الیکشن 2024 پاکستان عام انتخابات کے انعقاد سے متعلق تمام خدشات، افواہیں اور قیاس آرائیاں دَم توڑ چکی ہیں اور بعض حلقوں کی خواہش کے برخلاف وہ دن آن پہنچا ہے جب پاکستانی قوم آئندہ پانچ سال کے لیے اپنے سیاسی امیدواروں کو منتخب کرے گی۔ کل (8 فروری) کو قوم کسی امیدوار یا جماعت کو نہیں بلکہ اپنے مستقبل کو ووٹ دے گی اور یہی ووٹ پاکستان کی سمت کا تعین کرے گا۔
سپریم کورٹ کے حکم پر جب الیکشن کمیشن نے 8 فروری کو عام انتخابات کرانے کا اعلان کیا تھا تو اس اعلان کے ساتھ ہی ملک میں جاری سیاسی بحران اور دیگر سیاسی وجوہ کی بناء پر خدشات نے بھی سَر اٹھایا کہ شاید اعلان کردہ تاریخ پر الیکشن کا انعقاد ممکن نہ ہو اور ان خدشات کو کئی علاقوں میں بڑھتے ہوئے دہشت گردی کے واقعات، سینیٹ میں الیکشن کے التوا کے لیے پیش کردہ قراردادوں اور شدید سیاسی انتشار نے ہوا دی، لیکن صد شکر کہ ایسا نہیں ہوا اور قوم کو ملک کی 12 ویں پارلیمنٹ منتخب کرنے کا موقع مل رہا ہے۔
اے آر وائی نیوز اردو کی جانب سے الیکشن کی تمام رپورٹس، خبروں اور تجزیوں کے لئے اس لنک پر کلک کریں!
انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے ساتھ ہی سیاسی جماعتوں نے سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا تھا، جو جلد ہی گرما گرم سیاسی مقابلے میں تبدیل ہوگئیں اور حسبِ روایت پاکستان کے سیاسی حلیف اور سابق اتحادی ایک دوسرے کے بدترین حریف کی صورت عوام کے سامنے آئے۔ اس کے بعد الزام تراشی کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو گیا، تاہم الیکشن کے بعد کیا صورتحال ہوگی، الیکشن کے موقع پر بدترین حریف کے طور پر سامنے آنے والے ملکی مفاد میں کل بہترین حلیف بھی بنیں گے یا نہیں، یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔
یہ عام انتخابات ملکی تاریخ کے مہنگے ترین الیکشن قرار دیے جا رہے ہیں جس کے انتظامات پر اخراجات گزشتہ انتخابات سے کئی گنا زائد بتائے جارہے ہیں۔ قومی اسمبلی کی 266 اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کی مجموعی طور پر 593 جنرل نشستوں کے لیے رجسٹرڈ ووٹرز 12 کروڑ 85 لاکھ 85 ہزار 760 اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ قومی اور چاروں صوبوں کے مجموعی طور پر 859 حلقوں کیلیے 26 کروڑ بیلٹ پیپرز چھاپے گئے ہیں۔
یہ الیکشن صرف انتظامات اور اخراجات کے حوالے سے ہی نہیں بلکہ سیاسی گہما گہمی کے حوالے سے بھی نئی تاریخ رقم کرے گا کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار طیاروں کو انتخابی مہم کے لیے استعمال کیا گیا۔ پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے اپنے حلقوں میں پمفلٹ فضا سے گرائے جب کہ کچھ حلقوں میں تو امیدواروں کی جیت پر جوا لگانے کی اطلاعات بھی میڈیا کے ذریعے سامنے آ چکی ہیں۔
یوں تو کئی سیاسی جماعتیں انتخابات میں شریک ہیں جن میں ن لیگ، پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، جے یو آئی، آئی پی پی، متحدہ قومی موومنٹ، ق لیگ، جی ڈی اے، اے این پی سمیت صوبائی سطح کی سیاسی جماعتیں شامل ہیں۔ پی ٹی آئی کو الیکشن کمیشن انتخابی نشان بلے سے محروم کر چکی، جس کی وجہ سے اس کے نامزد امیدوار آزاد حیثیت میں اور مختلف انتخابی نشانات کے ساتھ الیکشن لڑ رہے ہیں۔ اس الیکشن کے لیے جہاں ن لیگ اور پی پی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں نے آزادانہ اور بھاری رقم خرچ کر کے انتخابی مہم چلائی ہے وہیں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کو اپنی انتخابی مہم چلانے میں کئی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا اور اکثر حلقوں میں امیدواروں نے صرف پمفلٹ اور پوسٹرز کے ذریعے ہی کام چلایا جب کہ ان کے کئی امیدواروں کو قید و بند کا سامنا ہے۔ الیکشن سے قبل جس طرح بانی پی ٹی آئی عمران خان اور وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کو سائفر کیس اور پھر بانی پی ٹی آئی اور ان کی اہلیہ کو نکاح کیس میں سزا سنائی گئی ہے، اس کے بعد بعض غیرجانب دار حلقوں اور سیاسی مبصرین نے الیکشن کی شفافیت پر سوال اٹھایا ہے۔
لائیو: پاکستان پیپلزپارٹی کا شہید محترمہ بینظیر بھٹو میونسپل اسٹیڈیم، لاڑکانہ میں انتخابی جلسہ عام https://t.co/zRLp78r9vb
— Pakistan Peoples Party – PPP (@PPP_Org) February 6, 2024
الیکشن کے لیے سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم لگ بھگ دو ماہ جاری رہی۔ سیاسی جماعتوں کی ملک گیر انتخابی مہم کا جائزہ لیا جائے تو نوجوان سیاسی رہنما اور پی پی چیئرمین بلاول بھٹو سب سے آگے نظر آتے ہیں۔ انہوں نے کراچی تا خیبر سب جگہ سیاسی ماحول کو گرمایا اور بڑے جلسے کیے تاہم ن لیگ جس کی جانب سے بڑے بڑے دعوے سامنے آئے ہیں، ان کے قائد نواز شریف سمیت صف اول کی قیادت نے انتخابی مہم میں بلوچستان اور سندھ کو یکسر نظر انداز کیا اور ایک بھی جلسہ نہیں کر سکے۔ ن لیگ کے اس اقدام سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کا فوکس طاقت کا مرکز پنجاب ہی رہا ہے تاہم ان کا یوں دو صوبوں کے عوام سے دور رہنا ان کے لیے سیاسی خسارے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
ن لیگ، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، جماعت اسلامی، استحکام پاکستان پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان الیکشن سے کئی روز قبل اپنے اپنے سیاسی منشور کا اعلان کر چکی ہیں جس میں عوام کے لیے نئی ملازمتیں پیدا کرنے، نئے گھر بنانے، تنخواہوں میں اضافہ، ترقیاتی سمیت کئی عوامی فلاحی منصوبے، غربت اور مہنگائی کا خاتمہ سمیت دیگر منصوبے بھی شامل ہیں لیکن اگر عوام ذہن پر زور ڈالیں تو اس منشور میں کوئی ایسی نئی بات نہیں، جو اس سے قبل نہ کی گئی ہو جب کہ بجلی مفت دینے کے وعدے پر تو لگتا ہے کہ سیاسی جماعتیں ایک پیج پر ہیں اور تقریباً ہر جماعت نے اپنے ووٹرز سے اقتدار میں آ کر انہیں مفت بجلی فراہم کرنے کا دلفریب وعدہ کیا ہے، تاہم کسی جماعت نے اس منشور پر عملدرآمد کا راستہ نہیں بتایا کہ عوام کو جو سبز باغ الیکشن سے قبل دکھائے جا رہے ہیں، تو جب جیتنے کے بعد اس پر عملدرآمد کا وقت آئے گا تو وہ کیسے ان وعدوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچائیں گے۔
Nawaz Sharif & Lahore are a match made in heaven!
PML-N promises, PML-N delivers! A vote for PML-N is a vote for progress!#ترقی_دوبارہ_شیر_ہمارا#EkVariFerSher#قوم_کا_فیصلہ_نواز pic.twitter.com/ffCOL2cfty
— PMLN (@pmln_org) February 7, 2024
سیاسی جماعتوں نے قوم کے سامنے صرف اپنے اپنے منشور ہی پیش نہیں کیے بلکہ اس کے ساتھ وہ نئے نعروں کے ساتھ میدان میں اتری ہیں، جیسا کہ ن لیگ کا نعرہ ’’پاکستان کو نواز دو‘‘، پیپلز پارٹی کا نعرہ ’’چنو نئی سوچ کو‘‘، پی ٹی آئی کا نعرہ ’’ظلم کا بدلہ ووٹ سے‘‘، متحدہ قومی موومنٹ کا نعرہ ’’اپنا ووٹ اپنوں کے لیے‘‘ جیسے نعرے شامل ہیں۔ سب سے اہم بات کہ قومیں اور ملک کا مستقبل نوکریوں، خیراتی پروگراموں، مفت بجلی فراہمی کے پروگراموں سے نہیں بلکہ جدید تعلیم سے بنتا ہے لیکن ہماری کسی سیاسی جماعت میں شاید یہ شعبہ ترجیحاً شامل نہیں جس کی اس وقت اشد ضرورت ہے اور اگر شامل بھی ہے تو وہ سر فہرست نہیں ہے۔ پاکستان کے روشن مستقبل اور ہماری بقاء کے لیے اس وقت جس چیز کی اشد ضرورت ہے وہ جدید تعلیم اور جدید نظام صحت ہے لیکن ملک کی 75 سالہ تاریخ دیکھیں تو ان دونوں شعبوں کے ساتھ ہر دور میں سوتیلی ماں جیسا ہی سلوک کیا گیا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ جب بھی ہمارے حکمرانوں اور مقتدر طبقوں کو اپنے علاج اور بچوں کی اعلیٰ تعلیم کی ضرورت پڑتی ہے تو انہیں پاکستان میں ایسا کوئی ادارہ نظر نہیں آتا جہاں ان کی ضرورت پوری ہوتی ہو اور پھر وہ بیرون ملک کا ہی رخ کرتے ہیں۔فیصلے کی گھڑی آ گئی ہے اور ووٹ ڈالنے سے قبل قوم کو سوچنے کا وقت ملا ہے کہ وہ اپنے مستقبل کے لیے کس کو چُنیں۔ انتخابی میدان میں موجود تقریباً تمام سیاسی جماعتیں تنہا یا اتحاد کی صورت میں اقتدار کا حصہ رہ چکی ہیں اور کچھ جماعتیں تو متعدد بار اقتدار کے مزے لے چکی ہیں۔ اب یہ وقت ہے کہ عوام سیاستدانوں سے سوال کرنے کے بجائے خود سے سوال کریں کہ جو وعدے یہ جماعتیں کر رہی ہیں اپنے اپنے دور اقتدار میں انہوں نے کن وعدوں پر عمل کیا۔ جو نعرے آج یہ دے رہی ہیں ان نعروں کی عملی تفسیر کب بنے؟
عوام ضرور سوچیں۔ ذات، برادری، لسانیت، صوبائیت، شخصیت پرستی سے سے باہر نکلیں۔ صرف وقتی فائدہ نہ دیکھیں بلکہ اپنی آنے والی نسل کا مستقبل دیکھیں۔ انفرادی نہیں بلکہ ایک قوم بن کر سوچیں اور پھر جو جواب انہیں خود سے ملے اس کے مطابق کل گھروں سے نکلیں اور ذمے دار پاکستانی کی حیثیت سے اپنے روشن مستقبل کے لیے ووٹ کا جمہوری حق استعمال کریں، کیونکہ ایک خوشحال جمہوری پاکستان ہی ہم سب کی خوشحالی کا ضامن ہے۔