتوں میں اس حوالے سے بات چیت جاری ہے۔

جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی میں لفظی گولہ باری جاری ہے اور دونوں جانب سے الزامات اور اپنا میئر لانے کے دعوے کیے جا رہے ہیں۔ شہر کراچی کی کنجی کس کے ہاتھ ہوگی، یہ وقت دور نہیں۔ ہم نظر ڈالتے ہیں کراچی میں بلدیاتی اداروں کی تاریخ پر جو قارئین کی دلچسپی کا باعث بنے گا۔

شہر کراچی گوناگوں معاشی‘ صنعتی‘ تعلیمی‘ تہذیبی اور ثقافتی سرگرمیوں کے سبب دنیا بھر میں اپنی ایک نمایاں شناخت رکھتا ہے۔ اپنی آبادی کے لحاظ سے دنیا کا بارہواں بڑا شہر ہے۔ دنیا کے 78 ملکوں کی مجموعی آبادی اس شہر کی آبادی سے کم ہے۔

برصغیر پاک و ہند میں بلدیاتی نظام کی ابتدا جن شہروں سے ہوئی کراچی ان میں سے ایک ہے۔ یہاں 176 سال سے زیادہ عرصہ سے بلدیاتی نظام قائم ہے۔ قیام پاکستان کے بعد مختلف ادوار میں 7 بلدیاتی نظام نافذ کیے گئے۔ 17 فروری 1843ء کو لیفٹیننٹ جنرل سر چارلس نیپئر کی قیادت میں انگریزوں نے سندھ پر قبضہ کیا تو وہ سندھ کے گورنر کے عہدے پر فائز ہوئے پھر انگریزوں نے 100 سال کے دوران بلدیات کے حوالے سے کئی اصلاحات کیں جن سے کراچی اس دور میں ایک جدید شہر کے طور پر ابھر کر سامنے آیا۔ شہر کی ترقی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب 1939ء میں کراچی میں میئرز کانفرس کا انعقاد کیا گیا جس میں برما اور دوسرے ملکوں کے میئرز نے شرکت کی اور یہ کراچی میں اپنی نوعیت کی پہلی اور منفرد کانفرنس تھی۔ اس کانفرنس میں آنے والے میئرز نے کراچی کی ترقی کو سراہا اور شہریوں کے لیے نیک خواہشات کا بھی اظہار کیا۔ تاہم شہر قائد میں باقاعدہ بلدیاتی حکومت کا آغاز 1933 سے ہوا۔ وقت کے ساتھ ساتھ شہر بڑا ہوا تو نظام میں تبدیلی بھی کی جاتی رہی۔ کراچی بندرگاہ پر تجارتی سر گرمیاں بڑھنا شروع ہوئیں تو 1933 میں انگریز حکمرانوں نے سٹی آف کراچی میونسپل ایکٹ نافذ کیا، برطانوی راج نے دیہی شہری تقسیم کو مقامی سطح پر متعارف کرایا۔ شہری کونسلیں میونسپل سروسز کو پورا کرنے کے لیے بنائی گئی تھیں جبکہ دیہی کونسلوں کو مقامی اشرافیہ سے ہم آہنگ کرنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ جمشید نسروانجی کراچی کے پہلے میئرمنتخب ہوئے جو آج بھی جدید کراچی کے بانی کہلاتے ہیں۔ ابتدائی طور پر میونسپل کارپوریشن میئر، ڈپٹی میئر اور 57 کونسلرز پر مشتمل تھی ، اس نظام میں عملی طور پر ڈپٹی کمشنر انتظامی طور پر با اختیار تھا۔

1947 میں جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو یہاں بلدیاتی نظام پہلے سے موجود تھا اس وقت کراچی کی آبادی 3 لاکھ کے قریب تھی اور بنیادی سہولتیں میسر تھیں، ہر صبح کراچی کی سڑکوں کو دھویا جاتا تھا۔ شام گئے روشنی کے لیے مٹی کے تیل سے چراغ روشن کیے جاتے تھے۔ سڑکوں پر بگھی‘ گھوڑا گاڑی‘ اونٹ گاڑی کے ساتھ ساتھ ٹرام سروس اور بسوں کا نظام بھی تھا۔

قیام پاکستان کے وقت حکیم محمد احسن کراچی میونسپل کارپوریشن کے میئر کے عہدے پر فائز تھے۔ انہوں نے بحیثیت میئر کراچی ایئرپورٹ پر بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا استقبال کیا۔ یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ 1933ء کے ایکٹ کے تحت میئر کے عہدے کی مدت ایک سال مقرر تھی۔ اس وقت کراچی میں مسلمان ‘ ہندو اور پارسی رہائش پذیر تھے اور یہ طے کیا گیا تھا کہ ایک سال میئر پارسی‘ ایک سال ہندو اور ایک سال مسلمان ہوگا۔ تاہم جب قیام پاکستان کے بعد ہندوؤں کی بڑی تعداد بھارت ہجرت کرگئی تو یہ ایکٹ تبدیل کر دیا گیا۔

