The news is by your side.

کیا آئی سی سی ورلڈ کپ میں گرین شرٹس ایشیا کپ کی ناکامی کا داغ دھو سکے گی؟

بھارت کے آٹھویں مرتبہ ایشین چیمپئن بننے کے ساتھ ہی ایشیا کپ کا اختتام ہو گیا ہے اور اب سب کی نظریں آئی سی سی ورلڈ کپ پر ہیں جو آئندہ ماہ انڈیا میں منعقد ہوگا۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم ایشیا کپ میں بدترین ناکامی کا داغ لے کر کرکٹ کے اس بڑے میلے میں شرکت کرے گی، لیکن کہتے ہیں کہ ہر ناکامی کامیابی کا راستہ بھی ہموار کرتی ہے، اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب ناکامی سے سبق حاصل کیا جائے۔

ایشیا کپ کی یہ ناکامیاں پاکستان کے لیے ایک ایسا سبق ہیں جس نے دنیائے کرکٹ کا سب سے بڑا میلہ سجنے سے قبل اسے بیدار ہونے کا موقع دیا ہے اب دیکھنا ہے کہ پی سی بی اور ہماری کرکٹ ٹیم اس موقع سے کس طرح فائدہ اٹھاتے ہیں۔

ہار جیت کھیل کا حصہ ہے مگر کرکٹ کی حالیہ تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو قومی ٹیم کے جیتنے پر وہ لوگ بھی اس کا کریڈٹ لینے سامنے آ جاتے ہیں جن کا اس میں کوئی کردار نہیں ہوتا اور جب شکست ہوتی ہے تو یہی ہوتا ہے جو اب ہو رہا ہے۔ شائقین کرکٹ اور سابق کرکٹرز کی تنقید اب بھی جاری ہے جب کہ اس گنگا میں وہ بھی ہاتھ دھو رہے ہیں جو کرکٹ کی الف بے بھی نہیں جانتے۔ سابق امریکی صدر جان ایف کینیڈی سے منسوب قول ہے کہ ’’کامیابی کے کئی باپ ہوتے ہیں جبکہ شکست یتیم ہوتی ہے.‘‘ اور یہی ہم اس وقت دیکھ رہے ہیں۔ کیونکہ ایشیا کپ کے پاک بھارت ٹاکرے اور سری لنکا میچ سے قبل یہی کھلاڑی جو آج تنقید کے وار سہہ رہے ہیں، انہی مبصرین اور شائقینِ کرکٹ کی آنکھ کا تارا بنے ہوئے تھے اور سب نے ان کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا رہے تھے۔

ایشیا کپ میں قومی ٹیم کی کارکردگی کا پوسٹ مارٹم کیا جائے تو خاص طور پر کپتان کی جانب سے فیلڈ پلیسنگ اور بولرز کے استعمال میں خامیاں نظر آتی ہیں۔ آخری میچ کے بعد ڈریسنگ روم میں بابر اور شاہین شاہ کی تلخ کلامی کی باتیں بھی سامنے آئیں جو کہ کسی بھی بڑی شکست کے بعد ہماری ٹیم کی گویا روایت رہی ہے لیکن بعد ازاں اس حوالے سے تردید بھی سامنے آئی اور کپتان بابر اعظم، شاہین شاہ کی شادی کی تقریب میں بھی خوشگوار موڈ میں دکھائی دیے جب کہ فاسٹ بولر کا بابر کی تصویر کے ساتھ یہ پیغام کہ ہم ایک فیملی ہیں، اختلافات کی افواہوں کو ہوا میں اڑا دیتا ہے۔

لیکن صرف قومی کھلاڑیوں کی ناقص کارکردگی ہی ایشیا کپ میں ان کی ناکامی کا سبب نہیں بلکہ ایشیا کپ کے لیے بھارتی ٹیم کے پاکستان آنے سے انکار پر سابق چیئرمین پی سی بی منیجمنٹ کمیٹی نجم سیٹھی کی جانب سے پیش کردہ ہائبرڈ ماڈل نے بھی کھلاڑیوں کو الجھن میں ڈالے رکھا اور انہیں مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ ایونٹ میں جہاں بھارت اور سری لنکا نے صرف دو وینیو اور (پالے کیلی اور کولمبو) میں میچز کھیلے اور زیادہ سفر نہیں کرنا پڑا وہاں پاکستانی ٹیم کو سفر نے تھکا دیا اور قومی کھلاڑی پاکستان اور سری لنکا کے درمیان شٹل کاک ہی بنے رہے، یوں بھارتی ہٹ دھرمی کے باعث بے تُکے سفر کی یہ تھکن بھی قومی کھلاڑیوں کی کارکردگی متاثر کرنے کا ایک سبب بنی۔

ایشیا کپ جیسا بھی ہوا اب اس کو بھول کر آگے بڑھنا ہے۔ ہار وہی اچھی ہوتی ہے جو غفلت سے جگا کر آئندہ کے معرکے کے لیے اپنی حکمت عملی طے کرنے اور جیت کے جنون کو بڑھانے میں مدد دے۔ پی سی بی کے بڑے بھی ایشیا کپ میں قومی ٹیم کی اس حالت کے بعد سر جوڑ کر بیٹھ گئے ہیں۔ بھارت، آسٹریلیا، انگلینڈ سمیت کئی بڑی ٹیمیں اپنے ورلڈ کپ اسکواڈ کا اعلان کرچکی ہیں لیکن گرین شرٹس کے حتمی اسکواڈ میں رکاوٹ ایشیا کپ کی پرفارمنس نے ڈال دی ہے اور رہی سہی کسر فٹنس مسائل پوری کر رہے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق دو تین روز میں پاکستانی ٹیم کا اعلان ہو جائے گا تاہم کوئی بڑی تبدیلی نہیں ہوگی اور محمد عامر اور عماد وسیم کی واپسی کے لیے سوشل میڈیا پر جو شور برپا ہے، یہ ممکن دکھائی نہیں دے رہا۔

پاکستان کرکٹ بورڈ نے گو کہ نسیم شاہ کی انجری کی نوعیت اور صحتیابی سے متعلق حتمی کوئی بیان جاری نہیں کیا لیکن میڈیا رپورٹس کے مطابق ایشیا کپ کے پاک بھارت میچ میں ان کو ہونے والی کندھے کی انجری سنگین نوعیت کی ہے جو انہیں نہ صرف ورلڈ کپ بلکہ آئندہ 6 ماہ تک کرکٹ کے میدانوں سے دور رکھ سکتی ہے۔ فی الحال تو ورلڈ کپ سر پر ہے اس لیے قومی ٹیم کے لیے سب سے تشویشناک بات یہی ہے کہ وکٹ ٹیکر نسیم خان کا خلا کون پر کرے گا ایسے میں اڑتے اڑتے یہ خبریں ہیں کہ سری لنکا کے خلاف ڈیتھ اوور میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے زمان خان ورلڈ کپ میں نسیم شاہ کی جگہ پُر کریں گے۔

ایشیا کپ میں ہمارے فاسٹ بولرز تو پھر بھی چلے لیکن اسپنرز کوئی کمال نہ دکھا سکے بالخصوص نائب کپتان شاداب جو لیگ اسپن کے ساتھ بیٹنگ صلاحیتوں کے باعث آل راؤنڈر کی حیثیت سے ٹیم میں اہم مقام رکھتے ہیں، وہ پورے ایونٹ میں آف کلر نظر آئے اور ان کی ناکامی نے پاکستان کی ناکامی میں اپنا بھرپور حصہ ڈالا۔ شاداب خان کو ورلڈ کپ سے قبل اپنے کھیل میں یقینی طور پر بہتری لانی چاہیے جب کہ ورلڈ کپ جو کہ بھارت میں ہو رہا ہے اور وہاں کی پچز سلو بولرز کو مدد دیتی ہیں اس لیے ضروری ہے کہ اسپیشلسٹ اسپنر کو ٹیم میں لازمی شامل کیا جائے جس کے لیے دستیاب کھلاڑیوں میں اسامہ میر اور ابرار احمد بہترین انتخاب ثابت ہوسکتے ہیں اگر آل راؤنڈر شامل کرنا ہی مجبوری ہے تو کیریبیئن لیگ میں جادو جگا کر اب تک لیگ کے بہترین کھلاڑیوں کی فہرست میں ٹاپ پر موجود عماد وسیم کو بھی طلب کیا جا سکتا ہے جو کہ قومی ٹیم کے لیے اپنی دستیابی پہلے ہی ظاہر کر چکے ہیں۔

اس وقت سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ کپتان بابر اعظم کو بنایا جا رہا ہے اور انہیں کپتانی سے ہٹانے کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے جو اتنے بڑے ایونٹ کےقریب قطعی سود مند نہیں ہوسکتا۔ وہ ورلڈ کلاس بیٹر ہیں اور ان کی قیادت میں پاکستان کئی میچز جیت چکا ہے تاہم ورلڈ کپ سے چند دنوں قبل ان کی اور ٹیم کی ایسی بُری کارکردگی اچھا شگون قرار نہیں دی جاسکتی۔ ایشیا کپ میں کئی مواقع پر پاکستان ٹیم دباؤ کا شکار نظر آئی۔ بھارت جہاں ورلڈ کپ ہو رہا ہے وہ تو ہے ہی روایتی حریف کا ملک جہاں قومی ٹیم کو ہر میچ میں میزبان شائقین کا دباؤ بھی برداشت کرنا ہوگا بالخصوص 14 اکتوبر کو پاک بھارت ٹاکرے میں گرین شرٹس کا میدان میں دو حریفوں سے مقابلہ ہوگا ایک تو ٹیم انڈیا اور دوسرے اسٹیڈیم میں موجود ایک لاکھ بھارتی شائقین، تو ایسے میں کھلاڑیوں کو اعصاب پر قابو رکھنا ہو گا اور خود کو پرسکون رکھتے ہوئے پوری توجہ کھیل پر مرکوز کرنا ہوگی۔ یہاں سب سے اہم ذمے داری ٹیم منیجمنٹ کی ہے کہ وہ پلیئرز کا اعتماد بڑھائے۔ ماہرینِ نفسیات بھی ٹیم کے ساتھ ہوتے ہیں اور ایسی صورت حال میں ان کا کردار بڑھ جاتا ہے جو کھلاڑیوں کو دباؤ سے نکلنے اور پرسکون رہنے میں مدد کرتے ہیں۔

آئی سی سی ون ڈے ورلڈ کپ کرکٹ کا وہ سب سے بڑا میلہ ہے جو ہر 4 سال بعد سجتا ہے اور شائقین کرکٹ اس کا شدت سے انتظار کرتے ہیں تو جتنا بڑا یہ کرکٹ میلہ ہے اتنی ہی بڑی اس سے وابستہ خوش گمانیاں، پیشگوئیاں اور ساتھ تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ ایشیا کپ میں بدترین کارکردگی کے باوجود جنوبی افریقہ کی مہربانی سے پاکستان ون ڈے کی عالمی نمبر ایک ٹیم ہے اور میگا ایونٹ سے قبل فی الحال یہی ایک مثبت چیز ہے جس کے ساتھ قومی ٹیم اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے کا جذبہ حاصل کر سکتی ہے۔

ایشیا کپ میں نتائج جیسے بھی رہے، اب وقت ہے کہ تنقید چھوڑ کر امید کا دامن تھاما جائے۔ شائقین کرکٹ اپنی ٹیم کا مورال بلند کرنے کے لیے گرین شرٹس کو بھارت روانگی سے قبل مکمل سپورٹ فراہم کریں، کیونکہ ہمارے یہی اسٹارز ہیں جو پہلے بھی کرکٹ کے افق پر جگمگائے اور پاکستان کا پرچم بلند کرتے رہے ہیں۔ ماہرین اور شائقین 2017 کی چیمپئنز ٹرافی نہ بھولیں کہ آج ہدف تنقید بنے ان ہی کھلاڑیوں نے سرفراز احمد کی قیادت میں فائنل میں بھارت کو دھول چٹاتے ہوئے چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل کیا تھا جبکہ دو سال قبل ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بابر اعظم کی قیادت میں روایتی حریف کو دس وکٹوں سے شکست دے کر چاروں شانے چت کیا تھا۔ تو اب بھی یہی کھلاڑی بہترین نتائج دینے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ اگر ایک بار ٹیم نے اپنی کمزوریوں پر قابو پا لیا اور حکمت عملی کے تحت کھیل کے میدان میں اترے تو اس کا سامنا کرنا کسی بھی حریف کیلیے آسان نہ ہو گا کیونکہ ایشیا کپ کے نتائج کے باوجود کرکٹ مبصرین پاکستان کو ورلڈ کپ جیتنے کی اہلیت رکھنے والی چار ٹیموں میں شامل کیے ہوئے ہیں۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں