ڈیگو گارشیا، بحر ہند میں واقع ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے جو اپنی فوجی اہمیت اور مقامی آبادی کے ساتھ ہونے والے ظالمانہ سلوک کی وجہ سے بین الاقوامی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ یہ جزیرہ اصل میں حلقہ نما مونگے کی چٹانیں ہیں جو مرجانی جھیل کو گھیرے ہوئے ہیں۔ اس کی جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے اسے ایک اہم فوجی اڈے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
ڈیگو گارشیا کی تاریخ
ڈیگو گارشیا کی تاریخ بہت ہی دلچسپ اور پیچیدہ ہے۔ یہاں کبھی مقامی لوگ آباد تھے جنہوں نے صدیوں سے اس جزیرے کو اپنا گھر بنایا ہوا تھا۔ تاہم، 1960 کی دہائی میں برطانوی حکومت نے اس جزیرے کو امریکہ کو لیز پر دے دیا تاکہ وہاں ایک فوجی اڈا بنایا جا سکے۔
مقامی آبادی کا بے دخل کرنا
اس فیصلے کے نتیجے میں، جزیرے کی مقامی آبادی کو جبری طور پر بے دخل کر دیا گیا اور انہیں موریشس اور سیشلز جیسے دیگر ممالک میں منتقل کر دیا گیا۔ اس عمل کے دوران، مقامی لوگوں کو مناسب معاوضہ نہیں دیا گیا اور نہ ہی انہیں اپنے آبائی وطن واپس جانے کی اجازت ملی۔ اس واقعے کو چاگوس جزائر کی جبری بے دخلی کے نام سے جانا جاتا ہے۔
فوجی اڈے میں تبدیلی
مقامی آبادی کو بے دخل کرنے کے بعد، ڈیگو گارشیا کو ایک بڑے فوجی اڈے میں تبدیل کر دیا گیا۔ یہاں امریکی فوج کا ایک اہم اڈا قائم کیا گیا جسے بحر ہند میں امریکی فوجی موجودگی کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ اس اڈے سے امریکی فوج خطے میں اپنی فوجی کارروائیاں انجام دیتی ہے۔
انسانی حقوق کی خلاف ورزی
مقامی آبادی کو جبری بے دخلی کرنا انسانی حقوق کی ایک سنگین خلاف ورزی سمجھی جاتی ہے۔ اس واقعے نے دنیا بھر میں بہت سے لوگوں کو غمگین کیا اور انہوں نے مقامی لوگوں کو انصاف دلانے کے لیے آواز اٹھائی۔
ڈیگو گارشیا کا موجودہ دور
آج بھی ڈیگو گارشیا ایک فوجی اڈے کے طور پر استعمال ہوتا ہے اور یہاں عام لوگوں کی رسائی محدود ہے۔ مقامی لوگ اب بھی اپنے آبائی وطن واپس جانے اور اپنی زمینوں کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ڈیگو گارشیا کی کہانی ایک ایسی کہانی ہے جو ہمیں انسانیت کے ظالمانہ چہرے سے روشناس کرتی ہے۔ یہ کہانی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ طاقت ور لوگ کمزور لوگوں کے ساتھ کیا کچھ کر سکتے ہیں۔