The news is by your side.

ڈالر محفوظ رکھنا ضروری ہے یا ‘ڈار’ کو؟

مالیاتی ،اقتصادی اعداد و شمار اورخبر رسا نی کے معروف پلیٹ فارم بلومبرگ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف پروگرام نہ ملا تو اس کے معاشی حالات مزید ابترہو سکتے ہیں. پاکستان آئی ایم ایف سے اکتوبر میں نئے پروگرام پر مذاکرات کر سکتا ہےمگر پاکستان کے لیے دسمبر تک ڈالر محفوظ رکھنا ضروری ہے،تاہم بعض ماہرینِ معیشت یہ کہہ رہے ہیں کہ حکومت کی جانب سے اس کے لیے اقدامات نہیں کیے جارہے.

پاکستان کی دگرگوں معاشی حالت اس بوڑھے کی مانند ہوچلی ہے جس کے لیے کہا جائے کہ ’’پاؤں قبر میں لٹکے ہیں.‘‘ اور اس کے بارے میں یہ گمان کیا جاتاہو کہ یہ اب گیا، تب گیا۔

معاشی طور پر پاکستان کے دیوالیہ ہونے سے متعلق بھی اسی طرح کی پیشگوئیاں عالمی مالیاتی ادارے اور بڑے ممالک کر رہے ہیں۔ پاکستان میں بھی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ملک کو تاریخ کے بدترین معاشی عدم استحکام کا سامناہے۔

75 سال سے یہ قوم تو کئی معاملات میں نازک ترین موڑ پرہی کھڑی ہے، لیکن معاشی میدان میں مسلسل ابتری اچھا شگون نہیں۔ گزشتہ سوا سال کے دوران موڈیز، فچ اور اسٹینڈر اینڈ پوئرز (ایس اینڈ پی) کے اعداد وشمار اورجائزہ رپورٹوں میں مسلسل گرتی ہوئی ریٹنگ نے پاکستان کے لیےخطرے کی گھنٹی بجا دی تھی اور ایسے میں بلومبرگ کی تنبیہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں، لیکن لگتا ہے کہ حکمراں’’ڈالر بچانے‘‘ کے بلومبرگ کے مشورے کو غلط سمجھےاور ڈالر کے بجائے ’’ڈار‘‘ کو بچانے کی مہم پر نکل کھڑے ہوئے۔

کہنے والے تو کہتے ہیں ملک کو شدید معاشی نقصان گزشتہ نواز دور حکومت میں ڈار کی پالیسیوں سے پہنچا تھا لیکن لاکھ تنقید کے باوجود انہیں ایک بار پھر معیشت کا پہیہ گھمانے کے لیے لندن سے بلایا گیا۔ کہتے ہیں نا کہ عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتا اور پھر شاید یہی عشق نا تمام تھا کہ چار سال کے عرصے میں ن لیگ کو کوئی نہیں بھایا اور دوبارہ اقتدار میں آنے کا موقع ملا تو اس کی نظر سات سمندر پار، دور افق پرچمکتے ستارے پر پڑی اور جس نے پاکستان آکرایسی کرشمہ سازی کی کہ اس چکاچوند میں سب کی آنکھیں خیرہ ہوگئی ہیں۔

ڈار سے ن لیگ کی محبت گویا ان اشعار کی تشریح ہے .

قسم خدا کی اک تری تلاش میں
گلی گلی نگر نگر گیا ہوں میں
تو ہی خیال میں رہا اے جانِ جاں
اے جانِ جاں جدھر جدھر گیا ہوں میں

ڈار بھی تو ڈان کی طرح ’’ارے دیوانو، مجھے پہچانو، کہاں سے آیا، میں ہوں کون؟ میں ہوں ڈار، میں ہوں ڈار، میں ہوں میں ہوں، میں ہوں ڈار…‘‘ کی عملی تفسیر بن کر آئے اور آتے ہی ڈالرکے نرخ میں وقتی کمی کو اپنی کرشمہ سازی قرار دے ڈالا اور کہا کہ میں آگیا ہوں اس لیے ڈالر ڈر گیا۔ ان کا دعویٰ کہ ڈالر 200 سے زائد نہیں ہوسکتا آج اوپن مارکیٹ میں 300 روپے سے زائد پرفروخت ہوکر انہیں منہ چڑا رہا ہے۔

ڈار آئے تو تھے ڈالر کو اپنا ڈر دکھانے لیکن وہ ان کے ہاتھوں سے نکل کر آج کل 300 روپے سے اوپر کی ڈال پر جھول رہا ہے اور لہک لہک کرگاتا جارہا ہے کہ ’’ہم سا ہو تو سامنے آئے.‘‘

گزشتہ دنوں مسلم لیگ ن کی مرکزی جنرل کونسل اجلاس ہوا جس میں حسبِ دستور شریف خاندان بلا مقابلہ پارٹی کے اہم عہدوں پر منتخب ہوگیا لیکن اسحاق ڈار پر تنقید کرنے والے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کو کوئی عہدہ نہیں دیا گیا. اجلاس کے بعد شہباز شریف نے اپنی تقریرمیں کہا کہ اسحاق ڈار کے خلاف باتیں کرنے والوں کو پارٹی میں رہنے کا کوئی حق نہیں. جس سے سب کو یہ معلوم ہوگیا کہ حکومت اس وقت ڈالر کی بچت کے لیے نہیں بلکہ ڈار کو بچانے کے لیے فکرمند ہے۔

کبھی کے دن بڑے اور کبھی کی راتیں، یہ وہی ڈار ہیں جو نواز شریف کو نا اہل کیے جانے کے بعد پاناما کیس میں ان کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن گئے تھے لیکن آج ڈار کو بچانے کے لیے مسلم لیگ ن کے صدر کو میدان میں آنا پڑا۔ ن لیگ کی اس کرم فرمائی پر ہم کیاکہہ سکتےہیں، لیکن بشیر بدر کا یہ شعر بہت کچھ بتاسکتا ہے۔

کچھ تو مجبوریاں رہی ہوں گی
یوں کوئی بے وفا نہیں ہوتا

ڈار، خاندان کے فرد ہیں جو کچن کیبنٹ سے بڑھ کر ہوتا ہے۔عوام کوتو سیاست جاری رکھنے اور پارٹی چلانے کے لیے ہمیشہ ہی قربان کیا جاتا رہاہے، لیکن ڈار کے لیے دو رہنما قربان کردیے گئے۔ ڈار سے یہ شریفانہ محبت ابھی کیا گل کھلائے گی اور کس کس کی قربانی لے گی یہ وقت ہی بتائے گا .

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں