The news is by your side.

بدلتے ہوئے دریائے سندھ کے کنارے رہنے والوں کی زندگیوں کی جھلکیاں

تبت کے پہاڑوں سے بحیرہ عرب تک اپنے 3,100 کلومیٹر کے راستے پر، دریائے سندھ پہاڑی دامنوں اور میدانوں، نیشنل پارکوں، ایسی زمینوں سے گزرتا ہے جو اپنے جنگلات، زرخیز کھیتوں اور گنجان شہروں سے محروم ہو چکے ہیں۔ راستے میں ڈیم اور بیراج آتے ہیں، جن کے ہائیڈرو پاور اور آبپاشی کے بڑے منصوبے دریا کے قدرتی بہاؤ کو متاثر کر رہے ہیں۔

دریائے سندھ، پاکستان میں زراعت کے لئے تقریباً 90 فیصد پانی فراہم کرتا ہے، لیکن اس کا پانی سیلاب کے ذریعے جانیں بھی لے سکتا ہے۔ دریائے سندھ کے بیسن کے چرواہوں، کسانوں اور ماہی گیروں کے لئے یہ دریا زندگی ہے، جو انھیں معاش اور رزق مہیا کرتا ہے، پر یہی دریا صرف ایک سیلاب سے ان کے گھروں، کاروباروں اور مویشی چھین لینے کی طاقت بھی رکھتا ہے۔ وہ دریا کا احترام کرنے کے ساتھ ساتھ خوف بھی رکھتے ہیں۔

سندھ کے بیسن میں سیلاب ایک مستقل خطرہ ہے۔ 1950 اور 2010 کے درمیان، 21 بڑے سیلابوں سے کل 8,887 افراد ہلاک ہوئے، جب کہ 2022 کے شدید سیلاب سے 1,700 سے زائد افراد ہلاک اور تقریباً 80 لاکھ بے گھر ہوئے۔ حکومت کا اندازہ ہے کہ اس کے نتیجے میں اضافی 8.4-9.1 ملین لوگ غربت میں دھکیل جائیں گے۔

دی تھرڈ پول نے دریائے سندھ کے ساتھ سفر کا آغاز کیا، شمال میں خیبر پختونخوا کے پہاڑوں سے لے کر جنوب میں سندھ کے ویران دیہاتوں تک، دریا پر انحصار کرنے والے لوگوں سے ملاقات کی۔ ہم نے بدلتے ہوئے دریا اور بنتے بگڑتے رشتوں کی کہانیاں سنیں۔ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ ڈیموں اور بیراجوں جیسی انجینئرنگ کی مداخلتوں نے سندھ کے قدرتی آزادانہ بہاؤ اور متوقع کردار کو تبدیل کر کے، اسے غیر مستحکم اور بے رحم بنا دیا ہے۔ لیکن تقریباً کسی نے بھی موسمیاتی تبدیلی کا تذکرہ نہیں کیا، جو کہ غیر معمولی شدید مون سون بارشوں کے پیچھے اہم وجہ تھی اور جن کے نتیجے میں 2022 کے تباہ کن سیلاب آئے۔

’گلگت بلتستان کے لوگ دریائے سندھ کے رحم و کرم پر ہیں‘

کھپلو اور اسکردو جہاں سے شیوک دریائے گلگت بلتستان میں دریائے سندھ سے ملتا ہے، ان قصبوں کے زیادہ تر لوگ، محمد جان اور ان گھروں کے بارے میں جانتے ہیں جو وہ بے سہارا بچوں کے لئے چلاتے ہیں۔

محمد جان کہتے ہیں کہ بلند و بالا پہاڑوں سے گھرے اس علاقے میں سندھ اور اس کے لوگوں کے درمیان تعلق خوف اور تباہی پر مبنی ہے۔ یہاں، دریا کا زیادہ تر پانی قراقرم کے پہاڑوں کی برف پگھلنے سے آتا ہے۔ لیکن موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات مقامی لوگوں کی غذائی تحفظ اور معاش کو متاثر کر رہے ہیں، اور غربت کی سطح میں اضافہ کر رہے ہیں۔

57 سالہ محمد جان کہتے ہیں، “اس علاقے کے لوگ دریاۓ سندھ کے رحم و کرم پر ہیں۔ یہ غریب ترین لوگوں کو سب سے زیادہ متاثر کرتا ہے” ۔

محمد جان نے 2002 میں بے سہارا بچوں کی کفالت شروع کی۔ دو دہائیوں سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے، انہوں نے کھپلو اور اسکردو میں “اپنا گھر” یا “ہمارا اپنا گھر” نامی گھروں میں 5 سے 18 سال کی عمر کے 96 لڑکوں اور 23 لڑکیوں کو سہارا دیا ہے۔ “یہ چرواہوں یا مزدوروں یا کسانوں کے بچے ہیں جو دریائے سندھ کے ساتھ بنے ڈھلوانوں اور مسطح پہاڑی پٹیوں پر رہتے ہیں۔ وہ ایک وقت کی روٹی تک کی استطاعت نہیں رکھتے۔ ان کے پاس زمین نہیں ہے اور وہ اپنے جانوروں اور معمولی سامان کے ساتھ ایک کمرے کی تنگ جھونپڑیوں میں رہتے ہیں۔ وہ قدرت کے رحم و کرم پر ہیں”۔

محمد جان کے مطابق، 2010 میں دریائے سندھ میں سیلاب سے ہونے والی تباہی بدترین تھی، جس کی وجہ سے اپنا گھر میں داخلے کے لئے بہت سی درخواستیں موصول ہوئیں۔ بالگھر میں سیلابی پانی میں گھر بہہ جانے کی وجہ سے تین بھائیوں اور ایک بہن کو داخل کرایا گیا۔ وہ سب ابھی پڑھ رہے ہیں، سب سے بڑا کالج میں ہے۔ انہوں نے ہوتو گاؤں کی ایک لڑکی کو سہارا دیا جس کے والد اور تین بہن بھائی دریاۓ سندھ میں طغیانی کی وجہ سے گھر کے ملبے کے نیچے دب کر مر گۓ، اب وہ لڑکی نباتیات میں ڈگری حاصل کر رہی ہے۔

محمد جان کہتے ہیں، ’’میں نہیں چاہتا کہ وہ پریشان حال زندگی گزاریں کیونکہ دریاۓ سندھ ان پر زیادہ مہربان نہیں رہا”۔

•••
’بجلی کے منصوبے نے گاؤں کو مزید غربت کی طرف دھکیل دیا ہے‘

ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش کے پہاڑی سلسلوں سے گزرنے کے بعد، سندھ صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کوہستان تک پہنچتا ہے۔

32 سالہ شمس الحق کہتے ہیں،”سندھ ہمارے زمینی تزئین کا ایک لازمی حصہ ہے۔ اس کے باوجود، ہم اس کی زبردست قوت کی وجہ سے اس سے دوری کو ترجیح دیتے ہیں،” جن کا گھر کوہستان میں دریا کے کنارے تقریباً 900 میٹر اوپر، دبیر نامی ایک چھوٹے سے بستی کے قریب واقع ہے۔

شمس الحق کوہستان میں ایک پہاڑی راستے پر کھڑے، پس منظر میں دریائے سندھ نظر آرہا ہے (تصویر بشکریہ حمزہ ہاشمی)

کوہستان میں روزی کمانے کے طریقے محدود ہیں، اور مکین پہاڑی کے دامن میں اپنے چھوٹے، کھیتوں میں مکئی، گندم اور سبزیاں اُگا سکتے ہیں تاکہ خود کی کفالت کرسکیں۔ شمس الحق رہائشیوں کو تعلیم حاصل کرنے اور چھوٹے کاروبار شروع کرنے میں مدد کے لئے ایک ترقیاتی تنظیم چلاتے ہیں۔ کوہستان میں 2010 سے اب تک چار بار سیلاب آیا ہے اور 2022 میں دریا کے قریب واقع دبیر کا بازار بہہ گیا تھا۔ شمس الحق کہتے ہیں، “دکان کے مالکان گاؤں چھوڑ کر قریبی بڑے شہروں میں آباد ہو گئے ہیں”۔ دبیر میں 130 میگاواٹ کا دبیر کھوار ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹ قائم کیا گیا ہے، جو 2014 میں آپریشنل ہوا تھا۔ یہ گاؤں زیر تعمیر 4,800 میگاواٹ کے دیامر بھاشا ڈیم جوکہ 2027 میں مکمل ہونا متوقع ہے، سے 75 کلومیٹر کے فاصلے پر زیریں علاقے میں اور داسو میں بنائے گئے 4,320 میگاواٹ کے رن آف دی ریور ڈیم سے 10 کلومیٹر نیچے کی جانب واقع ہے۔

حق کہتے ہیں، “اگرچہ ہم بجلی کے منصوبوں سے گھرے ہوئے ہیں، لیکن میرے گاؤں میں دن میں صرف دو گھنٹے بجلی ہوتی ہے۔ ہمارے گھروں کو صرف رات کو بجلی ملتی ہے”۔ دبیر میں زیادہ تر گھروں میں بجلی صرف شمسی توانائی سے آتی ہے۔

شمس الحق بتاتے ہیں کہ دبئی ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی تعمیر کے دوران مقامی لوگوں نے اپنی زرعی زمین اور یہاں تک کہ گاؤں کا قبرستان تک ڈیم کے انفراسٹرکچر کی تعمیر کرنے کے لئے وقف کردیے تھے۔ شمس الحق کے مطابق انہیں زمین کے بدلے “مناسب معاوضہ ” ملا۔ تاہم، ان میں سے بہت سے خاندان پھر مانسہرہ جیسے شہروں میں ہجرت کر گئے تاکہ وہاں نئے کاروبار شروع کر سکیں۔ نتیجتاً، وہ کہتے ہیں، “اس منصوبے نے گاؤں کو مزید غریب کر دیا ہے”۔

وہ امید کرتے ہیں کہ جب دیامر بھاشا اور داسو ڈیم کے منصوبے بالآخر مکمل ہو جائیں گے، تو مقامی دیہاتوں کو بجلی فراہم ہوگی اور ان کے لئے ملک کے باقی حصوں تک رسائی آسان ہوجاۓ گی۔ ” مجھے امید ہے کہ مزید لوگ دبیر میں آکر آباد ہوں گے، تاکہ بازاروں کی رونق بحال ہو سکے۔”
•••

‘میرے خاندان نے کشتی پر زندگی اور موت دیکھی’

پچپن سالہ بشیراں بی بی دریائے سندھ ف پلی بڑھی ہیں۔ ان کے آباؤ اجداد کشتیوں پر رہتے تھے، پنجاب میں کالاباغ اور سندھ میں سکھر کے درمیان سفر کرتے، اور تجارت کرتے تھے۔ ان کے بچپن میں، وہ بتاتی ہیں کہ دریا نے ان کے خاندان کو پھلنے پھولنے کے لئے وافر پانی، خوراک اور تجارت کے مواقع فراہم کئے۔ وہ ماضی کو یاد کرتے ہوۓ بتاتی ہیں، “میں نے کشتی پر کھانا پکانا، کھانا اور رہنا سیکھا۔ میرے خاندان نے کشتی پر ہی زندگی اور موت دیکھی۔ ہم صرف مردے کو دفنانے کے لیے کشتی سے اترتے تھے”۔

بشیراں بی بی اپنے گھر کے باہر اپنی بنائی ہوئی ٹوکریوں کے ساتھ (تصویر بشکریہ الیفیہ حسین)

پھر، 20 ویں صدی کے وسط میں دریا کے بہاؤ کو منظم کرنے اور پنجاب کے زرخیز میدانوں میں لاکھوں ایکڑ کھیتوں کو سیراب کرنے کے لئے ڈیموں اور بیراجوں کی تعمیر کے بعد، دریائے سندھ میں پانی کی سطح گر گئی۔ دریں اثنا، شاہراہوں پر تیزی سے چلنے والے ٹرک سامان کی نقل و حمل کا ترجیحی طریقہ بن گئے۔ بشیراں بی بی کے خاندان کو 1970 کی دہائی میں دریا کے ذریعہ تجارت ترک کرنا پڑی، کیونکہ “ہماری بڑی کشتیوں کے لئے جو کہ اکثر 80 سے 100 فٹ لمبی ہوتی تھیں، پانی بہت کم ہو گیا۔” ان کے خاندان کو مجبوراً جنوبی پنجاب کے کوٹ ادو میں آباد ہونا پڑا اور ماہی گیری کو اپنا نیا پیشہ بنانا پڑا۔

مٹی کے جھونپڑوں اور کھلے صحنوں پہ مبنی بستی شیخاں کے گاؤں میں بشیراں بی بی کے گھر سے چند منٹ کی دوری پر، تونسہ بیراج کے سائے میں دریائے سندھ خاموشی سے بہہ رہا تھا۔ ماہی گیری کی کشتیاں کنارے پر بندھی ہوئی تھیں ساتھ ہی بچے گدلے پانی میں کھیل رہے تھے۔

بشیراں بی بی اور اس کے خاندان کو بستی شیخان میں آباد ہونے کے تقریباً 40 سال بعد بھی وہ دریاۓ سندھ کے ساتھ اپنے نۓ تعلقات وضع کر رہے ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ” ہمیں ہوا رخ پر چلنے اور پانی کے دھاروں پر بہنے کے بجاۓ زمین پر ایک ہی جگہ رہنا سیکھنا پڑا۔”

بشیراں بی بی محسوس کرتی ہیں کہ تب سے اب تک دریاۓ سندھ کا کردار بہت بدل گیا ہے، “یوں لگتا ہے جیسے آزاد بہنے والے دریا کو ڈیموں اور بیراجوں نے یرغمال بنا لیا ہے”، جس کی وجہ سے ان کے خاندان کی ثقافت اور شناخت کو نقصان پہنچا ہے۔

لیکن بشیراں بی بی کو اب بھی دریاۓ سندھ کو پالن ہار مانتی ہیں۔ انکو حضرت خضر پر بھی یقین ہے جن کو اسلامی اور دیگر روایات میں مختلف انداز میں ایک فرشتہ، ایک صوفی اور ایک ولی کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ انہیں دریا کا محافظ بھی کہا جاتا ہے۔

وہ گاتی ہیں :

“اے میرے محبوب، کشتی تیار ہے،

آؤ مل کر دریا پار چلتے ہیں

خدا ہماری مدد کرے گا!”

•••

‘مجھے لگتا ہے دریاۓ سندھ نے مجھ سے بےوفائی کی ہے ‘

بطور ایک ماہی گیر، عبدالکریم نے اپنے 60 سے زائد سال دریائے سندھ کے ساتھ گزارے ہیں۔ وہ کشتیوں پر رہتے ہیں، تازہ مچھلی پکڑ کے کھاتے ہیں، اور گدلا پانی پیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ مون سون دریا کی گرم، دھڑکتی نبض محسوس کرسکتے ہیں اور انہیں پلّا مچھلی بھی یاد ہے کو کسی زمانے میں کثرت سے پائی جاتی تھی، لیکن اب پانی کی سطح کم ہوجانے کی وجہ سے معدوم انواع میں شمار ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں، “یہ دریا کی بے رخی سے پہلے کی بات ہے”۔

صوبہ سندھ کے گاؤں سان میں عبدالکریم (تصویر بشکریہ عائشہ گزدار)

کریم اب بھی صوبہ سندھ کے گاؤں سن میں ماہی گیر کے طور پر کام کرتے ہیں، لیکن ان کا کہنا ہے کہ دریا اب بدل گیا ہے۔ پچھلی دہائی میں، وہ کہتے ہیں “دریا نے روایتی موسمی سانچے کی پابندی کرنا چھوڑ دیا ہے۔ یہ غیر متوقع طور پر گھٹتا بڑھتا رہتا ہے۔”

وہ کہتے ہیں، “یہ حکومت کی کرنی ہے۔ پنجاب میں بجلی اور زرعی زمینوں کو سیراب کرنے کے لئے پانی روکا جاتا ہے۔ رکاوٹیں ہمارے سندھ کے علاقے میں پانی کی سطح کو کم کرتی ہیں۔ یہاں، زمین خشک اور بنجر ہو گئی ہے، اور میری کمیونٹی زندہ رہنے رکھنے کے لئے فصل اگانے سے قاصر ہے۔ ہمیں مچھلیوں پہ گزارا کرنا پڑتا ہے، چاہے ہمیں انہیں افزائش کے موسم میں پکڑنا پڑے” ۔

کریم بہت غریب ہیں اور ان کے پاس خود کی کشتی نہیں ہے۔ وہ ساتھی ماہی گیروں کو 500 روپے ( 2 امریکی ڈالر) فی دن میں اپنی خدمات فراہم کرتے ہیں، جو صبح سویرے ماہی گیری کے جال بچھانے کے لئے نکلتے ہیں اور غروب آفتاب سے پہلے شکار اکٹھا کرنے کے لئے آتے ہیں۔

ہزاروں سال تک، دریاۓ سندھ نے تہذیبوں کو پناہ دی اور انہیں سطح ہستی سے بھی مٹایا۔ آج بھی اس کے طول و عرض کے ساتھ آباد لوگوں کی زندگیوں کا مرکز دریاۓ سندھ ہے۔

جب دریاۓ سندھ اپنے اختتام کو پہنچتا ہے تو بحیرہ عرب میں غرق ہونے سے پہلے سندھ ڈیلٹا کے طول و عرض میں پھیل جاتا ہے. یہاں آکر لوگوں اور دریا کے درمیان بندھن مضبوط ترین ہوجاتا ہے۔ حسن عباس، ایک ممتاز آبی ماہر جو اس وقت پاکستان کے اہم شہروں کے لئے پانی کی فراہمی اور نکاسی آب کے مسائل پر مرکوز ہیں، کے مطابق ” ایسا تعلق کہیں اور دیکھنے میں نہیں آتا”-

یہاں لوگ اپنے مذہب کی بنیاد پر دریا کے والی کا احترم اور اس پر بھروسہ کرتے ہیں، جسے اڈیرو لال یا جھولے لال، زندہ پیر، شیخ طاہر یا حضرت خضر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ عباس کہتے ہیں، “ہم نے دریا کے قدرتی بہاؤ کو تبدیل کر دیا ہے۔ ہمیں کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ فطرت کی طاقت انسانوں سے کہیں زیادہ ہے۔”

وہ مزید کہتے ہیں کہ جب تک انجینرنگ نے اپنے قدم جمنا شروع نہیں کئے تھے، لوگ فطرت کے ساتھ ہم آہنگی میں رہتے تھے: ” نمکیات، تلچھٹ اور پانی کے بہاؤ میں رکاوٹ کو ان تعمیرات سے منسوب کیا جا سکتا ہے، اور یہ انتہائی تشویشناک بات ہے۔”

(الیفیہ حسین کی یہ تحریر دی تھرڈ پول پر شایع ہوچکی ہے جسے اس لنک کی مدد سے پڑھا جاسکتاہے)

شاید آپ یہ بھی پسند کریں