25 اگست 1947 کو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کو شہری استقبالیہ دیا گیا جس میں وزیراعظم لیاقت علی خان اور مادر ملت فاطمہ جناح بھی شریک تھیں۔ اس موقع پر میئر حکیم محمد احسن نے بلدیہ کو درپیش خاص خاص مسائل قائداعظم کے سامنے پیش کیے تھے۔ رئیس بلدیہ کا یہ سپاس نامہ اپنے محبوب قائد اور پاکستان کے پہلے گورنر جنرل سے بلدیہ کراچی کے اختیارات میں توسیع کا مطالبہ تھا۔ اس کے بعد بھی آنے والے میئر کراچی بھی ان ہی اختیارات کا مطالبہ کرتے رہے۔

1958 میں جنرل ایوب خان نے بیسک ڈیمو کریسی (بی ڈی) کا نظام متعارف کروایا۔ اس نظام کے تحت غیر جماعتی بنیادوں پر بلدیاتی انتخابات کروائے گئے۔ منتخب ہونے والے بلدیاتی نمائندے ضلعی بیوروکریسی کے ماتحت کام کرتے تھے۔ یہ نظام 2 اداروں پر مشتمل تھا۔ کراچی میونسپل کارپوریشن اور ڈویژنل کونسل تاہم 1973 میں یہ نظام ختم کر دیا گیا۔ 1973 میں سندھ حکومت نے سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ متعارف کروایا۔ اس نظام کے تحت کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن کا قیام عمل میں آیا۔ 1976 میں بڑھتی آبادی کے ساتھ ہی اس کو بلدیہ کراچی سے بلدیہ عظمیٰ کراچی کا درجہ دے دیا گیا اور ایکٹ میں ایک ترمیم کے ذریعے کراچی کو ڈویژن قرار دیتے ہوئے 4 اضلاع میں تقسیم کر دیا گیا جنہیں کراچی ضلع شرقی، ضلع غربی، ضلع جنوبی اور کراچی سینٹرل کے نام دیے گئے بعد ازاں 90 کی دہائی میں ملیر ضلع کے نام سے ایک اور ضلع کا اضافہ کیا گیا۔ اس ایکٹ کے ذریعے بلدیات میں بیورو کریسی کے کردار کو ختم کر دیا گیا تھا اور براہ راست انتخابات کے ذریعے اراکین کی نمائندگی فراہم کی تھی شاید یہی وجہ تھی کہ اس نظام کے تحت بلدیاتی انتخابات منعقد نہیں ہو سکے۔ 1979 میں اس وقت کے فوجی حکمران جنرل ضیاالحق مرحوم نے سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس متعارف کروایا جو مشرف دور کے آغاز تک قائم رہا۔

جنوری 2000 میں اس وقت کی جنرل پرویز مشرف کی فوجی حکومت نے لوکل گورنمنٹ آرڈینس پاکستان نافذ کیا۔ اس نظام کے تحت کراچی میں سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ وجود میں آئی۔ کراچی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کو 18 ٹاؤنز میں تقسیم کیا گیا اور اس نظام کے تحت میئر کراچی کو انتظامی حوالے سے فیصلے کرنے کا اختیار دیا گیا اور اس کا عہدہ ناظم میں تبدیل کیا گیا۔ اس نظام کے تحت پہلی بار ضلعی بیورو کریسی منتخب نمائندوں کے سامنے جوابدہ تھی۔ اس بلدیاتی نظام میں ٹاؤن اور یو سی کی سطح پر منتخب میونسپل انتظامیہ پانی، صفائی، سالڈ ویسٹ مینجمنٹ اور سڑکوں، پارکوں، اسٹریٹ لائٹس کی تعمیر و مرمت اور ٹریفک انجینئرنگ کی منصوبہ بندی کر سکتی تھی تاہم 14 فروری 2010 کو پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے لوکل گورنمنٹ آرڈیننس اور کراچی سٹی گورنمنٹ کو ختم کر دیا۔

2013 طویل انتظار کے بعد سپریم کورٹ کے حکم پر سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ ایکٹ متعارف کرایا گیا اور عدالت عظمیٰ کے حکم پر ہی 2015 میں ایس ایل جی اے کے تحت کراچی میں بلدیاتی انتخابات کروائے گئے جس کے نتیجے میں میئر اور ڈپٹی میئر اور شہر کے چھ اضلاع میں چیئرمین منتخب ہوئے۔ جن میں نیا ضلع کورنگی شامل تھا بعد ازاں کراچی میں کیماڑی کے نام سے ایک اور ضلع کا اضافہ کیا گیا جو تاحال آخری اضافہ ہے۔

2013 کے اس بلدیاتی قانون میں متعدد بار ترامیم کی گئیں اور اسی کی بنیاد پر شہر کراچی کی بلدیاتی حد بندی بھی کی گئی جس پر ایم کیو ایم، جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی نے احتجاج کیا بلکہ ایم کیو ایم نے تو اس کو جواز بناتے ہوئے حالیہ بلدیاتی الیکشن کا مکمل بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا جس کے باعث ملک کے سب سے بڑے شہر پر راج کرنے والی ایم کیو ایم کی آج کراچی کے بلدیاتی ایوان میں نمائندگی زیرو ہے اور چار دہائی بعد یہ پہلا موقع ہے کہ کے ایم سی کا ایوان ایم کیو ایم کی نمائندگی کے بغیر ہوگا۔

پیپلز پارٹی نے کراچی کے لیے مرتضیٰ وہاب کو میئر کا امیدوار نامزد کیا ہے تاہم وہ براہ راست منتخب ہوکر نہیں آئے ہیں اس لیے ان کے میئر کا انتخاب لڑنے کی گنجائش نکالنے کے لیے اب اس میں ایک اہم ترمیم اور کی گئی ہے اور پیپلز پارٹی نے جو مشرف کے بلدیاتی نظام 2002 کی سخت مخالف رہی ہے اب اسی قانون کے مساوی ایک ترمیم کر ڈالی جس کی سندھ کے ایوان نے منظوری دے دی جس کے تحت اب غیر منتخب شخص بھی میئر بننے کا اہل ہوگا۔

1956 تک اس شہر کے 20 میئر منتخب ہوئے پھر اس کے بعد یہ سلسلہ طویل مدت تک رک گیا۔ 1979 میں عبدالستار افغانی جن کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا وہ دو بار میئر منتخب ہوئے۔ 1988 میں ایم کیوایم کے 28 سالہ ڈاکٹر فاروق ستار میئر کراچی منتخب ہوئے جن کو اس وقت کراچی کے کم عمر ترین میئر ہونے کا اعزاز حاصل ہوا، 1992 میں انہوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ اس کے بعد 9 سال تک پھر کراچی بغیر بلدیاتی اداروں کے بیوروکریسی کے سہارے چلتا رہا، 9 سال بعد جب 14 اگست 2001 میں مشرف حکومت نے نیا بلدیاتی نظام متعارف کرایا تو کراچی کی قسمت سنور اٹھی۔ اس نظام کے تحت جماعت اسلامی کے نعمت اللہ ایڈووکیٹ شہر قائد کے پہلے ناظم اور 23 ویں میئر منتخب ہوئے اور ان کا دور ترقیات کے حوالے سے شہریوں کے ذہن ودلوں میں ہمیشہ خوشگوار یاد بن کر رہے گا۔ ان کے بعد 2005 میں ایم کیو ایم کے مصطفیٰ کمال ناظم کراچی منتخب ہوئے تو ترقی کا سفر مزید تیزی سے جاری رہا اور کراچی شہر کا نقشہ بدل گیا۔ مصطفیٰ کمال کی صلاحیتوں کو بین الاقوامی طور پر بھی سراہا گیا اور ان کا شمار دنیا کے بہترین میئرز (ناظم) میں کیا گیا۔

2010 میں جب مصطفیٰ کمال اپنی مدت پوری کرکے رخصت ہوئے تو 5 سال تک یہ شہر پھر بلدیاتی نمائندوں سے محروم رہا۔ سپریم کورٹ کے حکم پر الیکشن ہوئے اور متحدہ کے نامزد وسیم اختر نئے بلدیاتی قانون کے تحت میئر کراچی منتخب ہوئے لیکن یہ دور شہریوں کے لیے کوئی خوشگوار دور نہیں کہلائے گا کیونکہ اس دور میں شہر اور شہریوں نے ترقی کے بجائے صرف گلے شکوے، اپنے سابقہ اتحادیوں سے رنجشوں اور محرومیوں اور بے اختیاری کا رونا روتی پریس کانفرنسوں کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا۔

سیاسی جوڑ توڑ ہو یا کوئی اتحاد، میئر پیپلز پارٹی کا ہو یا جماعت اسلامی کا، شہر کو ایسا میئر چاہیے جو سیاسی اور لسانی تعصب سے بالاتر ہوکر اس شہر کی وہ خدمت کرسکے کہ اس کا نام تاریخ میں درج ہوسکے لیکن یہ اس وقت تک سوال ہی رہے گا جب تک اہل کراچی اپنی آنکھوں سے کراچی کی تقدیر سنورتے نہ دیکھ لیں۔ شہریوں کے ذہنوں میں تو یہ سوال گردش کر رہا ہے کہ کیا کراچی کو دہائیوں سے درپیش مسائل جو مسلسل نظر انداز کیے جانے اور بلدیات سے متعلق اداروں کی تقسیم در تقسیم سے انتہائی پیچیدہ صورت اختیار کرچکے ہیں وہ حل ہوسکیں گے۔ نیا میئر کراچی کو دوبارہ روشنیوں کا شہر اور عروس البلاد کا درجہ دلا سکے گا یا یہ دورانیہ بھی سابقہ ادوار کی کوتاہیاں گنتے اور اپنی مجبوریاں بیان کرتے ہی گزرے گا۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں