The news is by your side.

ذکرکچھ انوکھے لاڈلوں کاجو کھیلن کو مانگیں….!

آج ہم ذکر کررہے ہیں کچھ لاڈلوں کا، اور کیوں نہ کریں، جب ملک میں ہر طرف لاڈلوں کا چرچا ہے تو ہم لیکھک اس سے کیسےنظربچا سکتے ہیں۔

ان دنوں ملک میں الیکشن کا شور اور اس کے ساتھ ‘دھیمے سُروں’ میں ہر طرف لاڈلوں کی باتیں ہو رہی ہیں اور کوئی کسی کو طنزاً لاڈلا کہہ رہا ہے، تو کوئی خود کو لاڈلا کہہ کر مخالف کو چِڑانے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن اس سارے کھیل تماشے میں کہیں ایک طرف کوئی نادیدہ ہستی بھی ضرور ہنسی ٹھٹّا کر رہی ہے۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو تو ڈھکے چھپے لفظوں میں کہتے آ رہے ہیں کہ پہلے کوئی اور لاڈلا تھا اور اب دوسرے کو لاڈلہ بنایا جا رہا ہے اور یہ بات پہلی بار نہیں کی جا رہی بلکہ لاڈلوں کا یہ شور کئی سال سے تواتر سے ہورہا ہے۔ ہر پارٹی راہ نما یہ راگ الاپتے رہے ہیں لیکن اس راز سے کوئی پردہ اٹھانے کو تیار نہیں کہ وہ کون ہے جس کے پاس لاڈلا بنانے کی مشین ہے جس میں سے گزر کر باہر آنے والا ایسا ‘صاف ستھرا’ ہو جاتا ہے کہ اس پر بے اختیار پیار آئے اور اسے لاڈلا بنائے بغیر کچھ بن نہیں پاتا۔

حال ہی میں ن لیگی رہنما احسن اقبال نے یہ کہا کہ نواز شریف ملک کے 24 کروڑ عوام کے لاڈلے ہیں، اگر ان کے اس دعوے کو درست مان لیا جائے تو پھر ملک کے بقیہ ایک کروڑ عوام کا لاڈلا کون ہے؟ کیونکہ حالیہ مردم شماری نتائج کے مطابق ملک کی آبادی لگ بھگ 25 کروڑ ہو چکی ہے۔ ایسے میں ایک کروڑ عوام کا یوں نواز شریف کو نظر انداز کرنا نیک شگون تو نہیں ہے اور مسئلہ یہ بھی ہوگا کہ ان ایک کروڑ عوام کی چھانٹی کیسے کی جائے جن کے نواز شریف لاڈلے نہیں ہیں۔ کیا ہی بہتر ہوتا اگر احسن اقبال مزید حسن ظن سے کام لیتے ہوئے اپنے قائد کو ملک کے 25 کروڑ عوام کا ہی لاڈلا بنا دیتے کہ اس جھِک جھک سے جان ہی چھوٹ جاتی۔

یہ تو سیاست دانوں کی زبانی لاڈلوں کی بات ہو رہی تھی اگر ہم اپنی بات کریں تو ہم بچپن سے ایک ہی قسم کے لاڈلے دیکھتے آئے ہیں جو اپنے اماں ابا کے لاڈلے ہوتے ہیں یا پھر لاڈلوں پر بنی کچھ فلمیں اور ڈرامے دیکھ رکھے ہیں جب کہ ایک مشہور نظم ’’انوکھا لاڈلا‘‘ بھی بلقیس خانم کی زبانی سن رکھی ہے جو کھیلنے کو کھلونے نہیں بلکہ آسمان پر چمکتا چاند مانگا کرتا ہے۔ تو صرف وہ انوکھا لاڈلا نہیں بلکہ ہمارے سیاسی لاڈلے بھی کچھ ایسا ہی مزاج رکھتے ہیں کہ کھیلن کو ہمیشہ چاند ہی مانگتے ہیں حالانکہ اس کے اردگرد ہزاروں کی تعداد میں ستارے جھلملا رہے ہوتے ہیں لیکن ان کی نظر انتخاب ہمیشہ چاند پر ہی پڑتی ہے اور شاعر بھی انوکھے لاڈلے کی ضد پر یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ پاگل من کوئی بات نہ مانے، کیسی انوکھی بات رے۔

انوکھے لاڈلے پر ہم فلموں ڈراموں تک آ کر کچھ بھٹک گئے قبل اس کے کہ زیادہ بھٹک کر راستہ ہی بھول جائیں واپس آتے ہیں اماں ابا کے لاڈلے کی جانب جو ہوتے تو دونوں کی آنکھوں کا تارا ہیں لیکن تب تک، جب تک وہ ان کی مرضی کے مطابق چلتے ہیں، جیسے ہی اماں ابا کے حکم یا مرضی کے برخلاف کام کرتے ہیں تو پھر اماں کی جوتی اور ابا کا ڈنڈا اٹھتے اور کمر پر پڑتے دیر نہیں لگتی اور یہ چوٹ ایسی ہوتی ہے کہ چودہ طبق روشن ہونے لگتے ہیں اور ہمارا دعویٰ ہے کہ اکثریت کا تجربہ اسی سے ملتا جلتا ہوگا۔

لیکن لاڈلے تو پھر لاڈلے ہیں جو نافرمانی کی سزا پاتے ہیں پھر توبہ تلّا کر کے دوبارہ لاڈلے بن جاتے ہیں اور اسی لاڈلے پن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پھر سے غلطی کرتے ہیں لیکن وہ بھی کیا کریں کہ انسان تو ہے ہی خطا کا پتلا، اگر وہ خطا نہ کرتا تو جنت سے کیوں نکالا جاتا۔ اگر غلطیوں اور نافرمانیوں کے سلسلے کو سیاست دانوں پر رکھ کر دیکھیں تو وہ بھی بالآخر انسان ہے اور بچپن بھی گزارا ہے تو اگر بھول چوک کا یہ سلسلہ بڑے ہو کر بھی قائم و دائم ہے تو اس پر جزبز ہونے کے بجائے ان کی استقامت کی داد دینی چاہیے۔

اگرچہ دنیا کے دیگر ممالک میں سیاسی رہنما اپنا طرز حکمرانی بہتر سے بہترین اور عوام کے وسیع تر مفاد میں بنا کر ان کے لاڈلے بننے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ہمارے ہاں یہ چلن صرف دعوؤں اور لفظوں تک ہے۔ عمل کی راہ سے اس کا دور دور تک گزر نہیں ہوتا۔ ہمارے اکثر سیاستدان تو شاعر مشرق علامہ اقبال کے اس شعر پر پورے اترتے ہیں کہ

اقبال بڑا اپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے
گفتار کا یہ غازی تو بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا

آج ایک بار پھر انتخابات کے لیے سیاسی میدان سج چکا ہے جہاں سیاست دان لاڈلا بننے کی کوششوں کے ساتھ حسب روایت اقتدار کی خاطر عوام کو دانہ ڈالنے کے لیے وعدوں کے جال بچھا رہے ہیں جب کہ ماضی میں کئی بار کبھی نہ پورے ہونے والے وعدوں پر اعتبار کرنے والے کروڑوں عوام کچھ اس طرح اپنا حال اور رہنمائی کے دعوے داروں کی فرمائش بیان کر رہے ہیں کہ

انوکھا لاڈلا، کھیلن کو مانگے چاند
کیسی انوکھی بات رے
تن کے گھاؤ تو بھر گئے داتا
من کا گھاؤ نہیں بھر پاتا
جی کا حال سمجھ نہیں آتا
کیسی انوکھی بات رے
انوکھا لاڈلا…..

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں