ایکسٹیسی: وہ مقبول ترین نظم جس میںپروین شاکر نے لمحۂ وصل کو تصویر کیا !
رومانوی شاعری ہو یا عورت ذات کا دکھ، اس کی زندگی کے غم یا چھوٹی بڑی چھوٹی خوشیاں، پروین شاکراپنی نظموں میں بہت خوب صورتی اور احساس کی شدت کے ساتھ اسےبیان کرتی ہیں. پٔاکستان کی مقبول ترین شاعرہ پروین شاکر کی نظموں کے اشعار میں جو کرب دیکھا جاسکتا ہے اور جس غم و اندوہ کی تصویر قاری کے سامنے بنتی ہے، وہ بہت اثر انگیز ہے. پروین شاکرکی ایک مشہور نظم ہم یہاں نقل کررہے ہیں جو کسی دل میں موجزن جذبات، رومان اور لمحۂ وصل کے گزر جانے کے رنج و ملال اور رائیگانی کے احساس پر مبنی ہے.
شاعرہ پروین شاکر کئی برس پہلے اسلام آباد میں ایک ٹریفک حادثے میں زندگی کی بازی ہار گئی تھیں. پروین شاکر کی یہ نظم اکثر باذوق قارئین کی بیاض کا حصہ رہی ہے. ملاحظہ کیجیے.
پروین شاکر کے حالات زندگی پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
نظم: “ایکسٹیسی”
سبز مدھم روشنی میں سرخ آنچل کی دھنک
سرد کمرے میں مچلتی گرم سانسوں کی مہک
بازوؤں کے سخت حلقے میں کوئی نازک بدن
سلوٹیں ملبوس پر آنچل بھی کچھ ڈھلکا ہوا
گرمیٔ رخسار سے دہکی ہوئی ٹھنڈی ہوا
نرم زلفوں سے ملائم انگلیوں کی چھیڑ چھاڑ
سرخ ہونٹوں پر شرارت کے کسی لمحے کا عکس
ریشمیں بانہوں میں چوڑی کی کبھی مدھم کھنک
شرمگیں لہجوں میں دھیرے سے کبھی چاہت کی بات
دو دلوں کی دھڑکنوں میں گونجتی تھی اک صدا
کانپتے ہونٹوں پہ تھی اللہ سے صرف اک دعا
کاش یہ لمحے ٹھہر جائیں ٹھہر جائیں ذرا!