مصطفیٰ زیدی کی نظمیں آج بھی باذوق قارئین میں مقبول ہیں. تیغ الہ آبادی کے نام سے شاعری کا آغاز کرنے والےاس شاعر نے بعد میںمصطفیٰ زیدی کے نام سے شہرت پائی اور خاص طور پر اپنی نظموںکی وجہ سے مقبول ہوئے.
وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور سی ایس پی افسر تھے جن کی موت پراسرار حالات میں ہوئی. مصطفی زیدی رومان پرور انسان تھے جنھوں نے خود کشی کی تھی یا انھیں قتل کیا گیاتھا، یہ آج تک معلوم نہیں ہوسکا، لیکن ایک حسین و جمیل لڑکی شہناز کا نام اس حوالےسے اخبارات اور رسائل میںضرور سامنے آیا.
اردو کے اس نام ور شاعر کی خودکشی کی وجہ شہناز تھی یا وہ ان کے قتل میں ملوث تھی ، یہ تو اب بھی ایک راز ہی ہے، لیکن عدالت نے شہناز کو اس کیس سے بری کردیا تھا اور مصطفی زیدی کی موت کو خودکشی قرار دیا تھا.
اس وقت جو خبریں شایع ہوئیں ان کے مطابق جس فلیٹ میںیہ افسوس ناک واقعہ پیش آیا تھا ، وہاں شہناز بھی بے ہوشی کی حالت میںموجود تھی. اگر وہ مصطفی زیدی کی قاتل تھی تو واردات کے بعد وہاں کیوں رکتی یا اس قتل میں کوئی اور بھی شریک تھا تو وہ شہناز کو کیوں وہاں چھوڑ کر بھاگ جاتا؟ شہناز قاتلوں کے ساتھ فرار کیوں نہیں ہوئی؟ دوسری طرف یہ بات بھی اخبارات کے ذریعے مصطفی زیدی کے مداحوں تک پہنچی کہ انھیں اس وقت کی ملک کی ایک طاقتور شخصیت نے قتل کروایا تھا. یہ واقعہ کچھ یوں تھا کہ ایک اطلاع پر کراچی کے علاقے کے ڈی اے کےفلیٹ کا دورازہ توڑا گیا اور مجسٹریٹ کے ساتھ پولیس اندر داخل ہوئی تو مصطفی زیدی کی لاش بستر پر پڑی تھی۔ ان کے ناک سے خون بہتا ہوا بستر پر پھیل چکا تھا۔ ٹیلی فون الٹا پڑا تھا اور بستر پر فنائل کی گولیاں بکھری تھیں۔ ساتھ والے کمرے ایک نوجوان خاتون بےہوش پڑی تھی۔ یہ شہنازگل تھی جس کی محبت میںمصطفی زیدی گرفتار تھے اور اس کے لیے کئی نظمیںبھی کہہ چکے تھے.
اس کیس کی ایف آئی آرڈرگ روڈ ،کراچی کے تھانے میں کٹی۔اخبارات میں قتل کیس سے متعلق رپورٹوں کے مطابق شہناز نے پولیس کو بتایا کہ مصطفیٰ زیدی اسے پسند کرتے تھے اور اس سے شادی پر اصرار کرتے تھے، مگر وہ چونکہ شادی شدہ اور دو بچوں کی ماں تھی، اس لیے آگے نہیں بڑھ سکتی تھی. جب کہ مصطفی زیدی بھی ایک جرمن خاتون کے شوہراور دو بچوں کے باپ تھے۔ شہناز نے بیان دیا کہ وہ اتفاقاً مصطفیٰ زیدی سے ملنے کے لیے آئی تھی، اس دوران پیاس محسوس ہوئی، جس پر شاعر نے انہیں مشروب دیا جسے پی کر وہ بےہوش ہو گئی۔ ہوش میںآنے پر پولیس اس کے سامنے تھی.
مصطفی زیدی کا یہ کیس اور شہنازگل کی گرفتاری کے بعد عدالت میں ہر پیشی، اور ہر سماعت پر اخبارات کے ضمیمےنکلتے جن پر ان کی بڑی بڑی تصویریں اور سرخیاں ہوتی تھیں۔ ہر خاص و عام اس کیس میں گہری دل چسپی لے رہا تھا. شہناز گل کو حسین و جمیل قتالہ لکھا جارہا تھااور ادبی حلقوں سمیت عوام میںقیاس آرائیوں کے ساتھ یہ خبربھی عام ہوئی کہ شہناز گل اسمگلروں کے کسی بین الاقوامی ریکٹ کا حصہ ہے اور شاید زیدی کو اس گروہ کے خلاف کسی طرح کی معلومات حاصل ہو گئی تھیں، جس کی وجہ سے انہیں قتل کر دیا گیا۔ پولیس نے شہناز کے خلاف اسمگلنگ کے الزام میں بھی تفتیش شروع کر دی۔ یہ مقدمہ دو سال تک چلا۔ بالآخر 26 مئی 1972 کو ڈسٹرک میجسٹریٹ کی عدالت اس نتیجے پر پہنچی کہ مصطفیٰ زیدی نے خودکشی کی تھی۔ شہناز گل کو ناکافی ثبوت کی بنا پر بری کر دیا گیا۔
یہ واقعہ 12 اکتوبر 1970ء کا ہے اور مصطفی زیدی اس سے پہلے بھی عاشق مزاج مشہور تھے. اس حوالے سے چند لڑکیوں کے نام لیے جاتے تھےاور یہ بدنامی مصطفی زیدی کو نئے عشق لڑانے سے نہیںروک سکی تھی. شہناز گل کا تعلق گوجرانوالہ سے تھا۔ ایک خبرکے مطابق وہ کالج کی خوش اخلاق، ہنس مکھ اور ہونہار طالبہ تھی۔ غیر نصابی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھی. 1961 میں اس نے خفیہ طور پر شادی کی۔ ایک امیر شخص سے شادی کے بعد شہناز اونچے درجے کے ہوٹلوں اور کلبوں میںنظر آنے لگی اور ہائی سوسائٹی میںپہچانی گئی۔وہیں کسی محفل میں اس کی ملاقات مصطفیٰ زیدی سے ہوئی جو اس پر فریفتہ ہو گئے۔
عدالتی تحقیقات کے دوران یہ بھی سامنے آیا کہ مصطفیٰ زیدی آخری دنوںمیںبےحد پریشان تھے،انھیں ملازمت سے برطرف کردیا گیا تھا اور بدعنوانی کا کیس چل رہا تھا.ان کا پاسپورٹ ضبط کرلیا گیا تھا جب کہ بیوی بچے جرمنی جاچکے تھے. ان کی جدائی میں گھلتے ہوئے شہناز سے ان کے تعلقات میں بگاڑ آرہا تھا اور وہ اس سے نالاں تھے.دوسری طرف یہ بھی ایک اہم بات تھی کہ مصطفی زیدی اکثر تیز رفتار ی سےڈرائیونگ کرتے تھے اور ان کی کار کو معمولی حادثہ بھی پیش آچکا تھا. کہتے ہیں کہ ان میںخودکشی کا بھی رجحان موجود تھا. وہ جہاز بھی اڑانا جانتے تھے اور ان کے چھوٹے طیارے کو بھی حادثہ پیش آیا تھا جس میں وہ محفوظ رہے تھے. ایک قیاس یہ کیا گیا کہ اپنی محبوبہ شہناز سے تکرار کے بعد مصطفی زیدی نے شراب پی کر فنائل اور نیند کی گولیاں کھائیں اور شاید نشے یا غنودگی کی حالت میں فرش پر گر پڑے جس سے ان کے سر پر زخم آیا اور اسی حالت میں انتقال ہو گیا۔ ممتاز شاعر اور ادیب احمد ندیم قاسمی نے رسالہ افکار میں اپنے ایک تعزیتی مضمون میں مصطفی زیدی کی خودکشی کے امکان کو رد کیا تھا۔
مصطفیٰ زیدی کا یہ شعرضرب المثل بناا اور خود ان کی موت کے بعد ان کی ذات اور پراسرار حالات میں ان کی موت کے تذکرے میںاسے برتا جاتا رہا. شعر ملاحظہ کیجیے:
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
مصطفی زیدی کی ایک نظم “وفا کیسی” آپ کے شعری ذوق کی نذر ہے
آج وہ آخری تصویر جلا دی ہم نے
جس سے اس شہر کے پھولوں کی مہک آتی تھی
جس سے بے نور خیالوں پہ چمک آتی تھی
کعبۂ رحمت اصنام تھا جو مدت سے
آج اس قصر کی زنجیر ہلا دی ہم نے
آگ، کاغذ کے چمکتے ہوئے سینے پہ بڑھی
خواب کی لہر میں بہتے ہوئے آئے ساحل
مسکراتے ہوئے ہونٹوں کا سلگتا ہوا کرب
سرسراتے ہوئے لمحوں کے دھڑکتے ہوئے دل
جگمگاتے ہوئے آویزاں کی مبہم فریاد
دشت غربت میں کسی حجلہ نشیں کا محمل
ایک دن روح کا ہر تار صدا دیتا تھا
کاش ہم بک کے بھی اس جنس گراں کو پا لیں
خود بھی کھو جائیں پر اس رمز نہاں کو پا لیں
عقل اس حور کے چہرے کی لکیروں کو اگر
آ مٹاتی تھی تو دل اور بنا دیتا تھا
اور اب یاد کے اس آخری پیکر کا طلسم
قصۂ رفتہ بنا زیست کی ماتوں سے ہوا
دور اک کھیت پہ بادل کا ذرا سا ٹکڑا
دھوپ کا ڈھیر ہوا دھوپ کے ہاتوں سے ہوا
اس کا پیار اس کا بدن اس کا مہکتا ہوا روپ
آگ کی نذر ہوا اور انہی باتوں سے ہوا