The news is by your side.

بچوں کا ادب اور تنقید کا المیہ

اردو ادب کے مابعد جدید نقاد ڈاکٹر صلاح الدین درویش نے اپنی کتاب ’’تنقید اور بیانیہ‘‘ کے صفحہ 18 پر ایک دل چسپ جملہ لکھا ہے _ اگرچہ تنقیدی ڈسکورس میں اس طرح کی زبان استعمال نہیں کی جاتی لیکن اردو قارئین زیادہ تر اسی زبان سے واقف ہیں یعنی انھیں مرغوب ہے اور ’اخلاقی‘ طور پر بھی رائے کو ’مثبت‘ اور ’منفی‘ کے خانوں میں بانٹتے ہیں _ انھوں نے لکھا: ’’تنقید میں بی پازیٹو نہیں چلتا۔‘‘

مجھے معلوم نہیں ہے ڈاکٹر صلاح الدین نے نو عمری میں اردو میں چھپنے والی کہانیاں اور رسالے کبھی پڑھے ہیں یا نہیں، یا یہ کہ وہ اردو مطالعات میں ’بچوں کا ادب‘ کی اصطلاح سے کبھی روبرو ہوئے ہیں۔ لیکن جو کچھ انھوں نے ادب کی تنقید کے سلسلے میں لکھا ہے اس سے یہ بات یقینی طور پر کہی جا سکتی ہے کہ ان کا شمار بھی ان نقادوں میں کیا جا سکتا ہے جو روایتی، مدرسی اور نصیحت بازی پر مبنی ایسے متون جو زبان کی چاشنی سے محروم اور فنی طور پر بھی کم تر ہوں، کو ادبی متون کی ذیل میں رکھنے سے سختی سے گریز کرتے ہیں۔

اس تممہد کے ساتھ میرا موضوع ’بچوں کا ادب‘ ہے، جس کی سماجیات پر میں محدود نکات کے ساتھ ایک مضمون لکھ چکا ہوں، اس مضمون کو اسی کے تسلسل میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ہمارے سماج میں ’مثبت تنقید‘ کا مطلب بہت واضح طور پر سمجھا جاتا ہے، ایسی تنقید جس سے مصنف برافروختہ نہ ہو۔ لفظ تنقید کے ساتھ کوئی اور اضافی صفت جوڑ کر یہ بتانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ نقاد بری نیت رکھتا ہے، حسد رکھ کر ’برائی‘ کر رہا ہے۔ یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ ادب کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے بھی وابستہ لوگوں میں تنقید اور برائی ہم معنی سمجھے جائیں۔ لیکن بچوں کے ’ادب‘ کے دائرے کی حالت تو بہت زیادہ ناگفتہ بہ ہے کیوں کہ یہاں تنقید کسی بھی معنی میں لے لیں، موجود ہی نہیں ہے۔ جس طرح پاکستان میں بچوں کی کہانیاں لکھنے والوں کی اکثریت کی ادبی مطالعے سے وابستگی مشکوک ہے، اور ان کی لکھی کہانیاں، کتابیں، ناول پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ’ادب‘ کے درست مفہوم سے ناواقف ہیں، اسی طرح بچوں کے لیے چھپنے والے رسائل میں شائع قارئین کے تبصروں ہی کو بالعموم ’تنقید‘ سمجھا گیا۔ یہ تبصرے سیدھے سادے الفاظ میں فوری پسند اور نا پسند پر مبنی غیر سنجیدہ اور غیر علمی رائے ہوا کرتی ہے۔ ایسا واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ چوں کہ کہانیاں اور نظمیں لکھنے والوں کو ہمیشہ ان تبصروں کا انتظار رہا، اس نے ان کی نفسیات میں تنقید کا یہی ’معیار‘ طے کر دیا۔

تنقید ادب کا ایک اہم ترین حصہ ہے، لیکن اقدار کو ’مثبت اور منفی‘ میں تقسیم کرنے والے ذہن نے یہاں بھی ہمیشہ ڈنڈی ماری اور اسے ادب کا حصہ تسلیم کرنے کی بجائے اسے تخلیق کا زائدہ سمجھ لیا، یعنی تخلیق کو پہلے اور برتر سمجھا اور تنقید کو اس کے بعد پیدا ہونے والی صلاحیت قرار دیا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ تنقید اور جائزے نہ اس تعداد میں چھپتے ہیں نہ پڑھے جاتے ہیں جس تعداد میں فکشن یا شاعری کی کتابیں چھپتی اور پڑھی جاتی ہیں۔ اس کی وجہ بالکل سادہ ہے۔ عام طور پر انسان کا ذہن تخیلاتی ’اشیا‘ کی طرف لپکتا ہے اور شاعری سے بہت تیزی سے ہم آہنگی حاصل کرتا ہے۔ اسے جس طرح تخیلاتی ماحول کھینچتا ہے اسی طرح ردھم اسے متحرک کرتا ہے۔ اس لیے تخلیقی سمجھی جانے والی ان اصناف میں جبلی طور پر دنیا بھر میں بہت زیادہ سرگرمی عمل میں آتی ہے۔ اس کے برعکس تنقید ذہن کی تجزیاتی صلاحیت کی ایک صنعت ہے جو دانش اور قدر کی وضاحت کرتی ہے، اور ادب کو پرکھنے کے لیے کچھ اصول بھی وضع کر لیتی ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں۔

بچوں کے لیے کہانیاں لکھنے والوں کا ایک الگ دائرہ ہے، ایک چھوٹا سا نہایت محدود سماج ہے۔ یہ ایک المیہ ہے کہ بچوں کے لیے نظیر اکبر آبادی کی دل پذیر نظموں سے شروع ہونے والی ادبی دنیا میں اردو ادب کی کئی کلاسک شخصیات نے اپنا حصہ ڈالا، تاہم یہ ادبی دنیا کوئی واضح شکل اختیار نہ کر سکی۔ یہی وجہ ہے کہ اس تسلسل کی عدم موجودی میں بچوں کے لیے کہانیاں اور نظمیں لکھنے والا آج کا لکھاری کرشن چندر، قرۃ العین حیدر، مرزا ادیب، اسماعیل میرٹھی اور صوفی غلام تبسم جیسے مشاہیر کا ذکر کرتے ہوئے بھی اس ادراک سے محروم دکھائی دیتا ہے کہ صرف کوئی ’کہانی‘ کوئی ’ناول‘ کوئی ’نظم‘ لکھ لینا ادب نہیں ہوتا۔ دنیا بھر میں پبلشرز بچوں کے ادب (چلڈرن لٹریچر) کے زمرے میں کتابیں چھاپتے رہتے ہیں، یہ وسیع پیمانے پر پڑھی بھی جاتی ہیں لیکن جن جن ممالک میں باقاعدہ طور پر ادبی کلچر پروان چڑھ چکا ہے وہاں نہ صرف چھپنے والی بلکہ ’اچھی‘ کتابوں کے معیار پر بھی تنقیدیں لکھی جاتی ہیں۔ اس ماحول میں لکھنے والے فطری طور پر معیار اور ارتقا کے مدارج سے گزرتے جاتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ادب قرار پانے والی تخلیقات کا تعین بہت مشکل ہے، اس کے لیے کوئی فارمولا طے نہیں کیا جا سکتا۔ عام طور سے ادیب جب ادب کی شناخت کا ذکر کرتے ہیں تو ’روح‘ کی نشان دہی کرتے ہیں، جب کہ روح خود ایک ایسی شے ہے جس کی نشان دہی ممکن ہی نہیں ہے۔ چناں چہ ادب کو خاص قسم کے احساسات سے جوڑا جاتا ہے۔ جب ایک چھوٹا بچہ کوئی تخیلاتی کہانی سنتا یا پڑھتا ہے تو بہت خوش ہو جاتا ہے، کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس نے جو محسوس کیا وہ ’ادبی احساس‘ ہے؟ ایسا نہیں ہے۔

ہمیں مختلف چیزوں کو الگ الگ رکھنا ہوگا۔ ذہن بہ یک وقت کئی احساسات میں گرفتار ہو سکتا ہے، یہ جس پل انوکھی شے سے حیران ہوتا ہے، اُسی پل من پسند چیز سے خوش بھی ہو جاتا ہے، اور اُسی پل دانش کی گہری پرت کے منکشف ہونے پر یہ اپنے اندر علویت بھی محسوس کرتا ہے۔ اب فکشن یا شاعری کا کوئی ٹکڑا اس ذہن کو کیا کیا محسوس کراتا ہے، اس سے ہم اپنے تئیں طے کر سکتے ہیں کہ کوئی فن پارہ کتنا ادبی ہے۔ ہمیشہ ادب کے ناقدین اور مبصرین نے دنیا کے عظیم کلاسکس کو مدنظر رکھ کر ادب پاروں میں تخصیص کی بات کی ہے۔

ناقدین اور مبصرین کی جانب سے ’معیار‘ کا جو بیانیہ سامنے آتا ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ فکشن لکھنے والے کچھ لوگ بالکل نہ لکھیں، کیوں کہ وہ ایک خاص معیار پر پورے نہیں اترتے۔ اس بات کو سمجھنا بے حد ضروری ہے کہ معیار کے سوال کا اصل ہدف کسی خاص زمانے کے خاص افراد نہیں ہوتے۔ کیوں کہ کسی بھی مخصوص وقت میں لکھنے والوں کی سرگرمی اس وقت کی معاشی مارکیٹ کی سرگرمی بھی ہوتی ہے۔ اس مارکیٹ کے اندر معیار کی اپنی سرگرمی جاری رہتی ہے جس کا ہدف آنے والی نسلیں ہوا کرتی ہیں؛ اس لیے یہ ادبی متون میں زندگی اور کائنات سے متعلق دانش کی سطح کو بلند کرنے والے عناصر کی پہچان کراتی رہتی ہے۔ اس عمل کو مارکیٹ کے پاپولر رجحان کے خلاف عمل سمجھنا عبث خیال ہے۔

یہ امر بچوں کے اردو رائٹرز کے لیے باعث حیرت ہو سکتا ہے کہ عالمی سطح پر مبصرین نے تفتیش اور سسپنس پر مبنی بچوں کے ادب کو کم تر جانا ہے۔ ان کی رائے میں یہ اسلوب، حساسیت اور نقطہ نظر سے عاری ہوتا ہے۔ بچوں کے اردو ادب کے حوالے سے تو یہ ایک بہت دل چسپ حقیقت ہے کہ اگر ہمیں کہیں کسی سطح پر ’ادبی دنیا‘ یا ’لٹریری کلچر‘ باقاعدہ طور پر تشکیل پاتا دکھائی دیتا ہے تو وہ صرف جاسوسی کہانیوں کے زمرے میں ہے۔ ہمارا سماج بہت تیزی سے تبدیل ہوا ہے، لیکن یہ تبدیلی بہت سطح پر واقع ہوئی ہے۔ چناں چہ موبائل فونز اور سوشل میڈیا کے اس تیز ترین دور میں چھوٹے بچے بھی اُس عمرمیں سیل فون کا استعمال کرتے ہیں جب ان پر پابندی ہونی چاہیے۔ سماجی اور معاشی زندگی کی جدوجہد اتنی مشکل ہو چکی ہے کہ مختلف طبقات میں کتاب کے مطالعے کا اگر تناسب نکالا جائے تو بہت زیادہ مختلف نکلے گا۔ ایسے میں اگر ہم مثال پیش کریں تو اشتیاق احمد وہ لکھاری دکھائی دیتے ہیں جنھوں نے بہت زیادہ لکھا اور جو بہت زیادہ پڑھا گیا۔ لیکن ساتھ ہی ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں ان جاسوسی ناولوں نے مطالعے کا ایک محدود شوق پیداکیا۔ اس سے آگے بچوں کے اردو ادب کی دنیا میں سناٹا ہے۔

ایک پریشانی یہ بھی ہے کہ اس وقت بچوں کے لیے جو چند لکھاری کہانیاں لکھ رہے ہیں اور انھوں نے اپنے تئیں ایک اچھا خاصا ذخیرہ بہم پہنچایا ہے، کیا وہ اس سناٹے میں کمی نہیں لا سکے؟ یہ سوال ایسا ہی ہے جیسے ایک شخص دائرے میں گھومتا رہتا ہے۔ کہنے کو بچوں کے لیے ہر چھپی ہوئی کتاب ادب کا حصہ ہے لیکن کلاسک ادب اور کلاسک شخصیات ہم سے معیار کا بھی کچھ تقاضا کرتے ہیں۔ ان کا معیار ہمیشہ ہم سے تقاضا کرتا رہے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ پبلشنگ مارکیٹ اپنی ایک حقیقت کے ساتھ کارفرما ہے۔ اگر ہم آنے والی نسلوں کو متاثر کرنا چاہتے ہیں تو اس طرح سوچنا بھی ضروری ہے کہ جو کتاب مارکیٹ سے نکل کر مقبول ہو رہی ہے، کیا وہ ایک نسل سے گزر کر بھی اگلی نسل کو کچھ دے رہی ہے؟

شاید آپ یہ بھی پسند کریں