The news is by your side.

داستان چہار یار (ناول)

تبصرہ نگار: حمیرا اطہر

کوئی ڈیڑھ ماہ پہلے حسن جاوید نے اپنی کتاب ”داستان ِ چہار یار“ دی۔ قبل اس کے کہ کتاب کا تعارف لکھا جائے، مناسب ہوگا کہ مصنف کا تعارف کرا دیا جائے۔

اگرچہ ان سے میری ملاقات بھی ڈھائی تین ماہ پہلے ہی ہوئی لیکن ہم پیشہ ہونے کے ناتے پہلی ہی ملاقات میں اجنبیت نہیں محسوس ہوئی۔ موصوف معاشیات کی تعلیم حاصل کر کے صحافت میں خامہ فرسائی کرنے لگے۔ اس کی وجہ بھی خاصی دلچسپ ہے۔ جن دنوں وہ شعبۂ صحافت (جامعہ کراچی) میں داخلہ لینا چاہتے تھے، ان کے ماموں ”سعید احمد“ اس کے سربراہ تھے، جن کی خواہش تھی کہ بہن کا بیٹا معاشیات پڑھ کر اپنے گھر کی معیشت مضبوط کرے۔ سو انہوں نے اپنے شعبے میں داخلہ دینے کی بجائے زبردستی شعبۂ معاشیات میں داخل کرا دیا۔ حسن جاوید نے مارے باندھے معاشیات میں ایم اے تو کر لیا لیکن جامعہ کراچی سے نکلتے ہی کوچۂ صحافت کا رخ کیا۔ ابتدا میں معاشیات ہی کے موضوع پر مضامین لکھتے رہے پھر اپنے اصل رنگ میں آگئے۔ یعنی چکی کی مشقت کے ساتھ مشق سخن بھی شروع کر دی۔ افسانوں کے ساتھ ساتھ ایک ناول ”شہر ِ بے مہر“ لکھا۔ زمانۂ طالبِ علمی میں بائیں بازو کی طلبا تنظیم این ایس ایف میں سرگرم رہے تھے۔ بعد میں شہر کی سماجی، علمی اور فکری نشستوں میں بھی حصہ لیتے رہے جس کا رنگ اِس ناول میں بھی نظر آتا ہے۔

”داستان ِچہار یار“ ان کا دوسرا ناول ہے، جس کا عنوان پڑھتے ہی اردو کے کلاسیک ادیب میر امن کے ناول ”باغ و بہار“ کا دھیان آ جاتا ہے، جو دراصل امیر خسرو کی کتاب ”قصہ چہار درویش“ کا اردو ترجمہ ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ یہ داستان چار ایسے بادشاہوں کی ہے جنہیں عشق نے درویشی کی راہ دکھائی اور جب یہ چاروں اکٹھے ہوئے تو اپنی اپنی داستان کچھ اس طرح سنائی کہ دہلی کی پوری معاشرت سامنے آگئی۔

جب کہ ”داستان چہار یار“ میں آج کی داستان بیان کی گئی ہے لہٰذا، معاشرت اور طرزِزندگی بھی آج ہی کی ہے۔ یہ داستان چار ایسے نوجوانوں کی ہے جو امتدادِ زمانہ سے بچپن ہی میں یتیم خانے میں پہنچا دیے گئے۔ ان کے درمیان گہری دوستی قائم ہوگئی پھر یتیم خانے کی سختی برداشت نہ کر پانے کے سبب ایک رات وہاں سے فرار ہو جاتے ہیں۔ باہر آ کر اُنہیں خیال آتا ہے کہ اگر وہ چاروں ایک ساتھ رہے تو آسانی سے پکڑے جا سکتے ہیں چناں چہ ایک جگہ مقرر کر کے کہ ہر دو سال بعد یہیں ملیں گے، قسمت آزمائی کے لیے جدا ہو جاتے ہیں۔ پھر کیا ہوا؟ یہ ناول اسی سوال کے جواب پر محیط ہے۔ ناول کے چاروں مرکزی کردار، انور، اسلم، امجد اور ڈیوڈ، جن میں بارہ سال کا انور سب سے بڑا ہے باقی تینوں اس سے ایک ایک دو دو سال چھوٹے ہیں۔ اس ناتے انور ان کا لیڈر بن جاتا ہے۔

حسن جاوید نے ان چاروں کرداروں کے ذریعے شہر بلکہ معاشرے کی وہ تمام خرابیاں نہایت آسانی سے بیان کر دی ہیں جن کی و جہ سے کوئی بھی بچہ یا بڑا، جرائم اور مذہبی و سیاسی انتہا پسندی کا شکار ہو جاتا ہے۔ خصوصاً بے سہارا نوجوان کس طرح جرائم پیشہ گروہ کا حصہ بن جاتے ہیں اور جرائم پیشہ افراد کس طرح ان کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ایک معصوم یتیم بچہ، جو یتیم خانے میں ہونے والے بدترین سلوک سے تنگ آکر ایک اچھی اور صاف ستھری زندگی کا خواب لے کر اپنے دوستوں کے ساتھ فرار ہوا تھا اور کس طرح جرائم کی دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے کہ اس کا نام ہی ”انور تباہی“ پڑ جاتا ہے۔ اگرچہ وہ بہت نیکیاں بھی کرتا ہے لیکن آخر میں تباہی اس کا مقدر بنتی ہے۔

ناول کا مرکزی نکتہ انسانی حقوق کی پامالی ہے اور اس کے کردار اس کے خلاف نبردآزما نظر آتے ہیں۔ اس اعتبار سے ”داستان چہار یار“ کو مزاحمتی یا مدافعتی ناول بھی کہا جا سکتا ہے۔ اس کا اندازہ پہلے ہی باب سے ہو جاتا ہے جب وہ چاروں لڑکوں کے بھاگنے کا واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ”یتیم خانے میں زندہ رہنے کے لیے کوئی ایک مسئلہ تو تھا نہیں۔ قدم قدم پر ذلت سے سمجھوتا کرنا پڑتا تھا۔ بچے کسی بھی علاقے، رنگ، نسل، مذہب اور پس منظر کے ہوں، ذلت کو نہ صرف سمجھتے ہیں بلکہ اس پر کسی نہ کسی طرح کا ردِعمل بھی دیتے ہیں، جو نہیں دے پاتے، اس سے خوف زدہ اور دبے دبے سے رہتے ہیں۔“

ناول کا انتساب ہے، ”اُن تمام لوگوں کے نام، جو انسانی حقوق کے لیے لڑتے ہیں.“ اور پورے ناول میں انسانی حقوق کی پاس داری کا پہلو نمایاں ہے۔ جب ہم انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں تو اس میں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ ہندو، سکھ اور عیسائی اقلیتیں بھی آجاتی ہیں۔ مصنف نے کمال مہارت سے اقلیتی طبقے کے مسائل نہ صرف بیان کیے ہیں بلکہ انہیں حل کرنے کی جدو جہد میں کرداروں کو جھو جتے بھی دکھایا ہے جس کے نتیجے میں کامیابی ان کا مقدر بنتی ہے۔

ہندو لڑکی کی شادی اسلام قبول کروا کے مسلمان لڑکے سے کرنا بھی معاشرے کا عام چلن ہے، اس طرح کے واقعات میں درپردہ عوامل کیا ہوتے ہیں؟ مصنف نے اس کا اظہار بھی بڑی خوبی سے کیا ہے۔ بہت کم مصنفین نے اقلیتوں کے مسائل پر اس بھرپور انداز میں قلم اٹھایا ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ ناول میں صرف معاشرے کی بدصورتی اور جرم و سزا ہی کی داستان بیان کی گئی ہے۔ اس میں زندگی کی بہت خوب صورت حقیقت یعنی محبت کی خوشبو کے جھونکے بھی ملتے ہیں۔ خود ”انور تباہی“ کے بارے میں کس خوب صورتی سے لکھا ہے:”انور ایک دفعہ نجمہ سے ڈیوڈ کے گھر ایک دعوت پر ملا تھا اور اسے دیکھتے ہی اس پر فدا ہو گیا تھا لیکن دوسرے ہی لمحے اپنی صورت ِ حال کا احساس کر کے ہوش میں آگیا۔ اپنی زندگی کا پتا نہیں، اسے کیا حق ہے، وہ کسی کی زندگی تباہ کرے۔ اس نے دل میں سوچا۔ عورتیں مردوں کی خاص نظریں پہچان لیتی ہیں۔ کھانے کے دوران لزا نے چپکے سے انور کے کان میں کہہ دیا کہ ’انوار بھائی، ایک ہفتے بعد نجمہ کی شادی ہونے والی ہے۔ یہ سرگوشی سن کر انور مکمل ہوش میں آگیا۔ خوشبو کی جو ایک لہر اس کے دل میں اٹھی تھی، وہ حقیقت کی کیچڑ پھلانگ کر ہوا ہو چکی تھی۔“

متذکرہ ناول کا ایک مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ اس کے کچھ کردار اخلاقی پستی میں گھرے ہونے کے باوجود کہیں نہ کہیں تبدیلی کی ایک سوچ رکھتے ہیں اور اس کے لیے کوشش کرتے نظر بھی آتے ہیں۔ ناول نگار کی اپنے کرداروں پر گرفت بھی بہت مضبوط ہے، وہ کسی بھی کردار کو بے مہار یا انجام تک پہنچائے بغیر نہیں چھوڑتے۔ یہ کسی بھی لکھنے والے کی ایک بڑی خوبی ہے جو حسن جاوید کے قلم میں نظر آتی ہے۔

اب ذرا کچھ سخن گسترانہ باتیں۔ مصنف نے سرورق پر اپنا نام حسن جاوید لکھا ہے تو پس ورق پر حسن جاوید قیصر۔ خیر اس سے تو صرف ِ نظر کیا جا سکتا ہے لیکن کتاب کی تزئین و آرائش سے روگردانی طبیعت پر گراں گزرتی ہے۔ تمام ابواب یکے بعد دیگرے کمپوز کر دیے گئے ہیں، جب کہ اصولاً ہر باب کو نئے صفحے سے شروع ہونا چاہیے۔ ممکن ہے ایسا صفحات کی تعداد کم کرنے کی خاطر کیا گیا ہو لیکن دو چار صفحات کی بچت سے کتاب کا جو حسن مارا گیا ہے وہ ناقابل معافی ہے۔ اسی طرح پروف کی غلطیاں بھی پڑھنے کا مزہ کرکرا کر دیتی ہیں۔ امید ہے کہ آئندہ ایڈیشن (اگر آیا) میں ان کا خیال رکھا جائے گا۔

آخر میں پھر کہوں گی کہ ناول اپنے موضوع اور انداز بیان کے اعتبار سے نہ صرف انتہائی دلچسپ اور پڑھنے کے قابل ہے بلکہ شروع کے ابواب پڑھ کر تو شوکت صدیقی کے ناول ”خدا کی بستی“ کی طرف بھی دھیان جاتا ہے، جس میں گھروں سے بھاگے ہوئے دو بچوں ”نوشا“ اور ”را جہ“ کے ذریعے معاشرے کی بدصورتیوں کو اجاگر کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے مصنف حسن جاوید یقیناً مبارک باد کے مستحق ہیں۔ امید ہے جلد ہی ہم ان کی نئی کتاب بھی پڑھ سکیں گے۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں